بچپن میں ہماری نانی ہمیں ہر گز محبت میں نہیں، بلکہ کسی قدرغصے اور خفگی کی کیفیت میں ’پرانی روح‘ کہا کرتی تھیں۔ نانی کے اِس جلال کی وجہ ہمارا گرمیوں کی تپتی سنسان دوپہر میں، گھر بھر میں بھٹکتے پھرنا تھا، جس کی وجہ اور کچھ نہیں ہماری طبیعت کا وہ اضطراب تھا جو ہمیں دم بھر کو چین نہ لینے دیتا۔ اِدھر نانی کی آنکھ لگی اور اِدھر ہم اپنے بستر سے نکل کر بھاگے۔ یہ اضطراب آج بھی ایسے ہی قائم ہے، اب بھی کارِجہاں دراز سے ہمیں ذرا جو دم بھر کو فرصت ملتی ہے، ہم اپنی ازلی بے چین اورپرانی روح کے ہاتھوں مجبور ہو کر، بھٹکنے کو پھر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
حالیہ موسمِ سرما کی تعطیلات میں قلعہ دیرآور کی آشفتگی اور زبوں حالی دیکھنے کے بعد ہمارا دوسرا پڑاؤ جنوبی پنجاب میں ’اُچ شریف‘ کے مزارات اور خانقاہوں کی زیارت تھی۔ ہمارے ایک خیر خواہ نے ہمیں فون کر کے بطور خاص یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اُن کھنڈرات میں اب دیکھنے دکھانے لائق کچھ نہیں بچا۔ اور اگر محض عبرت ہی حاصل کرنی ہے تو وطنِ عزیز میں ایسے مقاماتِ آہ وفغاں کی کمی نہیں۔ خیر ہم نے عقل و دانش کی ایسی ہر بات کو بالائے طاق رکھا اور اپنا سفر جاری رکھا۔
آپ نے کبھی عقیدے اور یقین کے مابین فاصلے کو ماپنے کی سعی کی ہے؟ اگر نہیں! تو آپ کو جاننا ہوگا کہ تشنہ حسرتیں اور بلکتی خواہشیں، کیسے اپنی تکمیل کے لیے، انسان کو درباروں، خانقاہوں اور مزارات کا طواف کرتی ہیں، روتی ہیں، گڑگڑاتی ہیں اور منتیں مانگتی ہیں۔ جالیوں کے مقدس دھاگوں میں بندھی دعائیں اور طاق میں رکھے چراغوں کے ساتھ جلتی بجھتی زندگیاں، کیسی عاجزی و بندگی کی علامت ہیں۔ کبھی کبھی انسان عقیدے کے سامنے کیسے اور کیوں بے بس ہو جاتا ہے، یہ عقدہ بھی ضرور وا ہونا چاہئے۔
اور تو کچھ نہیں، بس ہمیں یہاں اِن درگاہوں، خانقاہوں اور مزارات میں، اِن سادہ اور معصوم لوگوں پہ بہت پیار آتا ہے، جنھیں عقائد کا یقین، دامن سے پکڑ کر اِن مزارات یا خانقاہوں میں ماتھا ٹیکنے، عبادت کرنے، یا چادریں چڑھانے کے لیے، کھینچ لاتا ہے۔ پورے ہندوستان کی مٹی میں گندھی، ماضی کی یہ ایسی روایات ہیں جو کہیں مندر، کہیں گرجا، کہیں گردوارے اور کہیں کسی مزار یا خانقاہ کی شکل میں، زندہ و باقی ہیں۔ شاید اسی لیے اپنی دھرتی سے جڑے، ان سادہ معصوم لوگوں کے دین، دھرم، رویے اور مناجاتیں ہمیں بہت عزیز ہیں۔
ہمیں بتایا گیا کہ 550 سال قبل از مسیح میں آباد ہونے والا یہ شہر، جو اپنی قدامت، امارت اور شہرت کے باعث ہمیشہ سے ہی فاتحین اور علم و فضل کی بڑی شخصیات کی توجہ کا مرکز رہا، بارہا اُجڑااور بار ہا بسا۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن میں بھی اس شہر کے حوالے سے کچھ اشارے ملتے ہیں۔ سکندرِ اعظم نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد، تجارت و ثقافت کے اِس مرکز کا نام اسکندریہ رکھا، بعد ازاں سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، محمد بن قاسم اور دیگر مسلم فاتحین کے پے در پے حملوں کے بعد یہ علاقہ بھاٹیہ خاندان کے راجاؤں کی ملکیت بھی رہا، جسے بعد ازاں ریاست بہاولپور کے عباسی خاندان نے فتح کر لیا۔ اپنی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت کے پیشِ نظر، ہر دور میں علم و ادب کے گیانی، سادھو اور بعد از آمدِ اسلام اولیائے کرام نے اِس شہر کا رُخ کیا۔ جن کے اب یہاں، محض تذکرے اور مقبرے ہی باقی رہ گئے ہیں۔
