مثلا کشش ثقل کا کوئی مادی وجود آپ کے ادراک میں نہیں ہے جسے آپ حواس خمسہ کے ذریعے سے دیکھ سکیں یا ان کا مشاہدہ اس بنیاد پر کر سکیں لیکن اس کے اثرات اور نشانیاں اس قدر عیاں ہیں کہ اس کا انکار ممکن نہیں۔ آخرت میں خدا کے وجود کا مشاہدہ حسی بنیادوں پر بھی انسان کے لیے ممکن ہو جاے گا جس کی بشارت کو خبر صادق کی بنیاد پر مانا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے اگر ہم اپنے ڈاکٹر کے پاس جائیں اور وہ ہماری بیماری دریافت کر کے بتاے کہ تمہیں فلاں مرض لاحق ہے تو ہم اس کی خبر کو واضح شواہد کی روشنی میں مستند مان کر اس کے بتاے ہوے حقائق کو تسلیم کر لیتے ہیں۔
چنانچہ عقلی استدلال کے ہمراہ خبر مستند جاننے اور ماننے کا وہ دوسرا ذریعہ ہے جو انسان کو وسائل علم کے طور پر میسر ہے۔ اس سے بھی انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ خود سائنس کی دنیا میں آئن اسٹائن کی خبر پر بلیک ہول کے وجود کو موجود علمی شواہد کی روشنی میں مانا جاتا ہے جبکہ یہ دریافت اسی کے ذریعے ہوئی۔ باقی انسان بذات خود یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا وجود بھی کائنات میں موجود ہے۔
خدا کے وجود سے انکاری گروہ کا تعلق سگمنڈ فرائیڈ کے بتاے ہوے نظریے پر اپنے موقف کی عمارت کھڑی کرتا ہے کہ انسان نے خدا کا تصور اس لیے تخلیق کیا تا کہ وہ خوشی و سکون حاصل کر سکے۔ انسان جب فطری نظریات اور اصولوں کو دریافت کرتے ہوے ان پر زندگی بسر کرتا ہے تو نفسیاتی طور پر ایک صحت مند انسان ہوتا ہے جبکہ غیر فطری، وہمی، نظریات اور اصولوں پر زندگی نفسیاتی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ فرائیڈ مذہب کو محض ایک نفسیاتی بیماری ایک وہمی اعتقاد قرار دیتے تھے اور ان کا خیال یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان جیسے جیسے ترقی کرے گا، یہ مرض دور ہو جاے گا۔ لیکن مذہب اور خدا پر ایمان وہمی نظریے کی بجاے سراسر ایک فطری نظریہ اور اعتقاد ثابت ہوا۔ انہی ماہرین نفسیات نے طویل عرصے تک لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ کرنے کے بعد جو راے قائم کی، وہ پیٹرک گلائن کے الفاظ میں کچھ یوں تھی۔
” نفسیات کے میدان میں پچس سالہ ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ فرائیڈ اور ان کے پیروکاروں کے خیال کے برعکس، مذہب پر ایمان ذہنی صحت اور خوشی کے اہم ترین اسباب میں سے ایک ہے۔ ریسرچ پر ریسرچ یہ ثابت کرتی ہے کہ مذہب پر ایمان اور اس پر عمل انسان کو بہت سے غیر صحت مندانہ رویوں جیسے خود کشی، منشیات کے استعمال، طلاق، ڈیپریشن اور شادی کے بعد جنسی عدم تسکین سے بچاتا ہے۔ مختصرا، مشاہداتی ڈیٹا پہلے سے فرض کردہ سائیکو تھراپک اجماع سے بالکل مختلف نتائج پیش کرتا ہے۔
ایک گروہ ایسا بھی ہے جو محض وراثتی طور پر مذہب اور خدا کا تصور رکھتا ہے اور شعوری دریافت کی سرے سے زحمت گوارا ہی نہیں کرتا اور نتیجتا مذہب کے وراثتی حمل کو لیے ہوے فطری نظریات و عوامل کی عدم دریافت کا شکار ہے۔ اس بنا پر اپنی حقیقی پہچان میں اکثر تذبذب کا شکار نظر آتا ہے۔
کچھ گروہوں کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کی فطرت اور ضمیر کا دروازہ کہیں نا کہیں ابھی بھی تلاش حق پر متنبہ کرنے کی خاطر ان کا در کھٹکٹھا رہا ہے اور وہ حق و باطل کی دوئی کے منجدھار میں برسر پیکار ہیں۔
