کراچی میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے ایک بیوہ خاتون کی شکایت پر ان کی نوعمر بیٹی سے سوشل میڈیا پر دوستی کرنے کے بعد اسے بلیک میل کرنے والے نوجوان کو گرفتار کر لیا ہے۔
مذکورہ خاتون نے سائبر کرائم ونگ کی ویب سائٹ پر شکایت درج کی تھی کہ ان کی بیٹی کی سوشل میڈیا پر ایک نوجوان سے دوستی ہوئی جس کے بعد اس نوجوان نے میری بیٹی سے تصاویر مانگیں جو اس نے بھیج دیں اور کچھ وقت کے بعد نازیبا تصاویر بھی منگوائیں، وہ بھی دے دی گئیں اور اس عرصے میں وہ ویڈیو کالز بھی کرتا رہا۔
خاتون کا کہنا تھا کہ یہ نوجوان ‘اب میری بیٹی کو بلیک میل اور ہراساں کر رہا ہے کہ مجھ سے ملو ورنہ تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دوں گا۔’
ایف آئی اے کے مطابق خاتون کی درخواست پر ایف آئی اے نے انھیں طلب کر کے معلومات حاصل کیں۔
ایف آئی اے کے مطابق ملزم کے موبائل فون کا تکنیکی معائنہ کیا گیا ہے جس میں لڑکی کی قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز پائی گئی ہیں۔ لڑکے نے یہ تصاویر اور ویڈیوز لڑکی کی ایک رشتے دار خاتون کو بھی منتقل کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
’فیس بک پر خواتین سب سے زیادہ ہراساں ہو رہی ہیں‘
’سوشل میڈیا پر بدنامی نے زندگی تباہ کر دی‘
واٹس ایپ پر’بچوں کی فحش تصاویر‘ پر گرفتاریاں
اس مقدمے کے تحقیقاتی افسر اکبر محسود نے بی بی سی کو بتایا کہ لڑکے نے نو عمر لڑکی کو فیس بک پر دوستی کی درخواست بھیجی تھی اور اس طرح دونوں میں رابطہ ہوا۔
ان کے مطابق لڑکی نابالغ ہے جبکہ لڑکا اٹھارہ سال سے بڑا ہے اور اس کے موبائل فون سے ایسے شواہد ملے ہیں جن کی رو سے وہ چائلڈ پورنو گرافی اور سائبر کرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔
بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس قسم کی شکایات ملنے پر ایف آئی اے کی کارروائی کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے اور انٹرنیٹ پر اس قسم کی بلیک میلنگ سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
پورنو گرافی سے کیا مراد ہے؟
انسدادِ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2015 کی چائلڈ پورنو گرافی کی شق کے مطابق اگر کوئی شخص کسی بچے کی فحش تصویر یا ویڈیو بناتا ہے یا جنسی استحصال کے دوران ایسا کرتا ہے تو یہ تصاویر بنانے والا، اسے فروخت کرنے والا یا اسے منتقل کرنے والا جرم کا مرتکب ہو گا۔ جس کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید یا پچاس لاکھ روپے جرمانہ یا دنوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ متاثرہ بچے کے والدین یا کفیل حکام کو متعلقہ مواد انٹرنیٹ سے ہٹانے کے لیے بھی درخواست کرسکتے ہیں۔
اسی طرح اگر کوئی کسی بالغ شخص کی عریاں تصاویر یا ویڈیوز بناتا ہے، شیئر کرتا ہے یا فروخت کرتا ہے تو وہ بھی جرم کا مرتکب ہے جس کی سزا تین سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
سائبر کرائم کے قانون کے مطابق اگر کوئی شخص سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر کسی کو ہراساں کرتا ہے، ناشائستہ گفتگو کرتا ہے، یا ایسا عمل کرتا ہے جس سے ذہنی دباؤ ہو تو یہ بھی جرم ہے جس کی سزا تین سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔
سائبر ہراس کا بڑھتا رجحان
پاکستان کے تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر ونگ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2016 سے 2018 تک سائبر کرائم کے 587 مقدمات دائر کیے گئے جن میں سے 81 آن لائن ہراساں کرنے کے تھے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی فیض اللہ کوریجو نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ سال کراچی میں سائبر کرائم کے 22 مقدمات درج ہوئے جبکہ رواں سال کے سات ماہ میں 16 مقدمات درج ہوچکے ہیں، ان مقدمات میں زیادہ تر ہراساں کرنے کے ہیں۔
آن لائن حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی جانب سے آن لائن ہراس کو روکنے اور اس کے متاثرہ افراد کو مدد فراہم کرنے کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے۔
ڈی آر ایف کی جانب سے 2017 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 70 فیصد خواتین انٹرنیٹ پر مختلف نوعیت کے ہراس کا سامنا کرتی ہیں اور یہ ہراس زیادہ تر فیس بک اور ٹوئٹر پر کیا جاتا ہے۔’
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کیسے کارروائی کرتا ہے؟
ایف آئی اے کےایڈیشنل ڈائریکٹر فیض اللہ کوریجو کے مطابق شکایت موصول ہونے کے بعد ایف آئی اے شکایت کنندہ کو طلب کرتا ہے جس کے بعد اس سے درخواست کی تصدیق کروائی جاتی ہے اور ایک حلف نامہ لیا جاتا ہے۔
شکایت کی تحقیقات میں 3 ماہ تک کا عرصہ لگ سکتا ہے جس میں فریقین کو بلایا جاتا ہے جبکہ ایف آئی آر درج ہونے میں چھ ماہ تک کا عرصہ لگ سکتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کبھی مطلوبہ معلومات جلد تو کبھی تاخیر سے فراہم کرتی ہیں۔
دوستی سے ’ریوینج پورن’ تک
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے حکام کا کہنا ہے کہ متنازعہ تصاویر یا ویڈیوز کی جو شکایات آتی ہیں ان میں 90 فیصد انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہوتی ہیں جسے ریوینج پورن کہا جاتا ہے۔
ریوینج پورن کی تشریح کے مطابق وہ عریاں تصاویر یا ویڈیوز جو پارٹنرز یا دوستوں نے اپنی رضامندی سے بنوائیں لیکن بعد میں کسی ایک کی مرضی یا معلومات کے بغیر شیئر کردی گئیں۔
ایف آئی اے کے افسر اکبر محسود کے مطابق ’سب کچھ’ شکایت کرنے والوں کی مرضی سے ہوتا ہے اور جب دوستی خراب ہوجائے، ’بریک اپ’ ہو جائے یا کسی اور سے تعلقات قائم ہو جائیں تو بلیک میلنگ کا عنصر آجاتا ہے جس کی وجہ سے پھر یہ ایشو بن جاتا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد اس عمل کو ریوینج پورن قرار دینے پر اعتراض کرتی ہیں۔ وہ اسے ’نان کنسینشوئل انٹیمیٹ امیج’ قرار دیتی ہیں یعنی رضامندی کے بغیر کسی کی تصاویر یا ویڈیوز کو پھیلا دینا۔ ان کے مطابق ظاہر سی بات ہے کہ یہ اسی نتیجے میں ہوتا ہے جب دو فریقین میں بریک اپ ہوجائے یا شادی نہیں ہو پاتی یا دوستی نہ ہوسکے تو پھر وہ انتقام لیتے ہیں۔
’اس سے قبل رضامندی کے ساتھ تصاویر شیئر کرتے ہیں لیکن جب بریک اپ ہوجاتا ہے تو رضامندی وہیں ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد اگر کوئی یہ پھیلاتا ہے تو پھر وہ ایک جرم ہے۔ اس کے علاوہ اگر فوٹو شاپ تصاویر جس میں شکل ایک کی اور جسم کسی اور کا لگا دیں اور فیس بک یا کہیں اور اپ لوڈ کردیں تو یہ بھی انتقامی کارروائی ہے۔‘
