اسالیب (کراچی) کے شمارہ دوم میں جناب مبین مرزا کا مضمون” عہدِ جدید اور فحاشی کا مسئلہ“ شایع ہوا ہے۔ یہ مضمون کئی اعتبار سے اہم ہے ۔ ایک یہ کہ اس میں فحاشی کے مسئلے کو ادب، فلم اور سائبر دنیا کے تناظر میں دیکھا گیا ہے؛ دو یہ کہ فحاشی کے سوال کو تہذیبی اقدار سے منسلک کر کے اس کی تفہیم اور اس پر بحث و جرح کے لیے ایک وسیع سیاق مہیا کیا گیا ہے۔ اس مضمون کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں فحاشی کے ثقافتی پس منظر کے سلسلے میں ایک واضح مﺅقف اختیار کیا گیا ہے جو قاری کو فحاشی کے تصورپر بعض نئے زاویوں سے غورو فکر کی تحریک دیتا ہے ۔ اس امر کا ثبوت یہ ہے…
پہاڑوں سے گھرے اس گاؤں سے جہاں باکو رہتا تھا بڑے شہر کا فاصلہ پچاس کلو میٹر تھا۔ باکو ایک ترکھان تھا، خراد کی مشین اس کی زندگی کا محور تھی، اسے اپنی خراد اور اپنے ہنر پر بڑا فخر تھا۔ وہ اس خراد پر لکڑی کی خوبصورت چیزیں ایسی مہارت سے بناتا کہ دور دور سے لوگ دیکھنے آتے ۔ لیکن اسے عرصے سے شراب کی لت پڑی ہویٔ تھی۔ خراد سے جتنے پیسے کماتا، آس پاس کے علاقوں کے شراب خانوں میں صرف کر دیتا۔ اس کی بیوی تانیا کی طبیعت کیٔ دن سے خراب تھی۔ آج اسے تانیا کو ہسپتال لے کر جانا تھا۔ اسے پچاس کلو میٹر کی اس مسافت کے بارے میں سوچ کر ہی الجھن ہو رہی تھی۔…
ہوا یہ کہ میں نے لز سے شادی کرلی۔ نام اس کا ایلزبتھ تھا مگر وہ لز کے نام سے جانی اور پکاری جاتی تھی، خوبصورت تو وہ تھی ہی مگر خوبصورتی سے زیادہ اس کا انداز تھا، رکھ رکھاؤ کا طریقہ، بات کرنے کا سلیقہ، اور دنیا کے بارے میں اس کا رویہ بھی میرے جیسا تھا۔ جس نے مجھے اس کا دیوانہ بنادیا تھا۔ اس سے ملاقات آفس میں ہوئی تھی۔ ہم دونوں ہی کمپیوٹر ڈویژن میں کام کرتے تھے اورکام کے ہی سلسلے میں تقریباً روزانہ ہی رابطے میں رہتے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ پہلی ہی ملاقات سے مجھے اس میں دلچسپی پیدا ہوگئی اور میں نے اسے بھی زندگی میں ملنے والی دوسری لڑکیوں کی …
مصنف: خلیل جبران مترجم: خلیل الرحمان تمثیل: دو آرزوئیں کتاب:ایک آنسو اور ایک مسکراہٹ (1914) رات کی گہری خاموشی میں فرشتۂ اجل، خداوند کے حضور سے زمین کی طرف اترتا ہے۔ شہر پر منڈلاتے ہوئے وہ گھروندوں پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑاتا ہے۔ اور خوابوں کے دوش پر اڑتی ہوئی روحوں کی پرواز ملاحظہ کرتا ہے اور نیند کے مزے لوٹتے فانی انسانوں کو دیکھتا ہے۔ جب ماہتاب افق پر سے روپوش ہوتا ہے اور شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے تو فرشتۂ اجل گھروں میں سے اس بات کا خیال رکھتے ہوئے گزرتا ہے کہ کسی شے کو بھی نہ چھوئے، بالآخر وہ ایک عالیشان محل میں آن پہنچتا ہے۔ مقفل …
وہ دنیا کی سب سے بدصورت عورت تھی۔ جب جوان تھی تب جانے کیسی تھی مگر جب سے سب نے اسے دیکھا وہ تب سے ہی بڈھی اور بدصورت تھی۔ چہرہ ہمیشہ لٹکا ہوا اور بیزار، آنکھیں ہمیشہ غیر دلچسپ اور اجنبی، ماتھے پر تیوریوں کا ڈھیر، زبان میکانکی، اٹھ جاؤ بیٹھ جاو، کھا لو، پی لو سو جاؤ! اس کا ہر کام ایسا تھا جیسے کسی نے کمپیوٹر میں فیڈ کر کے ربورٹ چلا دیا ہو اور وہ بغیر زندگی کے، بغیر جوش اور جذبات کے اسے پورا کرتی پھرتی۔ بچے بھی پرے پرے نڈھال نڈھال اوپرے سے پھرتے۔ نہ کوئی دوست نہ سہیلی۔ میاں کی سیوا پوری تھی دن کی بھی رات کی بھی۔ ہر وقت کی ضیافت اپنے وقت …
Social Plugin