خدا کی ذات اور اس کے ظاہر کو حواس خمسہ پر پرکھنے کا مسئلہ بہت گھمبیر ہونے کی بجاے نہایت سادہ ہے۔ یہ سوال کسی بھی وجود اور اس کے موجود ہونے کی گنجلک پر مشتمل ہے لیکن سادہ لفظوں میں اس سوال سے مراد یہ ہے کہ کسی کے موجود ہونے کا مطلب ہے، وہ ”ماہیت“ یعنی مادی وجود میں خارج ہو، جیسا کہ انسان کی روح یعنی اس کے ”وجود“ کا اخراج اس کے مادی جسم میں ہوتا ہے تو ان کے نزدیک کسی چیز کے وجود کا اثبات محض اس کی empirical and physical reality سے ہی ممکن ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے کبھی ”کشش ثقل“ کے مادی وجود کو دیکھا ہے۔ اگر آپ اس کے موجود ہونے پر یقین رکھتے ہیں تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس کا وجود کیسا ہے مادی یا کچھ اور؟ اگر مادی ہے اور اس تک آپ کی دسترس ہے کہ تو کیا آپ بتا سکتے ہیں، اس کے ہاتھ، منہ، ناک نقشہ کیسا ہے؟
اس کے وجود کو ہم دراصل اس کی نشانیوں، اس کے اثرات اور عقلی استدلال کے ذریعے ہی سے اخذ کرتے ہیں اور مانتے بھی ہیں۔ پھر کیا ہم عقلی استدلال کی بنیادوں پر کسی بھی چیز یا ذات کے بارے میں جاننے اور ماننے کی اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں اور کیا یہ منطقی ہو گا جسے اہل علم و عقل جھٹلا سکیں؟ پھر عین ممکن ہے کہ کل کو سائنس یا انسان کی دسترس کشش ثقل کے وجود کا Empirically مشاہدہ کرنے پر دسترس حاصل کر لے یعنی وہ اسے کسی مائکرو سکوپ یا آلے کو دریافت کرتے ہوے دیکھ ہی لے۔
بالکل خداے بزرگو برتر کا وجود بھی عقلی استدلال پر ایک حقیقت کے طور پر ثابت شدہ ہے البتہ اس دنیا میں ہم اس کی ذات کے بارے میں علم عقلی استدلال کی بنیاد پر ہی رکھتے ہیں اور اس کے وجود تک حواس خمسہ کی دسترس کا وقت مقرر ہے جس کی شہادت قطعی خبر کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ یعنی خدا کے پیغمبر کا میسج اور اس کی وحی مکمل تاریخی اور مستند ذرائع کی حیثیت سے ہمارے پاس اس علم کی گواہی کے طور پر موجود ہیں۔ شواہد کی بنیاد پر خبرصادق بھی انسان کے پاس جاننے اور ماننے کا قطعی ذریعہ ہے جیسے آپ بہت سے تاریخی ریکارڈ کو اسی ذریعے کی بنیاد پر تسلیم کرتے ہیں۔
جس طرح آپ آئن اسٹائن کی گواہی سے بلیک ہول کے وجود کو بن دیکھے مان لیتے ہیں۔ چنانچہ انسان کے پاس جاننے اور ماننے کے لیے محض حس و مشاہدہ ہی واحد ذریعہ نہیں ہے بلکہ انسان بہت سے حقائق کو عقلی استدلال اور خبر صادق کے ذریعے سے دریافت بھی کرتا ہے اور پھر اسے مان کر اپناتا بھی ہے اور یہ عمل مکمل طور پر عقل و فطرت کے موافق ہے۔
چنانچہ موجودیت کے بارے میں محض آپ کے پاس حسی شواہد کے ذریعے سے علم ہی وہ واحد ذریعہ نا ہوا جس کی بنیاد پر آپ کسی بھی وجود کو جان اور مان سکتے ہیں۔ اگر کسی وجود کا اثبات علمی و عقلی بنیادوں اور شواہد سے ملتا ہے تو قطع نظر اس بات سے کہ حسیات اس کا مشاہدہ کرنے پر دسترس رکھتے ہیں یا نہیں، اس کے ہونے کو تسلیم کرنا عین فطری اور منطقی ہے۔
خدا کا موجود ہونا فی الوقت اس دنیا میں انہی دونوں وسائل علم و عقل کی بنیاد پر روز روشن کی طرح عیاں اور ایک
