وہ دنیا کی سب سے بدصورت عورت تھی۔ جب جوان تھی تب جانے کیسی تھی مگر جب سے سب نے اسے دیکھا وہ تب سے ہی بڈھی اور بدصورت تھی۔ چہرہ ہمیشہ لٹکا ہوا اور بیزار، آنکھیں ہمیشہ غیر دلچسپ اور اجنبی، ماتھے پر تیوریوں کا ڈھیر، زبان میکانکی، اٹھ جاؤ بیٹھ جاو، کھا لو، پی لو سو جاؤ! اس کا ہر کام ایسا تھا جیسے کسی نے کمپیوٹر میں فیڈ کر کے ربورٹ چلا دیا ہو اور وہ بغیر زندگی کے، بغیر جوش اور جذبات کے اسے پورا کرتی پھرتی۔
بچے بھی پرے پرے نڈھال نڈھال اوپرے سے پھرتے۔ نہ کوئی دوست نہ سہیلی۔ میاں کی سیوا پوری تھی دن کی بھی رات کی بھی۔ ہر وقت کی ضیافت اپنے وقت پر تیار ملتی۔ پھر اس کے بعد پرواہ کسے تھی اس کے کھلکھاتے چہرے کی کمی کی، یا اس کے ماتھے پر دھرنا دے کر بیٹھی جھریوں کی جن میں دن رات مزید مہمانوں کا اضافہ ہوتا رہتا۔ وہ بدصورت تھی۔ سب جانتے تھے اس لئے کوئی بھی اس سے محبت مانگنے کی توقع نہ کرتا، کسی کو اس کے حقوق چھن جانے کا قصور نہ سہنا پڑتا۔
اماں ابا کے گھر جانے کیسی تھی کہ نہ کبھی کسی نے اس کا میکا دیکھا نہ میکے والے۔ یونہی لگتا جنگلوں میں خود رو جھاڑیوں کی طرح سے وہ اکیلی اگی تھی اور کھیتوں میں سے گرے سیبوں کے ڈھیر پر سے اٹھا لی گئی تھی۔ ”اسے کیا پتا! “ سب کو پکا یقین تھا! ”یہ کیا جانے“ سب اسی بات پر ایمان رکھتے تھے۔ ایک اچھی سگھڑ ماسی کی طرح گھر کو ہر وقت پونچھتی رہتی، صفائی میں جتی۔ سب کی فرمائش کے کھانے، ان کی توقع کے مطابق خدمات۔ بچوں کے لنگوٹ سے لے کر ان کے کپڑوں کی الماریوں تک۔ بلوغت سے لے کر ان کے رشتے ڈھونڈنے تک ہر کام میں طاق۔ بس محض ان میں رنگ نہ تھا۔ ہر فرد پھر چاہے شوہر ہو کہ بچے بدمزہ سے رہتے۔ بیوی اور ماں کو پھیکی سویٹ ڈش کی طرح سہتے۔ میاں کی حاکمیت مکمل تھی، قصور گلے ڈالنے کو ایک گونگی بیوی موجود تھی، گواہی دینے کے لئے بچے۔ کاروبار سے واپسی پر ٹی وی اور دوستوں سہیلیوں کے لئے کھلا وقت رات کو گرم بستر۔ اس کی جنت پوری تھی۔ بچے بھی کچھ سال خدمتیں کروا کر اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوتے چلے گئے پھر کسی نے مڑ کر نہیں دیکھا کہ بدصورت ماں اب کیا کرتی ہے۔
ہر آتا وقت اس کی بدصورتی میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ مصنوعی جھریاں اصلی میں بدلتی چلی گئیں۔ چہرے کی سنجیدگی بنیادوں میں پکنے لگی۔ چہرے سے نفاست اور لیاقت کا ہر نشاں اٹھ چکا تھا ایسے جیسے کبھی آیا ہی نہ تھا۔
پھر ایک روز ان کے گھر ایک دور کا رشتہ دار مہمان آیا۔ گزرتے گزرتے خالہ کا ایک بیٹا رشتے کی کزن کا حال پوچھنے چلا آیا۔ اس دن اس کے گھر کی دیواروں نے عجب حال دیکھا۔ صدیوں کے بڈھے چہرے پر سے جوانی دیواریں توڑ کر جھانکنے لگی تھی۔ مدتوں کا اکڑے چہرے پر زندگی اتر رہی تھی۔ جوان بچے ماں کی آنکھوں میں کی جھلک دیکھتے حیران ہوے اور شوہر نے پہلی بار دیکھا کہ اس کی بیوی تو خوبصورت تھی۔ یہی ذرا سے دیر میں اس بدصورت عورت پر حسن جوانی زندگی نکھار ذہانت اور لیاقت ایک مختصر موسم کی طرح اس مہمان کے ساتھ ہی آ کر گزر گیا۔
کچھ موسم لوگوں کے ساتھ آتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی کوچ کر جاتے ہیں۔ کچھ رشتوں، حدودں اور دیواروں کے اندر حسن، جوانی، محبت اور ذہانت کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ کچھ چہروں کے حسن لوگوں سے منسوب ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی کوچ کر جاتے ہیں۔ بہار کے بعد خزاں لوٹی تو اس کے گھر کی ہر اینٹ ہر فرد ہر شخصیت کو ادراک ہوا کہ ان کے گھر میں ایسا آئینہ کوئی نہ تھا جس میں کبھی اس حسن کی دلکشی اتری ہوتی۔ اس بدصورت عورت کا حسن اک غیر دریافت شدہ حقیقت تھی۔پھر یہ لمحوں کی بہار اس کی زندگی کی سب سے بڑی تہمت بنی۔ شوہر کی انگلی اٹھی اور بچوں کی نظریں پھر گئیں۔ بے وفائی کے سارے الزام اس کے سر دھرے گئے۔ تب نہ کسی کو چولہے میں ہزار بار چلے اس کے بازو اور ہاتھ یاد آئے نہ سالہا سالہا کی ہزاروں لاکھوں پکی ہوئی روٹیاں۔ نہ بچوں کے اپنے دھلے لنگوٹوں کا قرض یاد رہا نہ سالہا سال کا رت جگا۔ ماں کو دو گھنٹوں کا حسن بہت مہنگا پڑا تھا وہ حسن جو بن چاہے بن مانگے اس کے وجود پر بارش کے موسم کی طرح اترا تھا اور اس کی زندگی بھر کی ریاضت بہا کر لے گیا تھا۔ دہایاں دے کر جو گھر بنایا تھا اس سے چند گھڑیوں میں بے دخل ہو گئی۔ جن رشتوں کو حسن دی کر سینچا تھا ان سے اس کی مسکراہٹ نہ دیکھی گئی تھی۔ وہ جن کو اس کی بدصورتی سے کبھی غرض نہ رہی تھی آج اس کے حسن کی اک ذرا سی جھلک نہ دیکھی گئی۔ عمر لگا کر جس حسن کو بگاڑا گیا تھا اس کی ایک جھلک نے ساری بازی ہی الٹ دی تھی۔
پھر اس بڈھی بدصورت عورت کو اسی مہمان کے غریب سے گھر میں امان ملی تھی۔ اس امان کے بعد آسمان نے دیکھا کہ گھر، بچے اور عمربھر کی عزت، اثاثہ لٹا کر دربدر ہو جانے والی عورت کیسی خوبصورت تھی۔