اِن اولیائے کرام کے مقابر میں سب سے قدیم مرقد بخارا سے آئے،حضرت جلال الدین سرخ پوش کا ہے، جن کا شجرہ نسب کئی پشتوں بعد حضرت علی سے جا ملتا ہے۔ یہاں ان کے خانوادے کی اور بھی کئی چھوٹی بڑی قبریں ہیں، جن پہ مجاور ہمہ وقت موجود رہتے ہیں، دوسرا مزار، حضرت جلال الدین کے پوتے، حضرت جہانیاں کا ہے جنھیں بار ہا پیدل حج کرنے کے سبب جہاں گشت جہانیاں بھی کہا جاتا ہے۔ خانقاہ کے یہ دو مزار اپنی دیکھ بھال اور زائرین کے ہمہ وقت موجود ہونے کے سبب کسی حد تک درست حال میں ہیں۔ چھتوں اور ستون پر ہوئی خوبصورت منبت کاری کو دیکھ کر، آپ کو بے ساختہ قلعہ دراوڑ کی بالکل ایسی ہی لیکن خستہ اور ادھڑی ہوئی چھتیں اور ٹوٹے ہوئے ستون یاد آجائیں گے۔ مجاور حضرات مختلف مقدس چیزوں کی زیارت کے بعد زائرین سے نذرانے کا تقاضا بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ اِن نذرانوں کو سنبھالنے کے لیے سبز رنگ کے مقفل صندوق، مزار میں مختلف جگہوں پر نصب کیے گئے ہیں۔
ترکی میں اُچ کے معنی تین کے ہیں، اس شہر کی تاریخی اہمیت کی بنیاد یہاں کے تین مشہور اونچے ٹیلے یا مزار بھی ہیں جو اپنی بوسیدگی اور خستہ حالی کے باعث، عنقریب فنا ہونے کو ہیں۔ ان میں پہلا آدھا ادھورا گنبد بی بی جیوندی کا ہے جو حضرت جہانیاں جہاں گشت کی پوتی اور درویش باکرہ خاتون تھیں۔ محکمہ آثار قدیمہ کے نصب شدہ، مٹتے ہوئے بورڈ کے مطابق، بی بی سے عقیدت کی بنا پر یہ مزار، پندرھویں صدی کے آخری عشرے میں، خراسان کے حکمران محمد دلشاد نے بنوایا تھا، جس کے نصف حصے کو 1817ء کے سیلاب نے مسمار کر دیا تھا۔ سوچنے کی بات تھی کہ اتنا طویل وقت گزر جانے کے بعد بھی اس قدیم ورثے کی تعمیر و مرمت کی طرف توجہ کیوں نہیں دی گئی؟ یہاں دوسرا مزار حضرت جہانیاں کے استاد بہاؤالعلیم کا جبکہ تیسرا مزار، اِن مقابر کے معمار استاد نوریا کا ہے، جن کی خوبصورت کاریگری نے کسی زمانے میں اِن مقبروں کو دوام بخشا تھا۔ ان دو مقبروں کے حالات بھی اول الذکر سے قطعی مختلف نہیں، تینوں بوسیدہ و شکستہ مزار، اپنے انتہائی مختصر اور فنا ہوتے وجود کے سہارے کھڑے، اپنی آخری داستاں رقم کر رہے ہیں۔
جب ہم نے بی بی جیوندی کے مزار پر ہونے والے تعمیراتی کام کے بارے میں استفسار کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ خوش قسمتی سے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے، پاکستان کے جن 24 آثار کو عالمی ورثہ میں شامل کیا ہے ان چار آثار میں، بی بی جیوندی کا مزار، حضرت بہاؤالعلیم کا مزار، سید جلال الدین بخاری سرخ پوش کا مزار اور مسجد سرخ پوش بخاری شامل ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بتانے والے نے ہماری خوشی کو یہ کہہ کر غارت بھی کر دیا کہ تعمیرات کا یہ کام ایک طویل عرصے سے معطل ہے۔ جب کبھی حکومت یا کسی ادارے کی جانب سے کوئی دورہ کیا جاتا ہے تو دکھاوے کو کام شروع ہو جاتا ہے لیکن چار دن گزرتے ہی سب کام وہیں رک جاتا ہے۔
نیلی منقش ٹائلوں سے مزین یہ آدھے ادھورے، شکست خوردہ اور منہدم ہوتے مزار، اپنے ثقافتی و تہذیبی ورثے کی حفاظت میں ناکام قوم کو، محض یہ احساس دلانے کے لیے باقی ہیں کہ وقت کی بدلتی اڑان ماضی کو مزار کی شکل میں ڈھالتے وقت کبھی رعایت نہیں برتتی۔