زندہ حقیقت ہے جس کا انکار محض اس کے انسانی حسیات کی حدود میں نا ہونے کی بنا پر کرنا قطعاً غیر منطقی ہے ورنہ تو معذرت کے ساتھ آپ کو ایسے باقی تمام حقائق سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا جنہیں آپ سچ کی حیثیت سے اپناتے ہیں اور ان کے کسی قسم کے حسی شواہد پر فی الوقت آپ کی دسترس نہیں ہے۔ رہی بات اس کی ”ماہیت“ کی تو یہ درست ہے کہ جو چیز موجود ہے اس کی empirical reality ہوا کرتی ہے۔ ”خدا کیسا ہے“ اس کے وجود کے حسی علم اور دیدار سے ہم روز قیامت ہمکنار ہوں گے ان شاء اللہ اور تب ہی یہ جاننے پر ہمیں دسترس حاصل ہو گی کہ وہ کیسے ظاہر کا مالک ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہمارے اس ایمان کی بنیاد کیا ہے تو اس کا جواب پیشگی اس تحریر میں موجود ہے۔ اس پر ایمان کا ذریعہ ہمارے لیے خبر مستند و صادق ہے۔ امید ہے یہاں یہ بات واضح ہوئی کہ اگر وہ ہے تو اس کی ”ماہیت“ کیا ہے۔ ”وہ جو موجود ہو“ اور ”شے“ نا ہو یعنی مادی شے نا ہو تو پھر ”وہ کیا ہے“۔
تو وہ ”موجود“ ہے اور کائنات کا خالق اور اس کے نظام کا مالک ہے یہ مکمل طور پر علمی و عقلی بنیادوں سے ثابت شدہ ہے اور ”وہ کیا ہے“ یعنی کیسا ہے اس پر دسترس ہمیں اس دنیا میں حاصل نہیں ہے۔ خبر صادق کے ذریعے سے ہم جانتے ہیں کہ اس پر دسترس فیصلے کے دن پر موقوف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ جاننے اور ماننے کے ان دونوں ذرائع یعنی ”عقلی استدلال“ اور ”“ خبر صادق ”کی بنا پر کوئی حقیقت تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں؟
آخر میں کائنات کے حوالے سے یہ بات کہ مجموعی طور پر یہ ایک واقعہ ہے جو عظیم الشان پیمانے پر متصلا پیش آ رہا ہے تو میرا اس فکر کے حامل افراد سے سوال یہ ہے کہ
کیا آپ اپنے گھر میں موجود چھوٹی چھوٹی مادی اشیاء جیسے واشنگ مشین، فریج، ٹی وی وغیرہ ہی کے بارے میں یہ دعوی آپ علم و عقل بنیادوں پر کر سکتے ہیں کہ یہ واقعتا پیدا ہو گئی ان کا کوئی بنانے والا موجود نہیں ہے اور کیا اس کی کارکردگی خود بہ خود ہی وجود میں آتی جاتی ہے۔ اگر آپ اس چھوٹے سے آلے اور اس کے کام کرنے کے بارے میں یہ دعوی نہیں کر سکتے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی عظیم الشان اور فنکشنلی functionally منظم مادی کائنات کے بارے میں یہ دعوی کیا جاے کہ یہ محض ایک اتفاقی حادثہ ہے اور بغیر کسی پلین کے ہی برسر پیکار ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر کبھی ایسا کیوں نا ہوا کہ سورج کا جب جی چاہے نکل کھڑا ہو، چاند کا جب جی چاہے ستاروں اور دیگر سیاروں سے ٹکرا جاے۔ یہ سب نظام اتفاقی حادثوں کے رونما ہونے سے اتنا منظم اور سلجھا ہوا، وقت کا پابند اور فکسڈ کیوں اور کیسے ہے؟ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اس کو چلانے پر ایک لیڈر ایک عظیم الشان ہستی موجود ہے جو اس کی تخلیق کار ہے اور جس کے کنٹرول اور آرڈر پر یہ سب چاند، ستارے، سورج اور نظام کائنات برسر پیکار ہیں
تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو بہت سے ایسے انسانوں سے ملاقات ضرور ہوتی ہے جن کی منطق بسا اوقات خدا کو جان کر بھی نا ماننے سے عاری دکھائی دیتی ہے، اس کی وجہ محض یہ ہے کہ خدا نے انسان کو ارادہ و اختیار پر ایک محدود خود مختاری اور اس دنیا کی خلافت ایک محدود وقت تک دے رکھی ہے اور اس کا استعمال کرنے میں تقریبا آزاد ہونے کی بنا پر بسا اوقات وہ خود کو بہت بڑا اور طاقتور خیال کر بیٹھتا ہے۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ مسلمان مفکرین جو بھی کہیں ان کی بات حجت نہیں ہو سکتی حتی کہ وہ خدا کی عطا کی ہوئی مستند رہنمائی کی کسوٹی پر پوری نہ اترے اور عقل و منطق کے منافی نا ہو۔