فلمی ہیروئن سے دیہاتی رومانس

وسیم جبران

وہ میرے سامنے تھی اور مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ لوگ اسے جینا کے نام سے جانتے تھے۔ کیا یہ وہی ساحرہ ہے جس نے کروڑوں دلوں کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں بھی اس کے چاہنے والوں میں سے تھا۔ کون ہے جس نے اس حسن بلاخیز کو دیکھا ہو اور اپنا دل اس کے قدموں میں نچھاور نہ کیا ہو، کس میں اتنی تاب ہے کہ اسے دیکھے اور اس کے عشق میں مبتلا نہ ہو۔ وہ دلوں کی ملکہ تھی، پنجاب کے اس دور افتادہ علاقے میں اس کی موجودگی کی خبریں گرم تھیں مگر وہ یوں اچانک سامنے آ جائے گی یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔

جب کوئی نوجوان عہدِ شباب کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو ایکا ایکی دنیا اس کے لیے بدل جاتی ہے۔ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک ہی پل میں رنگ و نور کی ایک ایسی دنیا میں آ گیا ہے جہاں پھول کھلتے ہیں، جہاں خوشبوئیں اڑتی ہیں۔ آسمان پر دھنک کے رنگ بکھر جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ساری کائنات نئے سرے سے پیدا ہوئی ہو مگر اسی ہوشربا دور میں صبحیں امنگوں کو بیدار کرتی ہیں اور شامیں اداس کرتی ہیں۔ دل میں کسی ہم نشیں کی آرزو کسک بن کر چبھتی ہے۔ اس ہوشربا دور میں تو ہوا سے جھومتی ڈالیوں پر بھی مورنی کے رقص کا گمان ہوتا ہے اور مجھے تو پتہ نہیں وہ کیا دکھائی دی۔

وہی چمکتی آنکھیں، ریشم جیسے بال، صبحِ صادق کی روشنی جیسے عارض، سانچے میں ڈھلا جسم، مہین لان کا لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھی۔ گرمیوں کی اس دوپہر میں آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے مگر گرمی شدید تھی۔ اس کی پیشانی پیسینے سے تر تھی۔ تا حدِ نظر کپاس کے کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ قریباً بارہ بجے کا وقت ہو گا، ایسے میں وہاں کون نظر آتا مگر وہ وہاں تھی۔ اس نے مجھے دیکھا تو میرے پاس آ گئی۔

”ایکسکیوزمی! کیا یہاں پانی مل جائے گا؟“ وہ مجھ سے مخاطب تھی۔
”کیوں نہیں آپ کہیں تو سمندر خود چل کر آ جائے مگر اس سے آپ کی پیاس نہیں بجھے گی۔ ایک گلاس پانی کے لیے آپ کو رحمت چاچا کے ڈیرے تک جانا ہو گا“ ۔

میں نے مسرور لہجے میں کہا۔ ”اور یہ رحمت چاچا کا ڈیرہ کہاں ہے؟“ اس نے بھنویں اچکائیں۔
”قریب ہی ہے وہ سامنے جو درختوں کا جھنڈ ہے وہاں“ ۔

اس نے فوراً قدم بڑھا دیے۔ میں اس کے ساتھ چلنے لگا۔ ”مجھے جانتے ہو؟“ اس نے سرسری انداز میں کہا۔
”جینا کو کون نہیں جانتا“ میں بول اٹھا۔

”اوہ میں تو سمجھی تھی اس دور دراز علاقے میں کسی کو پتا نہیں ہو گا“ ۔
”گاؤں میں بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے، سب کو پتا ہے کہ فلم والے آئے ہوئے ہیں اور شوٹنگ چل رہی ہے۔ مجھے اس بات کی حیرت ہے کہ آپ اپنے یونٹ سے علیحدہ ہو کر کیا کر رہی ہیں“ ۔

