وہ دنیا کی سب سے بدصورت عورت تھی۔ جب جوان تھی تب جانے کیسی تھی مگر جب سے سب نے اسے دیکھا وہ تب سے ہی بڈھی اور بدصورت تھی۔ چہرہ ہمیشہ لٹکا ہوا اور بیزار، آنکھیں ہمیشہ غیر دلچسپ اور اجنبی، ماتھے پر تیوریوں کا ڈھیر، زبان میکانکی، اٹھ جاؤ بیٹھ جاو، کھا لو، پی لو سو جاؤ! اس کا ہر کام ایسا تھا جیسے کسی نے کمپیوٹر میں فیڈ کر کے ربورٹ چلا دیا ہو اور وہ بغیر زندگی کے، بغیر جوش اور جذبات کے اسے پورا کرتی پھرتی۔ بچے بھی پرے پرے نڈھال نڈھال اوپرے سے پھرتے۔ نہ کوئی دوست نہ سہیلی۔ میاں کی سیوا پوری تھی دن کی بھی رات کی بھی۔ ہر وقت کی ضیافت اپنے وقت …
صوفیہ کاشف سو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ عورت کا عالمی دن ایک کلنک کے ٹیکے کی طرح سب عورتوں کے منہ پر لگا دیا گیا۔ ایک ایسے گھٹیا اور بھونڈے طریقے سے منانے والوں نے منایا، دکھانے والوں نے دکھایا اور تبصرے کرنے والوں نے تبصرے کیے کہ اب سال بھر جو بھی عورت عورتوں کے حقوق کی بات کرے گی اس کے نام کے ساتھ لعنت اسی دن کی پڑے گی۔ سارا سال ان نعروں کے ساتھ عورتوں کے استحصال کو تقویت دی جاتی رہے گی۔ ”میرا جسم میری میری مرضی“ ، ”لو بیٹھ گئی“ ، ”ماں بہن“ جیسے فقرے سارا سال ہمارے چہروں پر تھپڑوں کی طرح پڑتے رہیں گے۔ نہ فیکٹری میں کام کرنے والی عورت کی …
Social Plugin