کورونا نے حالیہ انسانی تاریخ کے بدترین بحران کو جنم دیا ہے۔ دنیا بھر کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ بڑی بڑی معیشتیں دیوالیہ پن کے خوف سے کپکپا رہی ہیں۔ مگر ایک نقصان ان سب سے بڑا ہے۔
گدیون ہیگ نامور آسٹریلوی کرکٹ رائٹر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کا ایک دوست پورن فلمیں لکھتا ہے اور وہ دونوں آپس میں اکثر اس بات پہ ہنستے ہیں کہ ہم دونوں ہمیشہ نہایت پرانی، بہت پرکشش، بار بار دہرائے جانے والی سرگرمی کے بارے میں نئے انداز سے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سپورٹس بلاشبہ نہایت پرانی، بہت پرکشش اور بار بار دہرائے جانے والی سرگرمی ہے مگر اس کے باوجود انسانی آبادی کی ایک واضح اکثریت کی ’ٹائم پاس‘ سرگرمی ہے۔ کورونا نے کھیلوں کے میدانوں کو جس طرح ویران کر ڈالا ہے، گھروں میں محدود لوگوں کے لیے وقت گزاری کے مشاغل بھی محدود تر ہوتے جا رہے ہیں۔
بڑے بڑے عالمی مقابلے موخر ہو رہے ہیں اور بہت سے ملتوی ہو چکے ہیں۔ ویمبلڈن کا سیزن منسوخ ہو چکا ہے، اولمپکس ملتوی ہو چکے ہیں، فٹبال کے میدان میں بھی ایسا ہی عالم ہے اور کرکٹ کی سنیے تو سب سے بڑی سالانہ معاشی سرگرمی آئی پی ایل بھی مستقبل قریب میں خارج از امکان ہو چکی ہے۔ شائقین کی بوریت تو یقیناً بڑھے گی ہی مگر اس کے اثرات کرکٹ پروفیشنلز پر بھی پڑ رہے ہیں۔
سمیع چوہدری کے دیگر کالم
پیٹ کمنز اس آئی پی ایل سیزن کے مہنگے ترین کھلاڑیوں میں سے ایک تھے، وہ اس وقت گھر بیٹھے آسٹریلوی سیزن کی شروعات کے منتظر ہیں کیونکہ آئی پی ایل کی منسوخی سے گھر بیٹھے ہی انھیں بائیس لاکھ ڈالر کا نقصان ہو جائے گا۔ سوچیے اگر یہ سیزن ہی منعقد نہ ہوا تو بھارتی کرکٹ بورڈ کو کتنا نقصان ہو گا۔
پی سی بی کے وسیم خان مگر پرامید ہیں کہ اگر کورونا دو تین سیریز اور ڈومیسٹک سیزن نگل بھی گیا تو بھی بورڈ کی جیب میں کافی نوٹ ہیں۔ سردیوں تک پی سی بی کے فنانسز صحت مند حالت میں ہیں۔
لیکن انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ٹام ہیریسن بالکل بھی پر امید نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کورونا کے سبب یہ پورا سیزن منسوخ ہوا، جو کہ قرین از قیاس ہے، تو انگلش کرکٹ کی جیبوں پہ اس کا خسارہ 300 ملین پاؤنڈز ہو گا۔
لہذا، فی الوقت تو ہمیں یہی دکھائی دے رہا ہے کہ پچھلے چند برسوں میں کرکٹ جس تیزی سے امیر ہوئی تھی، کورونا کا حالیہ جھٹکا اسے پھر کم از کم چار پانچ سال پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ کیونکہ اگر رواں برس جون، جولائی تک حالات میں بہتری نہیں آتی تو کیریبئین پریمیر لیگ کے ساتھ ساتھ آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا انعقاد بھی مخدوش ہوتا جا رہا ہے۔