اس نے مڑ کر گہری نظروں سے مجھے دیکھا۔ ”کتنا پڑھے ہو؟ کیا کرتے ہو؟“
”آپ نے سوچا ہو گا کہ جٹ بھینسیں چراتا ہے، گریجویٹ ہوں، ستر ایکڑ اپنی زمین ہے، پچیس ایکڑ ٹھیکے پر لی ہے۔ یہ کھیت ہمارے ہی ہیں۔“

”اچھا! اور فلمیں دیکھتے ہو، یہ نہیں بتاؤ گے“ وہ مسکرائی۔
”فلم تو کوئی نہیں چھوڑتا، آپ کی بھی پانچوں فلمیں دیکھی ہیں۔ ہاں چھٹی بھی جس میں آپ مہمان اداکارہ ہیں“

”گاؤں میں بھی سینما ہے؟“
”یہاں نہیں ہے پاس ہی جو شہر ہے اس میں ہے، لیجیے ڈیرہ آ گیا“

چاچا رحمت نے میرے ساتھ ایک لڑکی کو دیکھ کر پلکیں جھپکائیں۔
”چاچا جلدی سے ٹھنڈا پانی پلا دو“ میں نے سلام کرتے ہوئے کہا۔

”گھڑے میں ٹھنڈا پانی ہے پی لے، میری گائیں بھوکی ہیں مجھے ان کو چارہ ڈالنا ہے، اور یہ کڑی کون ہے تیرے ساتھ؟“
”چاچا تو پہچان کر بتا کون ہے؟“

”اپنے پنڈ کی تو نہیں ہے“ چاچا نے نفی میں سر ہلایا۔
میں نے ساتھ ساتھ گھڑے سے ایک گلاس پانی بھر کر جینا کو دیا۔

”رہنے دے چاچا، شمیم آرا ہوتی تو تُو فوراً پہچان لیتا، یہ سنہ 69 نہیں ہے سنہ 89 ہے، یہ آج کی ہیروئن ہے جینا“ ۔

چاچا بھی کسی زمانے میں فلموں کا رسیا رہا تھا لیکن وہ صرف شمیم آرا اور وحید مراد کی فملمیں شوق سے دیکھتا تھا سنہ 1983 میں وحید مراد کی اچانک موت کے بعد اس نے فلمیں دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ جینا چارپائی پر بیٹھ گئی اور فلموں کی باتیں ہونے لگیں۔ میں نے ہر قابلِ ذکر فلم کئی کئی بار دیکھی ہوئی تھی۔ میں نے جب تنقیدی گفتگو کی تو جینا کافی متاثر نظر آنے لگی۔

”اب میری فلموں کے بارے میں بتاؤ؟“ اس نے کہا۔
”آپ کی فلمیں بے مثال ہیں اور آپ تو با کمال ہیں“

جینا ہنس پڑی۔ ”مجھے سامنے دیکھ کر میری تعریفیں کر رہے ہو“
”نہیں دل سے کہہ رہا ہوں“

”پتر یہ بھی گاؤں کے ڈراموں میں ایکٹنگ کرتا ہے“ چاچا نے خواہ مخواہ اطلاع دی۔
”اچھا تو یہ بات ہے، فلموں میں کام کرنے کا شوق ہے؟“ جینا مسکرائی۔

”نہیں جی! گاؤں کے ڈراموں تک ٹھیک ہے، فلموں میں کام کرنا بہت مشکل ہے“
”کیوں اس میں کیا مشکل ہے، دو تین جذباتی ڈائیلاگ بولنے ہوتے ہیں، دس بارہ بندوں سے فائٹ اور ہیروئن کے ساتھ تین چار گانے بس“

”ڈائیلاگ تو جتنے چاہو بلوا لو، دس بارہ بندے بھی پھڑکا دوں گا، بس یہ ہیروئن کے ساتھ گانے نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے ڈانس نہیں آتا اور ڈانس کرنا اچھا بھی نہیں لگتا“
”تو پنجابی فلمیں کر لو سلطان راہی کی طرح گنڈاسa پکڑ کر کھڑے رہنا، ہیروئن خود ہی ڈانس کرتی رہے گی“

”آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے ڈائریکٹر مجھے فلم دینے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ میں اپنے کھیت اور مال مویشی دیکھ لوں اتنا ہی بہت ہے ویسے آپ شوٹنگ سے نکل کر اکیلی ادھر آ گئیں بڑی بہادر ہیں“ میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔


”میں ایسی ہی ہوں، شوٹنگ ادھر قریب ہی ہو رہی ہے، میرا سین نہیں تھا۔ میں شروع سے کراچی میں رہی ہوں ناں تو مجھے یہ پنجاب کے کھیت بہت اچھے لگتے ہیں اور آج تو آسمان پر اتنے گھنے کالے بادل ہیں، اتنے اچھے موسم میں تھوڑا انجوائے کرنا چاہتی تھی“ جینا نے بے تکلفی سے کہا۔

اچانک بادل گرجا اور بارش ہونے لگی۔ جینا کی خوشی دوچند ہو گئی۔ وہ اٹھی اور بانہیں پھیلا کر بارش میں نہانے لگی۔ میں جو برآمدے کی چھت کے نیچے جانے کا سوچ رہا تھا وہیں رک گیا۔ وہ بارش کو انجوائے کر رہی تھی۔ بچوں کی طرح خوش ہو کر گھوم رہی تھی۔ میں بھی اس کے پاس چلا آیا۔

”بارش بہت تیز ہے، اندر چلیں؟“ میں نے کہا۔
”نہیں، مجھے مزا آ رہا ہے، کراچی میں رہتے ہوئے میں نے ایسی بارش بہت کم دیکھی ہے“ ۔ اس نے فوراً انکار کر دیا۔

وہ بارش میں بھیگتی رہی پھر بارش ہلکی پھوار میں تبدیل ہو گئی۔ ہوا چل رہی تھی موسم بہت خوشگوار ہو گیا تھا۔

”آپ نے بارش سے تو لطف اٹھا لیا مگر اس کے کچھ سائیڈ ایفیکٹس بھی ہیں“ ۔ میں نے دھیرے سے کہا۔ اس نے چونک کر خود پر نظر ڈالی۔ بارش سے اس کے مہین کپڑے جسم سے چپک گئے تھے اور سی تھرو بن چکے تھے۔

”اوہ! یہ تو میں نے سوچا نہیں تھا“ وہ بولی۔
”کیسا اتفاق ہے، میں نے بھی نہیں سوچا تھا“ میں بول اٹھا۔

”خیر کوئی بات نہیں، میرے خیال میں مجھے اب واپس جانا چاہیے“ اس نے مسکرا کہا۔ ”میرے پاس اس سے بہتر آئیڈیا ہے، میرا گھر گاؤں کے بالکل شروع میں ہی ہے، زیادہ دور نہیں، وہاں جا کرکپڑے بدلیں، ماں کے ہاتھ کا کھانا کھائیں پھر آرام سے واپس چلی جائیں“

”ہوں آئیڈیا برا نہیں ہے، ٹھیک ہے چلو“
”ایک منٹ۔ میں آپ کو ایک چادر دے دیتا ہوں، براہِ کرم اوڑھ لیں، گاؤں کے کسی نوجوان نے آپ کو دیکھ لیا تو خواہ مخواہ اس پر بجلیاں گر جائیں گی“

وہ میری بات سن کر ہنس پڑی۔ ”ٹھیک ہے لاؤ“
گھر پہنچے تو ماں نے سب پہلے ہمیں دیکھا۔ ظاہر ہے وہ اسے نہیں پہچان سکیں۔ ”ماں یہ مہمان بڑی دور سے آیا ہے، کھانے میں کیا ہے؟“

