لیاقت علی ملک
جذبات، سچے اور سُچے جذبات کو اگنور کرنا اوررد کرنا ظلم ہے۔ اور ہم انسان اکثریہ ظلم ایک دوسرے پر روارکھتے ہیں۔ اپنے جذبات کی بے قدری کا رونا روتے نہیں تھکتے اور دوسروں کے جذبات کو پامال کرنے سے بھی نہیں رُکتے۔ دل اور فکرکی پاکیزگی سے برآمد ہونے والے الفاظ اورخیالات، جب بے حسی اور بے پروائی کی نذرہوتے ہیں، تو پھر انسان کا جی چاہتا ہے کہ سب کچھ جلا کر، راکھ کردے، سب ختم کردے۔ اُس کے ساتھ اپنی کائنات، سب کی کائنات، ختم کردے۔ کیونکہ جذبات انمول ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ لیکن بدقسمتی سے ہر انمول چیز، بے مول بک جاتی ہے۔ اس طرح ہمارے جذبات اور مقدس خیالات بھی اکثر ایسے ہی کم ظرف لوگوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ بے مول۔ بلاقیمت۔ ہر انمول، بے مول ہوتاہے، یوسف ہو یا کوہِ نور !
جب کوئی شخص آپ کو کچھ بتانا چاہے۔ یا جتانا چاہے یا الفاظ کے ذریعہ اور لفظوں کی سواری کرکے، آپ کی سماعت کے ذریعہ، دل کے عرش تک پہنچنا چاہے اور آپ مسلسل اس کو، اس کے الفاظ اور الفاظ کے معنی کو، سوچتے اورسمجھتے ہوئے بھی، نظرانداز کریں، تو اس سے بڑا دکھ شاید ہی دنیا میں کوئی دوسراہو۔ بے پروائی، دانستہ بے پروائی، بڑی جان لیوا ہوا کرتی ہے۔ اس میں جان نکلتی نہیں مگر وقفے وقفے سے ہر لفظ، فقرے اور ہوں، ہاں کے ساتھ، جان کنی ضرور ہوتی رہتی ہے۔ انسان مسلسل اذیت کا شکار رہتاہے۔ دوسراشخص بے بس ہوتاجاتاہے، ہونٹ کاٹتا ہے، ناخن چباتاہے، خود ہی روٹھ جاتاہے اور پھر خود ہی خودکو مناتا ہے۔
بے پروا توبے پروا رہتے ہیں۔ ان کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ ان کے ہاں کون آتاہے اورکب آتاہے اورچلا جاتاہے۔ اس کی پروا کسے۔ ایسے لوگ توبے کواڑکے گھر کی مانند ہوتے ہیں۔ جب مرضی آئیں، اپنی مرضی سے رکیں، ادھر ادھر دیکھیں، سن گن لیں، رکنا ہے رکیں، جب تک مرضی رکیں، جانا چاہتے ہیں جائیں، دن گزاریں یا رات، نہ کسی نے آتے ہوئے ”سواگت کرناہے اورنہ جاتے ہوئے ماتم۔ “ نہ کسی نے روکناہے۔ اور نہ کچھ دیرہاتھ پکڑکر بٹھانے کی ضد کرنی ہے۔ بس آپ ہی آپ ہیں اور آپ کے فیصلے ہیں۔ مرضی آپ کی اپنی ہے! شاید ایسے لوگ خود سے بیگانہ ہوجاتے ہیں۔ خود کو ختم کر چکے ہوتے ہیں۔ ان کواپنی ضرورت نہیں رہتی۔
دوسروں کی ضرورتیں پوری کرتے کرتے وہ اس حد تک تھک چکے ہوتے ہیں کہ اب ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، کہ کون، ان کو، کب، کہاں، کیسے، کس طرح اورکس لیے استعمال کررہا ہے۔ وہ صرف ایک آبجیکٹ رہ جاتے ہیں۔ بے حس، احساسات و تخیلات اورفکروسوچ سے ماورا! وہ زندہ ضرورہوتے ہیں، مگر زندہ نہیں ہوتے۔ کیونکہ سانس چلنا زندگی کی علامت ہے تو پھر وہ زندہ ہیں۔ پتانہیں کب سے کب تک زندہ ہیں! مگران میں زندگی کی علامات شاید نہیں ہوتیں۔
