ڈاکٹر فاخرہ نورین اسے جنت تو کیا مل پائے گی جنت میں ایسی عورتوں کو داخلے کی کب اجازت ہے نہ اس کی پنڈلیاں شفاف ایسی تھیں کہ ان میں سے گزرتا خون گرماتا لہو شریانِ مردہ کا نہ اس نے وہ گلا پایا کہ رگ رگ سےد کھائی دیتا مشروبِ مطہر پینے والوں میں کوئی ہیجان بھر دیتا نہ آنکھیں ہی غلافی جن کی پلکیں سایہ بن جاتیں خدا کے بندگانِ خاص کی خاطر جو اپنے زہد کے صحراؤں کی لمبی مسافت سے تھکے، ٹخنوں تلک پہنی شرع کے بوجھ سے اکتائے داڑھیوں کے جھاڑ میں خوشبوئے نافہ مَل مَلا کر قرن ہا سے اس کی خاطر سب لذائذ چھوڑ کر تیار آئیں گے …
نصیر احمد ناصر گوتم کو عمر بھر پتا نہ چلا کہ دکھ عورت ہے وہ عورت ہی تھی جس نے اُسے جنم دے کر موت کو گلے لگا لیا اور وہ بھی عورت تھی جسے وہ بستر میں سوتا چھوڑ آیا تھا اور حالتِ مرگ میں اسے دودھ اور چاول کی بھینٹ دینے والی بھی ایک عورت تھی دکھ عورت ہے اور عورت دکھ ہے۔ عورت کسی بھی روپ میں ہو عظیم ہے۔ کیونکہ دکھ عظیم ہے۔ دکھ کی ارفع ترین شکل تخلیق ہے اور عورت خدا کے بعد تخلیق کا سب سے بڑا استعارہ ہے۔ دونوں میں یکتائی کا رشتہ ہے۔ خدا اتنی بڑی کائنات تخلیق کر کے بھی تنہا ہے تو عورت ماں، بیوی، محبوبہ، بہو، بیٹی، بہن یہ …
عشرت آفرین مری بیٹی بظاہر تم بھی کتنی بے ضرر معلوم ہوتی ہو سبھی کہتے ہیں ماں کی طرح مدھم نقش آنکھیں واجبی سی اور رنگ و روپ بھی ایسا نہیں جو راستہ چلتے کو دیوانہ بنادے۔یا کہ بستی کے جواں ہوتے ہوئے بیٹوں کی مائیں دم بخود رہ جائیں اور لڑکے درختوں کے تلے عمریں بتا دیں بظاہر تم میں ایسی کوئی بھی خوبی نہیں ہے مگر جب بولتی ہو مجھ کو تم سے خوف آتا ہے مری جاں باوجود اس کے نہ میں ہاری محبت میں نہ کوئی جھوٹ کا کانٹا ہی الجھا میرے دامن سے مجھے تو آرزو ہی رہ گئی بس بے وفائی کی عجب کم بخت خواہش تھی…
نہ جانے کیوں میرے ہر رواہیہ مجھے قتل کردیتی ہے عومر کریم بلوچ
Social Plugin