ماں نے اس کے سر ہاتھ پھیرتے ہوئے دعائیں دیں اور بولی۔ ”پتر مہمان کو گھر لانا تھا تو پہلے بتاتا، میں نے تو دال پکائی ہے“
آوازیں سن کر کمرے سے میری ایک بہن باہر نکلی۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تو کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ”جینا“ خوشی اس کے منہ سے دبی دبی چیخ کی صورت نمودار ہوئی۔ باقی دو نے دروازے سے جھانکا اور پھر تینوں بھاگ کر ہمارے پاس آ گئیں۔

”آپ واقعی جینا ہیں؟“ چھوٹی نے حیرت اور خوشی سے پوچھا۔

”اتفاق سے“ جینا مسکرائی۔ چھوٹے بھائی نے دیکھا تو بھی ایک بار تو پلکیں جھپکنا بھول گیا۔ بہر حال میری بہن ثمن نے اسے اپنے کپڑے دیے، وہ نہانے گئی تو سب میرے آس پاس جمع ہو گئے۔ یہ کہاں ملی؟ کیسے ملی؟ ہمارے گھر کیسے آئی؟ بیسیوں سوال تھے۔ ”اسی سے پوچھ لینا“ میں نے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔ ماں نے چھوٹے بھائی کو فوراً دیسی مرغ ذبح کرنے کا حکم دیا۔

جب جینا نہا کر باہر آئی تو مرغ پکانے کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ ایک بہن ماں کے ساتھ کھانا بنانے میں لگ گئی۔ دوسری لسی بنانے لگی۔ ہم کمرے میں بیٹھ گئے۔ بے نظیر بھٹو کا دور تھا اور ہمارے گاؤں میں نئی نئی بجلی آئی تھی۔ میں نے پنکھا آن کر دیا۔ ثمن نے لسی کا جگ اور گلاس لا کر سامنے رکھا۔ جینا اپنی پذیرائی پر کافی خوش تھی۔ اس نے لسی چکھی اور ثمن کو تعریفی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”بہت مزے کی ہے“ ثمن یوں خوش ہوئی جیسے کوئی میڈل مل گیا ہو۔

کھانا لگا دیا گیا۔ ابا عین اسی وقت گھر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے جینا کو پہچان لیا۔ اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور دعائیں دیں۔ در اصل وہ روایتی ابا نہیں تھے کہ فلمی ہیروئین کو اپنے گھر میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھائیں۔ بڑے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ پھر چائے کا دور چلا۔ بہت ساری محبتیں سمیٹ کر وہ ہمارے گھر سے نکلی۔ میں اسے چھوڑنے کے لیے اس کے ساتھ چل پڑا۔

جینا بہت خوش تھی۔ ہم پیدل ہی کچی سڑک پر رواں دواں تھے۔ جینا نے آفر کی کہ میں شوٹنگ دیکھنے آؤں لیکن میں نے منع کر دیا۔ میں کسی کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا کیوں کہ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ میں شوٹنگ دیکھنے جاؤں اور اس کے قریب نہ جاؤں۔ میں نے اس سے وعدہ لیا کہ وہ ایک بار پھر مجھ سے ملنے آئے گی۔

اسے چھوڑ کر میں واپس آ گیا۔ عجیب سا احساس ہو رہا تھا جیسے مجھ سے کچھ چھن گیا ہو۔ رات کو سونے کے لیے لیٹا تو نیند روٹھ گئی۔ ذہن کے پردے پر جینا کی تصویریں چل رہی تھی۔ میں نے دل کو سمجھانے کی بڑی کوشش کی۔ جینا ایک فلم سٹار ہے۔ اس کے لاکھوں فین ہوں گے۔ میں بھی ایک عام سا فین ہوں لیکن دل تھا کہ مانتا ہی نہیں تھا۔ دل چاہتا کہ وہ میری بن جائے۔ سوچتے سوچتے رات کے پچھلے پہر بڑی مشکل سے آنکھ لگی۔

