یاسر نے محبت کا اظہار کیا، رضامندی چاہی اور انگوٹھی پہنائی تو گویا قیامت آ گئی۔ ہمارے غیرت مند معاشرے کی لٹیا ڈبو دی۔ ہائے ہائے بے حیائی، ایک طوفان سا طوفان تھا۔ کہیں فتوے لگے تو کہیں میمز کی ایک لمبی لائن کا سامنا۔ مطلب محبت نہ ہوئی گناہ ہو گیا۔ واللہ، ایک خوبصورت جذبے کے اظہار پر ایسی قیامت جچتی نہیں مگر ایسے کیسے جناب مرد کو کہاں جچتا ہے ہمارے ایسے معاشرے میں محبت جتانا۔ عورت کو سر پر نہیں چڑھاتے۔
چلیں بات کرتے ہیں محسن عباس کی اب جو برسوں سے بیوی کو پیٹتا اور دھمکاتا آ رہا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اس کے علاوہ بھی مردانگی کے جوہر دکھا چکا ہے ایکسٹرا میریٹل افئیرز کی صورت میں۔ یعنی مارو بھی اور رونے بھی مت دو اور بیچاری عورت جب اپنا موقف اپنا درد سامنے لائے بمع تمام ثبوت تو تب بھی شک کی نگاہ ماشاللہ۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ قریباً 20 سے 30 فیصد خواتین ڈومیسٹک وائلنس یعنی گھریلو تشدد اور زیادتی کا شکار ہیں اور ان کی سالانہ تعداد 5000 سے تجاوز کرتی ہے۔ تشدد کی بات کی جائے تو محض جسمانی تشدد کو ہی تشدد سمجھا جا تا ہے جبکہ اس کی اقسام کئی مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔ وراثت میں حصہ نہ دینا، حقوق میں غفلت برتنا، مناسب اور برابر مواقع کی عدم دستیابی بھی تشدد ہے اور سب سے بڑھ کر وہ اذیت اور ذہنی تشدد ہے جو آپ کسی کو پہنچاتے ہیں جس کے زخم بھلے ہی نظر نہ آتے ہوں مگر اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔
غربت، جیہز خوری، مرد کا اپنی برتری دکھانا اور سسرالی رشتہ داروں کی گھریلو معاملات میں مداخلت بعض اوقات قتل اور اقدام قتل تک کے سنگین معاملات تک پہنچا دیتی ہے اور یہاں پر غلطی ہمارے قوانین اور قانونی اداروں پر بھی آتی ہے جو کہ گھریلو تشدد کو میاں بیوی کا اندرونی اور آپسی معاملہ کہہ کر بات آئی گئی کر دیتے ہیں۔ مطلب سرعام عزت اور پیار گناہ ہو گیا جبکہ سرعام مار پیٹ مردانگی کی اعلیٰ ترین مثال ہے
بعض معاملات میں مرد حضرات کو باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بتایا جائے عورت صرف برتنے استعمال کرنے کی کوئی چیز ہرگز نہیں ایک جیتا جاگتا وجود ہے جس کے اندر خواہشات پنپتی ہیں، زندگی سانس لیتی ہے۔ اور اگر آپ کا دل کہیں اور جاتا ہے، نظریں کسی اور کا طواف کرنے پر مجبور ہیں تو اس میں اس بیچاری کا قطعاً کوئی قصور نہیں جو دو بولوں کے چکر میں آپ کے ساتھ رہنے پر مجبور ہے بلکہ اس کی اعلیٰ ظرفی سمجھئیے جو آپ جیسے حیوان کو انسان کا درجہ دے رہی ہے۔ بلکہ اس میں قصور آپ اور آپ کی تربیت کا ہے، اس میں قصور اس معاشرے کا ہے جو ایک انسان کو جانور بناتے دیر نہیں لگاتا۔ اس میں قصوروار وہ مرد ہے جو ازل سے عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتا آیا ہے اور حقوق و فرائض کی جنگ میں ہمیشہ حقوق بھول جایا کرتے ہیں۔
مطلب ہمارے ہاں زیادتی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ 2012 اینٹی وایئلنس بل پیش ہونے اور متعین سزاؤں کے بارے میں واضح طور پر جاننے کے باوجود کچھ نامی گرامی لوگ بھی عورت کو ملکیت یا پیر کی جوتی سمجھنے سے گریز نہیں کرتے اور جب درندگی تصاویر اور ثبوت سمیت سامنے آ بھی جائے تو انتہائی دیدہ دلیری، دھڑلے اور بے غیرتی سے سامنے آتے اور قسمیں اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ وضاحت اور تاویلات کی لمبی لائن بھی نظر آئے گی کہ بھئی ماں بہن کو نہیں مارا تو بیوی کو کیوں ماروں گا۔ مطلب بھئی واہ! آپ کو اور آپ کی دمدار بے غیرتی کو اکیس توپوں کی سلامی۔
مندرجہ بالا دو واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانیت کی عینک لگا کر دیکھا جائے اور مردوں کی مردانگی، فزیکل اور سائیکلوجیکل زیادتی سے ہٹ کر پیار، محبت اور عزت سے تعبیر کیا جائے تو شاید صورتحال مختلف ہو۔ ایسا مرد مردانگی کی علامت کیوں نہیں بن سکتا جو عزت اور محبت دینا جانتا ہو، جس کے ساتھ ہونے سے تحفظ کا احساس ہو، وہ زن مرید کیوں کہلاتا ہے۔ طعن و تشنیع اور فقرے کسنے کے بجائے اگر ایسے مردوں کو عزت اور غیرت کی علامت سمجھا جائے تو ہی بہتر ہے ورنہ آج ایک فاطمہ فریاد لے کر سامنے آئی ہے، کل ہزارہا آئیں گی جو اب تک چپ بیٹھی ہیں اور قوانین بنانا ہی نہیں، ان پر عمل درآمد بھی ایک مقصد ہے کیونکہ اگر تیسرے سے دسویں نمبر پر بھی آ جائیں تو ہرگز برا نہیں۔