تصویر شیئر کرنے سے پہلے سوچیں
نگہت داد کا خواتین کو مشورہ ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنا ڈیٹا شیئر کریں پھر چاہے وہ آپ کا فیملی ممبر ہے، کزن، منگیتر یا پارٹنر ہے۔ فیس بک ہو انسٹا گرام یا کوئی دوسری ویب سائٹ، اپنی تصویر شیئر کرنے سے قبل یہ ضرور سوچ لیں کہ یہ ڈیٹا کہاں تک جاسکتا ہے اور کون کس طریقے سے استعمال کرسکتا ہے کیونکہ جب کوئی تصویر یا ویڈیو موبائل سے نکل کر سوشل میڈیا پر آجائے تو آپ کی نہیں رہتی۔
نگہت داد نے بتایا ’ہمارے پاس ایک کیس آیا جس میں میاں بیوی میں لڑائی ہوئی اور لڑکی نے خلع مانگ لیا لیکن خاوند نے اسے واپس لانے کے لیے بلیک میل کیا جس کے لیے اس نے شادی شدہ زندگی میں جو تصاویر لیں تھیں ان کا استعمال کیا۔ یقیناً شادی شدہ زندگی میں یہ رضامندی سے ہوا ہو گا لیکن احتیاط کی ضرورت ہے کہ کس قسم کی تصاویر لی جا رہی ہیں، کس ماحول میں لی جا رہی ہیں، کہاں جارہی ہیں اور کس حد تک استعمال ہوسکتی ہیں۔‘
سوشل میڈیا اور بچے
نگہت داد کے مطابق کراچی میں چائلڈ پورنو گرافی کا واقعہ پہلا نہیں اس سے قبل جھنگ اور گجرات میں بھی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں۔
’ٹیکنالوجی تک رسائی تو ہے لیکن شعور اور آگاہی نہیں، اب چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی پتہ ہے کہ وہ کس طرح اپنی پروفائل بناسکتے ہیں، یہ بچے بڑوں سے زیادہ ذہین ہیں۔ وہ متبادل راستے نکال لیتے ہیں۔ والدین کے پاس ڈیوائسز تو ہیں لیکن انھیں معلوم نہیں کہ اسے کیسے چلانا ہے اور سوشل میڈیا پر پروفائل کیسے بنانی ہے؟ پرائیوسی سیٹنگ کیا ہے؟ اس کے برعکس بچے زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔
نگہت داد کے مطابق جو مافیا اور غلط قسم کے لوگ بچوں کو بہلا پھسلا کر نہ صرف چائلڈ پورنوگرافی اور غلط تصاویر لیتے ہیں، بچوں سے یہ بھی اگلواتے ہیں کہ وہ کہاں رہتے ہیں، ماں باپ گھر میں موجود ہیں یا نہیں اور اس قسم کی معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کی نگرانی کریں جسے ’پیرنٹل کنٹرول‘ کہتے ہیں۔
مقدمے کی پیروی اور سماجی دباؤ
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم ونگ کے سینئر افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس شکایات تو آتی ہیں لیکن جب ابتدائی تحقیقات کے بعد ایف آئی آر درج کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو خواتین پیچھے ہٹ جاتی ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ملزم کو باز رکھا جائے اور تصاویر یا ویڈیوز ہٹا دی جائیں۔
نگہت داد اتفاق کرتی ہیں کہ خواتین پر سماجی دباؤ بھی ہوتا ہے کہ اب یہ معاملہ عدالت میں جائے گا اور اس سے بدنامی ہوگی۔
نگت داد کے مطابق جب ایف آئی اے حکام کہتے ہیں کہ ثبوت جمع کروائیں تو خواتین متنازعہ تصاویر جمع کرواتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔
اس میں خاندان کی عزت اور غیرت کا تصور آجاتا ہے کہ اگر کوئی گھر کا فرد کھڑا بھی ہوجائے تو اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ خاندان کی عزت کو خاک میں ملا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر یہ معاملات ایف آئی آر تک نہیں جاتے۔