اگلا دن بہت بیزاری کا تھا۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ ایک ایک پل صدیوں میں گزرتا تھا۔ شام کو میں صحن میں رکھی چارپائی پر بیٹھا تھا جب دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا تھا وہ اندر آئی تو دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ تینوں بہنیں خوش ہو کر اس کے پاس آ گئیں۔ ”میں ثمن کی بنائی ہوئی لسی پینے آئی ہوں“ جینا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ماں نے اس کی بلائیں لیں۔

چارپائیوں پر نئی چادریں بچھا دی گئیں۔ محفل جم گئی۔ ماں نے مجھے یاد دلایا کہ جیرا چھٹی پر ہے۔ جیرا ہمارا ملازم تھا۔ مطلب یہ تھا کہ مجھے دودھ دوہنا ہو گا۔ ہمارے صحن کے دو حصے تھے۔ بیچ میں ایک دیوار تھی۔ دوسری طرف چند جانور رکھے تھے۔ میں اٹھا تو جینا بول اٹھی ”کہاں چلے؟“


”تم بھی آ جاؤ کوئی نئی بات سیکھ لو گی“ میں بالٹی لے کر دوسرے حصے میں آ گیا اور گائے کا دودھ دوہنے لگا۔ ”سیکھ لو کل کام آ سکتا ہے، گاؤں میں عورتیں بھی دودھ دوہ لیتی ہیں“ جینا میری بات پر غور کیے بغیر میرے قریب بیٹھ گئی اور دلچسپی سے مجھے دیکھنے لگی۔ ”رکو اب میں دودھ نکالتی ہوں“ اس نے کہا۔ میں کھسک کر ذرے پرے ہوا۔ جینا نے گائے کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تو گائے زور سے دم ہلانے لگی اور ہلنے لگی۔ جینا ڈر گئی۔ ”مجھے لگتا ہے یہ بھاگ جائے گی“ وہ بولی۔

میں نے گائے کو تھپکا۔ جینا نے اپنے کومل ہاتھوں سے اس کے تھنوں کو دبایا، اس سے کیا ہوتا۔ اس نے دو تین بار کوشش کی مگر ناکام رہی۔ ”چھوڑو یہ تمہارے بس کی بات نہیں“

”نہیں میں پھر کوشش کروں گی“ وہ ہار نہیں ماننا چاہتی تھی۔
”رہنے دو ذرا منہ کھولو“

اس کے دہن نے تازہ دودھ کا ذائقہ چکھا۔ ”کیسا ہے؟“
”ٹھیک ہے مگر تمہارا نشانہ چوک سکتا ہے، بہتر ہے کہ میں گلاس سے پی لوں“ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر بعد اسے سوئیاں اور گرم دودھ پیش کیا گیا۔ کھانے کے لیے روکنا چاہا مگر اسے جلدی تھی۔ وہ چلی گئی۔

اس کے بعد بھی ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ شوٹنگ دو تین ہفتے جاری رہی۔ اسے جب بھی موقع ملتا تھا وہ مجھ سے ملنے ضرور آتی تھی۔ کبھی صبح کو اور کبھی شام کو۔ میں نے اسے گاؤں کی کئی روائیتی چیزیں دکھائیں۔ جیسے جیسے شوٹنگ کا شیڈول اختتام کو پہنچ رہا تھا دل کی بے چینی بڑھتی جاتی تھی۔ نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا تھا جیسے وہ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی ہے۔ میں اسے دل کی بات بتانا تو چاہتا تھا مگر ہمت نہیں ہوتی تھی۔ میں عقل سے سوچتا تھا تو مجھے یہ ناممکن بات لگتی تھی۔ وہ ایک مشہور ایکٹرس تھی اور گاؤں کا عام سا نوجوان تھا۔ مگر جب وہ سامنے آتی تھی تو عقل منہ لپیٹ کر کہیں چھپ جاتی تھی اور عشق سر چڑھ کر بولتا تھا۔ ایسی ہی ایک شام ہم کھیتوں کی سیر کرتے کرتے دور نکل آئے اور نہر تک پہنچ گئے۔