اور یہ سادہ سی بات ہے کہ اگر آئی سی سی کی آمدن کم ہوئی تو اس کے اثرات ہر رکن ملک کے بورڈ ہی نہیں، کھلاڑیوں اور ڈومیسٹک کرکٹ تک بھی پہنچیں گے۔ یہ اثرات کسی حد تک ظاہر ہونا بھی شروع ہو چکے ہیں کہ انگلینڈ نے اپنے کھلاڑیوں سے ماہانہ تنخواہوں میں بیس فیصد کٹوتی کی درخواست کر چھوڑی ہے۔
پروفیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن اگرچہ ابھی تک اس پہ یکسر مختلف مؤقف رکھتی ہے مگر یہ امید کم ہے کہ بالآخر پلئیرز کے کھاتے سے بیس فیصد کٹوتی نہ ہو۔ کیونکہ اگر بورڈ تین سو ملین پاؤنڈز کے خسارے میں جاتا ہے تو کہیں نہ کہیں سے اخراجات میں کمی تو لانا ہی پڑے گی۔
پی سی بی کے لیے فی الوقت تشویش کی بات یوں نہیں ہے کہ خوش قسمتی سے پی سی بی کا کماؤ پوت ایونٹ پی ایس ایل کورونا بحران سے پہلے پہلے ہی نمٹ گیا۔ بس تین میچز باقی ہیں، وہ کہیں نہ کہیں منعقد ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ لیکن پی سی بی اپنے حصے کی کافی کمائی کر چکا ہے۔
لیکن دیگر سبھی بورڈز اس وقت گہرے پانیوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ بی سی سی آئی کے سربراہ ساریو گنگولی خاصے پریشان ہیں کہ اگر آئی پی ایل کا سیزن ملتوی ہو گیا تو اتنے بڑے مالی خسارے کا مداوا کہاں سے کریں گے۔
ویسٹ انڈین بورڈ کریبین پریمئر لیگ کے بارے فکر مند ہے اور یہ فکرمندی بجا ہے کہ اگر پہلے ہی عدم استحکام کا شکار بورڈ کے فنانسز گر گئے تو اس کا ویسٹ انڈین ٹیم کی کارکردگی پہ کتنا گہرا اثر پڑے گا۔ مگر اس سارے بحران کے باوجود کچھ لوگ ابھی بھی مثبت پسندی سے کام لے کر نئی تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ بین سٹوکس اور جانی بئیرسٹو تو اس حد تک پر امید ہیں کہ ان ڈور نیٹس میں ہی آئی پی ایل کی تیاری کر رہے ہیں۔
دوسری جانب انگلش کپتان اوئن مورگن کہہ رہے ہیں کہ ضرورت پڑنے پہ انگلینڈ دو الگ الگ ٹیمیں تشکیل دے کر بیک وقت اپنے ٹیسٹ اور ون ڈے میچز کھیل سکتا ہے تا کہ محدود سی ونڈو میں بھی زیادہ سے زیادہ کرکٹ کھیل لی جائے اور سیزن خالی نہ جائے۔
وہ اس پر بھی تیار ہیں کہ کرکٹنگ دنیا کوئی ایسے ہائی جین کے ضابطے طے کر لے کہ کراؤڈز کے بغیر صرف بائیس کھلاڑی اور گنے چنے میچ آفیشلز ہی خالی سٹیڈیم میں چند گھنٹے بحفاظت گزار سکیں تو بند دروازوں کے پیچھے کھیلنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
کورونا بحران نہ جانے اور کتنے ماہ چلے گا مگر مورگن کی یہ تجویز فی الوقت کافی حد تک عملیت پسندی کے قریب ہے کیونکہ باقی سبھی معیشتوں کی طرح کرکٹ کی معیشت بھی زوال کی جانب بڑھ رہی ہے اور اگر اس رجحان کو توڑا نہ گیا تو خدشہ ہے کہ کورونا کہیں کرکٹ کو بھی غریب نہ کر جائے۔