نہ جانے کب سے، وہ زندگی سے بہت دور رہ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو زندگی کی نعمت اور ذات سے وابستہ دوسروں کے جذبات اور خیالات کا احساس نہیں ہوتا۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو اس طرح کے لوگوں میں، زندگی کی روح پھونکنے کا رسک لیتے ہیں۔ تن مردہ کو امیدبہاردینے کا ”کشٹ“ کاٹنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور دوسروں کو زندگی بانٹنے میں، اپنے تما م خواب جلادیتے ہیں۔ اپنی ذات اور دنیا، سب کچھ اس آگ میں جھونک دیتے ہیں۔
اور جب الاؤ جلتاہے ”بھانبھڑ“ مچتاہے، تو پھراپنے ہی آپ اور وجود کی آگ سے، اپنے ہاتھ تاپتے ہیں۔ دوسروں کی ٹھنڈی سانسوں کو گرمی فراہم کرتے ہیں۔ اپنی زندگی کی آگ سے، دوسروں کی اندھیری زندگی میں روشنیاں بھرتے ہیں، اداس چہروں، یخ ٹھنڈے ہاتھوں، زندگی کی رمق سے عاری آنکھوں کو روشنی آشناکرتے ہیں۔ مگردوسروں کو زندگی دان کرتے ہیں۔ اپنی زندگی اور سانس کے ذریعہ، دوسروں میں زندگی تقسیم کرتے ہیں۔
”مہک“ بھی شاید اسی قسم کی لڑکی تھی جومجھے زندہ کرنا چاہتی تھی۔ مجھے زندگی دینا چاہتی تھی۔ تن مردہ میں جان ڈالنا چاہتی تھی ! اپنے خواب بیچ کر، خیالات گروی رکھ کر، مجھ پر محبت کا احسان کرنا چاہتی تھی۔ مجھ پر مرنا چاہتی تھی۔
رات کا ”جگراتا“ بدن اور خوشبو، خوشبو اور بدن کی ”لُکن میٹی“ میرے حواس پرسوار رہی۔ اورصبح کی اذان ہوئی تو میں نے شکراداکیا، کہ چلیں کوئی سبیل نکلے گی ملاقات کی۔ میں جلدی سے تیار ہوکر نہرکنارے چلتاہوا، ریل کی لائنوں کو کراس کرنے سے پہلے رُکا، دونوں جانب سرخ سگنل کی بتیاں، جو دھند کی چادر پھاڑ کر کسی اندھیرے کوٹھے میں، جنّ کی مانند، اپنی انگارہ آنکھیں لیے کھڑی تھیں، کو دیکھا۔ اونچی، نیچی بجری، روڑے، پتھر اور سگنل کی تاروں میں الجھتے ہوئے، پٹڑی کراس کی۔
نہر کنارے سبزدھریک کے پتوں کو دھونے والے با بے نے ’ہنگورہ ”بھر کر اپنے ہونے اور خوف کو بھگانے کی کوشش کی۔ اور میں روزانہ کی طرح ان سب چھوٹی چھوٹی چیزوں کو گنتا بس سٹاپ کی طرف چلتا رہا۔ اور پھر میں سٹاپ پر اس درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا، جہاں روز، وہ مجھ سے پہلے میرا انتظار کرتی تھی۔ کئی تانگے، مزدے اور بسیں گزرنے اوررکنے کے باوجود میرے آنے کا انتظار کرتی تھی۔ بنا کچھ کہے، میری طرف دیکھتی تھی اور پھر ہم اکثرایک ہی گاڑی میں سوارہوجاتے تھے۔ کبھی کبھی نظر چُرا کر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا بھی لیتے تھے۔
میں آج بہت جلدی پہنچ گیاتھا۔ ابھی صرف ایک گاڑی سٹاپ پر کھڑی تھی اور اس کے اندراور باہر کی تمام لائٹیں بھی جل رہی تھیں۔ اس روشنی میں بُکل میں منہ دے کر، دونوں پاؤں سیٹ پر رکھ کر، نیند میں مدہوش، سبزی منڈی جانے والے مزدور اور دکاندار، کام کاج پر جانے والے فکرِروزگار میں پریشان، سیگریٹ سلگا کر، ایک لمباکش لگا کر، سیگریٹ اور دھند کے دھوئیں کو یکجا کرکے، کھڑکی سے باہر کچھ دیکھنے کی کوشش میں مصروف، ادھیڑ عمر نظر آرہے تھے۔