ہم نہر کے کنارے چلنے لگے۔ ”میرا دل چاہ رہا ہے نہر میں تیروں مگر افسوس کہ مجھے تیرنا نہیں آتا“ اس نے پانی کو حسرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہ نہر بہت گہری ہے، یہاں تو تیرنے کا سوچنا بھی مت، کئی لوگ ڈوب چکے ہیں“ میں نے فوراً کہا۔ وہ یونہی شوخی سے کنارے کے اور قریب ہو گئی۔ وہاں سے پاؤں پھسلتا تو وہ ڈھلان سے نہر میں گر سکتی تھی۔

”کیا کر رہی ہو؟“ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ ”اس طرح کا مذاق مت کرو“ پھر نہ جانے کیا ہوا وہ یک دم میرے بازوؤں میں آ گئی۔ چند لمحوں کے لیے ہوش و خرد جیسے ساتھ چھوڑ گئے۔ وہ الگ ہوئی تو میرے لبوں پر کچے پھلوں کا ذائقہ تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر چپ چاپ ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ میں بھی کچھ نہ بولا وہ بھی خاموش رہی۔

آخر جب ہم پل تک پہنچے تو میں کہہ اٹھا۔ ”کل تم چلی جاؤ گی؟“
”ہاں! جانا ہی ہو گا، فلم کا بقیہ حصہ کراچی میں ہی شوٹ کیا جائے گا“
”اچھا“ میں خاموش ہو گیا۔

”میں تمہیں اپنا فون نمبر دے کر جاؤں گی، تم آؤ گے ناں مجھ سے ملنے؟“ وہ بولی۔
دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ مغرب میں سورج ڈوب رہا تھا۔ میں اسے چھوڑ کر آ گیا۔

جانے سے پہلے اس نے اپنا نمبر دے دیا تھا۔ یہ موبائل فون سے پہلے کا زمانہ تھا۔ پی ٹی سی ایل کا نمبر تھا۔ وہ چلی گئی۔ دو تین دن میں اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس سے ملنا بالکل ایک خواب جیسا تھا۔ ہمارے گاؤں میں فون بھی نہیں تھا۔ تین دن بعد میں نے قریبی قصبے میں جا کر فون کیا۔ اس کی ملازمہ نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ شوٹنگ پر تھی۔ اگلے دن پھر فون کیا۔ وہ نہ ملی۔ تیسری بار اس کی آواز سنائی دی تو جان میں جان آئی۔

دل پھر ہواؤں میں اڑنے لگا۔ ”میں نے کئی بار فون کیا، تم کہاں تھیں؟“
”ہاں میں شوٹنگ میں مصروف تھی“ اس کی مدھر آواز آئی۔

”جینا میں کراچی آ رہا ہوں، میں اب مزید بے چینی برداشت نہیں کر سکتا، میں تم سے سب کچھ کہنا چاہتا ہوں“
”کب؟ میں ابھی چند مہینے بہت مصروف ہوں“

”میں تو آج ہی آنا چاہتا ہوں، سوچ رہا ہوں کل کی ٹرین پکڑ لوں“ میں نے کہا۔
”کس سے باتیں کر رہی ہو بے بی؟“ دور سے آتی ہوئی آواز مردانہ تھی۔

”کچھ نہیں یار! ایک بندہ ہے میرے گھر میں نوکری کی بات کر رہا ہے“ جینا نے شاید ریسیور پر ہاتھ رکھا تھا لیکن پھر بھی مجھے اس کی آواز سنائی دے گئی۔

”تو رکھ لو بے بی، کسی غریب آدمی کا بھلا ہو جائے گا، مگر اس فون کی جان تو چھوڑ دو۔“ اس بار آواز قدرے قریب سے آئی تھی۔ میرے دل میں ایک الاؤ سا جل اٹھا۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ریسیور سے کسی کو چومنے کی آواز آئی اور لائن کٹ گئی۔ اب صرف ٹوں ٹوں کی آواز آ رہی تھی۔ میرے ہاتھ سے بھی ریسیور گر پڑا۔