اس سے پہلے کہ کنڈکٹرروز کی طرح آج بھی مجھے دیکھ کر گاڑی بڑھالے جاتا۔ میں خود ہی سٹاپ کے دائیں جانب چاچے محمددین کے کھوکھے کے پاس کھڑا ہوگیاجس پر ”کیپسٹن“ سگریٹ کا، بڑاسا بورڈ جل رہاتھا۔ اور پھر دوسری جانب سے ہر آنے والے قدموں کی چاپ سننے لگا۔ اور اپنی مرضی کے جوتے کی ٹِک ٹِک کی شناخت کرنے میں مصروف ہوگیا۔
تعلق اور استواری کی خوبی یہ ہے کہ یہ دنیاوی رابطے اورواسطے ختم کردیتی ہے۔ انسان ظاہری رابطوں اور واسطوں سے ماورا اور بیگانہ ہو جاتاہے۔ اور دھیان کسی اور طرف جاتا ہی نہیں ہر چیز، شے اور اشیاء میں وہ نظر آتا ہے۔ لاکھوں کے مجمع میں، بن دیکھے، آنکھوں پر پٹی باندھ کر، انسان اس تک بنا روک ٹوک پہنچ جاتاہے۔ اس کا انگ، انگ، ناک، نقشہ، خوشبو، مہک، سب سے جدا اور الگ ہوتی ہے۔ میں امروز اس کی خوشبو، آواز اور ولائتی گھڑی کی ترتیب سے جاری ہونے والی مسلسل، متواتر، مخصوص وقفہ سے سنائی دینے والی آواز کی طرح اس کے جوتوں کی ٹک ٹک کان لگاکر سننے کی کوشش کررہاتھا۔
آہستہ آہستہ سٹاپ کی رونق بحال ہونے لگی، تانگے اوررکشے والے شور مچانے لگے۔ جوں جوں شور اور رش میں اضافہ ہورہاتھا، میں آہستہ آہستہ کھسکتا جارہاتھا۔
پھرجب وہ آئی تو حسبِ عادت اس نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی۔ میری طرف دیکھا۔ نظریں چارہوئیں اور میں آہستہ سے بس سٹاپ سے پیدل چل پڑا۔ یہ دراصل اس بات کا سگنل تھا کہ آج ہم پیدل، دھند کی مہربانی سے اورسواری نہ ملنے کے بہانے سے، کالج جائیں گے۔ رش سے دور، کچھ قدم آگے جاکر، میں ہمیشہ کی طرح دھریک کے اس درخت کے پاس کھڑا ہوگیا، جہاں پہلے بھی اکثر ہم اکٹھے ہوتے رہے ہیں۔
پھر چند لمحوں بعد ہی کسی کے قدموں کی آواز قریب ہوتی محسوس ہوئی۔ ان حالات میں ہر سائیکل، موٹرسائیکل، کار، تانگہ، گدھا گاڑی اور ریڑھے والا ایک تو مڑ کر دیکھنا اپنا فرض سمجھتاہے دوسرانجانے کیوں واقف واقف اورشناسا محسوس ہوتاہے۔ اور ہر نظر کے ساتھ چوری پکڑے جانے کا احساس ہوتاہے۔ میں ہمیشہ کی طرح بودا اور کمزور دل رہاہوں۔ سومیں ڈرا ور خوف سے پریشان اور اُس کی دلیری اور منہ زوری پر حیران رہا ہوں۔
میں کل کی باتوں اور اپنے رویے پر نادم بھی تھا۔ مگر ساتھ ہی اس کی خوشبو اور مہک کی ”مہک“ کے لیے بے چین بھی تھا۔ میں شایداپنی تکمیل چاہتا تھا یا نہیں، لیکن میں زندگی سے ملنا چاہتاتھا۔ جس کو وہ زندگی کہتی تھی، اس زندگی کو دیکھنا چاہتاتھا، چھونا چاہتا تھا، چکھنا چاہتا تھا، قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ زندگی کو اُس کی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے کانوں سے سننا چاہتاتھا۔ اس کے ہاتھوں سے چھونا چاہتاتھا۔
اس کے لمس سے محسوس کرنا چاہتاتھا۔ اس کی ناک سے سونگھنا چاہتاتھا۔ اس کے ہونٹوں سے چومنا چاہتا تھا۔ اس کی دھڑکن سے سننا چاہتا تھا۔ اس کے دل سے جینا اور دماغ سے سوچنا چاہتا تھا۔ میں زندہ رہنا چاہتا تھا۔ اس کی زندگی کے ساتھ اس کی طرح، اس کے وضع کیے ہوئے اصولوں کے ساتھ جینا چاہتا تھا۔ جہاں صرف زندگی ہو، صرف زندگی۔ میں اور میری زندگی !
اُس کے قریب آتے ہی میں نے کہا ”مہک ! “
وہ دھیرے سے بولی ”جی ! “ اُس کا لہجہ بھی دھند کی طرح تھا۔ سرداور سہاگ کی پہلی رات بیوہ ہونے والی کی طرح ! اُلجھے ہوئے بال اور ایسے جیسے وہ بھی رات بھر نہیں سوئی۔ میں نے کہا ”میں رات بھر نہیں سویا، تیری خوشبو، بارش اور بھیگا پن نہ جانے کیوں میرے دماغ سے نکل ہی نہیں سکا ! “
کتابوں کا بیگ اور سرکا دوپٹہ سیدھا کرتے ہوئے وہ بولی ”میں بھی رات بھر جاگتی رہی ہوں۔ لیکن میری وجہ شاید اب مختلف تھی۔ دولوگ جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں وہ جداجدا ہوکر بھی ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ ہر لمحہ، پل، ساعت اور وقت وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے منسلک ہوتے ہیں، رابطے میں ہوتے ہیں۔ ٹیلی پیتھی، سوچ، فکر، تخیلات یا کچھ بھی میڈیم (Medium) ہو، وہ ہوتے اکٹھے ہی ہیں۔ ان کو جب بھی کوئی مشکل فیصلہ یا کام کرنا ہو، وہ کوسوں دور سے بھی اپنی محبت کی طرف دیکھتے ہیں، دھیرے سے مسکراتے ہیں، پوچھتے ہیں“ کیا خیال ہے، ایسا کرلیں ! ”دوسراہولے سے کہتاہے کہ“ ہاں ٹھیک ہے کرلو ”اور وہ کر گزرتے ہیں۔ جان سے گزرنا ہو یا جہان سے ! مگر اس کے لیے دونوں کا محبت کرنا ضروری ہے !
میری سوچ کا محور آپ ہیں وہ دھیرے سے دھندکی سیاہی کو پھیپھڑو ں میں کھینچتی ہوئی بولی ”مگرآپ اور آپ کی سوچ، شاید کسی اور مدار میں کسی اور گلیکسی (Galaxy) کاحصہ اور کسی اورسورج کے گرد چکر لگارہی ہے۔ میری بدقسمتی ہے کہ آپ اپنے محور سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں اور میں اپنے مدار سے نکلنے کے لیے۔ دونوں جب تک اپنے اپنے مدار میں رہیں گے، زندہ رہیں گے۔ متحرک رہیں گے، گھومتے رہیں گے۔ جونہی ہم میں سے کسی نے اصول اور قانونِ فطرت کی خلاف ورزی کرکے اپنے مدارسے نکلنے کی کوشش کی، تو نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
تباہی چاہے معاشرتی، فکری، نظری یا جسمانی ہو، وقتی یا لامکانی ہو۔ تباہی، تباہی ہوتی ہے۔ اس ٹکراؤ کا آغاز توبس میں اور مرضی سے ہوتاہے۔ مگراختتام اور نتیجہ ہر دو کے بس سے باہرہوتاہے۔ جس طرح ہر ٹکراؤ میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ اس ٹکراؤ سے بھی لاکھوں کِلو ٹن کی تابکاری ہوتی ہے۔ نتیجہ سب جل جاتاہے۔ بھسم ہو جاتاہے، خاکسترہوجاتاہے۔
کل رات میں نے بہت سوچا، کہ ہمیں اپنے اپنے راستے پر چلتے رہنا چاہیے۔ مہک اداسی سے بولی ”اس لیے میں اب کبھی آپ کو مجبور نہیں کروں گی۔ کبھی بھی نہیں۔ “ وہ ایسے بول رہی تھی، کہ جیسے لمحہ لمحہ موت کے قریب ہورہی ہو۔ مجھے تم ایسے ہی پسندھو۔ بس ایسے ہی رہنا۔ میرے ساتھ۔ عمربھر۔ کچھ نہ کرو، کچھ نہ کہو۔ لیکن میرے پاس رہو۔ میرے سامنے رہو۔ میرے ہوکررہو۔ کچھ نہیں کیا، کچھ نہیں دیکھا، کچھ نہیں محسوس کیا۔ سب قبول ہے۔
مجھے تم ایسے ہی، اسی طرح قبول ہو۔ بس میرے ساتھ رہو۔ ایسے ہی۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ؟ کہ یہ راستہ اسی طرح، دھندمیں سے ہوتا ہوا، پل صراط سے گزر جائے۔ یونہی دھندلاتاہوا۔ ٹھنڈا، سردی میں۔ ادھراُدھر دیکھے، سوچے بغیر ! نفع نقصان کے حساب کے بغیر ! تاکہ ہم ہمیشہ کے لیے ایسے سفر میں چلے جائیں۔ امرہوجائیں۔ ایسے سفر پر، جہاں سٹرک ختم نہ ہوتی ہو۔ کوئی موڑنہ آتاہو۔ کوئی مڑکے نہ دیکھتا ہو ! جہاں دھندکی تاریکی سے تمام آلائشیں چھپ جائیں، صرف سوچ رہ جائے، خوبصورتی کی سوچ، محبت کی سوچ، ایک ہو جانے کی سوچ، بغیرمنزل کے لالچ اور سوچ کے۔ مسلسل سفر میں۔ ساتھ ساتھ ہمیشہ کے لیے ہمیشہ سے ہمیشہ تک! کیا ایسا نہیں ہوسکتا؟
وہ میرے قریب ہوتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ اس کا جسم اس کی سوچ کی طرح میرے ساتھ چمٹا ہوا محسوس ہورہاتھا۔ اور میں اس کرنٹ اور کچھ ہو جانے کے خوف سے۔ دائیں پہلو کھسک رہا تھا ! دورہورہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی دور ہو رہاتھا۔ دھند کی ”مہک“ سے خوفزدہ، جہاں پانی کی بوندیں بالوں میں اٹک رہی تھیں اور سانسوں کی حرارت سے منہ کے اندراور باہر بھاپ۔ گرمی۔ شدید گرمی۔ شدید سردی میں شدیدگرمی محسوس ہورہی تھی۔ شدید گرمی !
اُس نے مجھے سمجھانے والے انداز میں کہا ”محبت کی نماز میں امامت کسی ایک کو ہی سونپ دینی چاہیے، یہاں وہاں تاکنے سے نیت ٹوٹ جاتی ہے۔ “ میں نے کہا کہ ”محبت کی نماز میں امامت نہیں ہوتی۔ صرف نماز ہوتی ہے، عبادت ہوتی ہے محبوب کی۔ اور اس عبادت میں ادھراُدھر دیکھنے کی نہ ضرورت ہوتی ہے نہ فرصت۔ اگرمحبوب کی عبادت میں دھیان ادھراُدھر بھٹک جائے تو سمجھ لیں ابھی محبت میں پختگی نہیں آئی۔ محبت دوئی سے بیگانہ کردیتی ہے اور یکسوئی سکھاتی ہے۔
اس عبادت میں محبوب سے دور رہ کر بھی، نظروں سے اوجھل، زمان اور مکان میں صدیوں کے فاصلوں کے باوجود، گفتگو ہوتی ہے بلکہ اکثربنا کچھ کہے سنے اور بغیر لفظوں کے گفتگو ہوتی ہے۔ اس وصل کا وقت بہت طویل مگر جلد گزرجاتاہے۔ ہوش نہیں مدہوش، عبادت ہوتی ہے۔ پیکرورخسار سے بہت آگے کی عبادت ہوتی ہے۔ نہ ثنا کے الفاظ اداکرنے کی ضرورت اور نہ حمد اورشکرکے ترانے، نہ ماتھا ٹیکنے کی ضرورت، نہ گھٹنوں کے بل جھکنے کی ضرورت۔ نہ پاکی کا احساس اورنہ وضو اور طہارت کا خیال ! محبت میں عبادت رُوبروہوتی ہے۔ اس میں خیال کے ادھراُدھر بکھرنے یا ادھرادُھردیکھنے سے نیت نہیں ٹوٹتی بلکہ نمازفسق ہوجاتی ہے! سومحبت عبادت اورعبادت محبت ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل اور ناممکن ہیں۔ محبت اور عبادت!
گرمیوں کی اس صبح میں جب اوس قطروں کے ساتھ پھولوں کی پنکھڑیاں اور پتوں کے ابدان ابھی بوجھل تھے اور آسمان کے ایک کونے سے سورج دیوتا ابھی درشن کروانے کا سوچ رہے تھے۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے مشرق کی سمت سے غریب کی رضائی کی طرح پتلی اور کہیں کہیں سے خالی ”بدلی“ کو ہواؤں کے رُخ تیرتے ہوئے اور کسی پکے اور پرانے کہنہ مشق عاشق کی طرح محبوب ِ بے پرواکے اشارہ پر ڈولتے اور ادھر اُدھر جھولتے ہوئے دیکھا اور اپنے طورپر لہجے میں پوری رومانوی کیفیت طاری کرکے کہا ”کیاخیال ہے؟ آج بارش ہوگی! “ اس نے اپنی آنکھیں سکیڑیں، دورخلا کے پار کچھ ڈھونڈنے اور دیکھنے کی کوشش کی۔ جیسے کسی کنیکشن ، وائر یا غیرمرئی رابطہ اورلا سلکی واسطہ تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہو اورپھر ایک لمبی سانس لے کر بڑے اضطراب سے بڑے قطعی اورحتمی لہجے میں بولی ”نہیں آج بارش نہیں ہوگی ! ۔ “
میں نے ابھی بات کو اچکنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا۔ میراخیال تھا کہ اس کا جدید ماڈل آئی فون اور ایکیو ویدر توسیٹلائٹ سے منسلک ہے وہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ یہ تو ہر لمحہ سیٹلائٹ کے ذریعہ تازہ ترین فورکاسٹ دیتا ہے۔ مگروہ میرے بولنے سے پہلے بول پڑی۔
”بالکل نہیں ہوگی ! بلکہ آج طوفان آئے گا۔ سرخ اور لال طوفان، آندھی۔ فصلیں تباہ ہوں گی۔ چڑیاں اور“ بوٹ ”درختوں سے گر کر“ پھانڈے ”کے زور سے نڈھال ہوکر مر جائیں گے یا بلیوں کتوں کو ہوش آنے کے بعدا ور طوفان تھم جانے کے بعد ان کی غذا بن جائیں گے۔
”اب کے موسلا دھار بارش نہیں صرف طوفان آئے گا۔ “
”محبت کے بازار میں آج بہت مندہ ہے، اس لیے طوفان آئے گا۔ سب کچھ اُڑا کر لے جائے گا۔ مجھے بھی اور تمھیں بھی۔ “
”محبت کے بازار میں آج بہت مندہ ہے، اس لیے طوفان آئے گا۔ سب کچھ اُڑا کر لے جائے گا۔ مجھے بھی اور تمھیں بھی۔ “
اس کی کیفیت ایسی تھی، جیسے وہ خودکلامی کررہی تھی۔ بڑبڑارہی تھی۔ مایوسی اور پریشانی میں، ہارنے کے بعد، سب کچھ، کھو جانے کے بعد، بے بسی سے خود کو کوس رہی تھی۔ اور پھر اس کی آنکھوں سے دو موتی لپکے۔ میں نے پوری کوشش کی۔ کہ ان کو جذب ہونے سے پہلے اُچک لوں، چوم لوں، اپنے ہونٹوں سے پی لوں۔ مگرایک بار پھر رکھ رکھاؤ سامنے آگیا۔ اندرکا ”زاہد“ ہار گیا اور باہر کا ”زاہد“ جیت گیا۔ چاہتے ہوئے بھی میں ایسے جیسے میرے ہاتھ پاؤں زبان سب ساکت ہوچکا تھے۔ پتھربن چکا تھا۔ میں صم ’‘ بکم ’‘ ! اُسے دیکھتا رہا۔
پھر کیا ہوا کہ نہ جانے ”بدلی کب بادل“ میں بدل گئی۔ آنِ واحد میں کالے سیاہ بادل، ایسے مختلف سمتوں سے جمع ہونا شروع ہوئے، جیسے جنّات کسی سامری کی آواز پر آتے ہیں۔ غول درغول، قطاردرقطار۔ پہلے عجیب سی لالی مغرب کی طرف سے سورج کے منہ پر نقاب زن ہوکر سورج کو مزیدسورج زدہ کرنے لگی۔ لال لال ڈورے بالکل ایسے پھرنے لگے جیسے آشوب ِچشم کا عروج ہو۔ اور آندھی کا احساس اور ریت کے ذروں کاخیال، بنا دیکھے اور ابھی کوسوں دور ہونے کے باوجود، جیسے آنکھوں میں کوئی چیز ”رڑک“ رہی ہو۔
پھر لالی اور سرخی کے آگے آگے، نقارچی کے طور پر کچھ کوّے بوکھلائے ہوئے، کائیں کائیں کرتے ہوئے، اس طرح ادھر ادھر کنی کھا رہے تھے، جیسے اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھے ہو ں یا خوف کی بدولت راستہ، زبان، اڑان اور کلام بھی بھول گئے ہوں۔ وہ ایسے خبردار کررہے تھے، جیسے کہہ رہے ہوں، بھاگ جاؤ۔ دور نکل جاؤ، اس دیس سے کہیں بہت دور ! بہت آگے۔ آندھی اور ہوا سے بہت دور ! کوّے اور ابّے کی ”صلاح“ کبھی بھی غلط نہیں ہوتی۔ بس انسان کو سمجھنے میں تاخیر ہوجاتی ہے !
ہر دو کی دی ہوئی ”متّ“ بندے کی عقل میں تاخیر سے پڑتی ہے۔ سو اس کاں کاں، کائیں کائیں اور اس کے اضطراب و ہیجان کے بعد، ہواکے دوش پر تیرتے ہوئے کچھ لاوارث اخبار کے کاغذ اور چند ایک پلاسٹک کے تھیلے، ادھراُدھرجھوم رہے تھے۔ جو شایدکچرہ چننے والے اس معصوم بچے کی نظر سے بچ گئے ہوں گے، جو شدید سردی میں، پھٹی ہوئی قمیص میں، ننگے پاؤں، اس یخ بستہ سردی میں، گندگی کے ڈھیر سے کھانے کے لیے خشک روٹی کے ٹکڑے اور کمانے کے لیے اخبار، کاغذ، کانچ اور پلاسٹک ڈھونڈتا ہے۔
اور ہر غلیظ ترین چیز کو بھی اسی طرح ہاتھ لگاتا ہے اور ناک کے قریب لے جاکر سونگھتا ہے، جیسے شرفا کے بچے پیرس کے ڈالرزدہ پرفیوم کو۔ یہ کاغذ ہوا کے دوش پر ”واورولے“ کے اندر گھومتے ہوئے ”بُلے“ لگ جاتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر بچے قہقہے لگاتے، ”ویہڑے“ میں آجاتے ہیں، جوان بے چینی سے ادھر اھرکچھ تلاش کرتے ہیں اور خالی خولی نظروں سے واپس لوٹ کر پنڈے کو اپنے ہی ہاتھوں سے زورکا جپھا مار لیتے ہیں۔ اور جوانی کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی منہ زور جوانیاں اس شدید سردی اور یخ بستہ ہوا میں، ماحول میں حرارت، آنکھوں میں شرارت اور جسم و روح میں عجیب سی بغاوت لیے ہوئے، ہوا کے ”بُلے“ پر سوارہوکر، زمان اورمکان کی قید سے آزادہوکر، کہیں کوہ قاف میں جاکر، کسی کے ساتھ چمٹ کر، چوٹیوں کی برف کو اپنے سانس کی حرارت سے پگھلانا چاہتی ہیں۔
اور اس ساری ہنسی، خوشی، قہقہے، آگ، اینٹھن، کسک، اور لپک سے پرے، بڑی بوڑھیاں اور بابے، جن کی نظریں کمزور، ٹانگیں بغیربیساکھیوں کے خود بیساکھیاں لگتی ہیں۔ چلتے ہوئے گھٹنوں سے ایسے آوازآتی ہے، جیسے شدید سردی میں دانت بج رہے ہوں یا جن کا ہاتھ اور پاؤں کی حرکت پر اب کنٹرول ختم ہوچکا ہوتاہے اورلذتیت والی حس تمام دوائیوں، کشتوں، معجونوں، کالی گولیوں، رنگ برنگے تیلوں اور طلّوں کے مسلسل استعمال کے باجود، مختلف ایسی بیماریوں کے بہانوں سے یخنی، دیسی چوچے کا گوشت، پُٹھ کی بوٹیاں، دیسی گھی کا سالن، دودھ جلیبیاں، میوے، حریرے اورمقوی مربہ جات کھائے جاتے ہیں، جن کی دوردور تک کہیں ضرورت نہیں ہوتی۔
یہ بابے، بی بیاں کانوں کو ہاتھ لگاتی، توبہ توبہ کرتی، گھروں کی کھڑکیاں بند، دروازوں کے کواڑبند اور ان کی زنجیریں کھینچ کر اندر اینٹیں اس لیے رکھ لیتی ہیں، کہ ہوا کے زور پر دروازہ کھل نہ جائے۔ اور کھڑکیوں دروازوں کے سوراخوں، درزوں میں پرانے کپڑے، بنیانیں اورتہبند کے ٹکڑوں کی لیریں ٹھونس دی جاتی ہیں۔ تاکہ پانی کو گھر کے اندر آنے سے روکا جائے۔ اور ساتھ ساتھ بچوں بالکوں کو کھینچ کھینچ کر اندرکرتی ہیں کہ ”اللہ تو ں مافی منگو۔ کِتے بہت وڈا ظلم ہویا اے۔ کو ئی قہرہویا اے !
میں پہلے ہی کچھ ”مہک“ کی مہک اور فلسفے سے خوفزدہ تھا دوسرامیرے اندرکا ”زاہد“ مجھے دھکے مار کرباہر والے ”زاہد“ کواپنے راستے سے ہٹانے کے تمام حربے کررہا تھا۔ میر ی اندرونی لڑائی، میرے بیرونی خول پر اثر انداز ہورہی تھی۔ میرے اندرکا کمینہ پن، شودا، چھچھورا، ندیدہ، غلیظ آدمی، باربار میرے ہاتھوں سے نکل نکل جارہاتھا۔ میر ے نوسوراخواں کو پھاڑتا ہوا کوئی واہیات حرکت کرنا چاہتاتھا۔ میرے باہروالے رکھ کھاؤوالے شخص کو لٹاکر، اس پر بیٹھ کر اس کی چھترول کرکے، اس کا سارا تصنع اوربناوٹ، اس کے لاتعدادمساموں سے نکال کر، باہر پھینک کر اس کو اندرباہر سے ایک کرنا چاہتاتھا !
کیونکہ یہ سرخ آندھی بہت منہ زور تھی۔ میں اس کی سرخی اور ہوا کی رفتار میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہا تھا۔ شاید میں اس ظلم اور قہر کا موجب تھا۔ سرخ اور لال طوفان۔ ہیجان۔ اندر اور باہر کا ہیجان !
کتاب “حاصل لا حاصل” سے اقتباس۔
شائع کردہ سنگ میل۔
شائع کردہ سنگ میل۔