میرے جو دوست مجھ سے مل چکے ہیں اور میرے ساتھ کار کا سفر کر چکے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میری گاڑی کی پلیٹ پر لکھا ہے HUMANIST
جب میں کسی گیس سٹیشن سے اپنی گاڑی میں تیل ڈلوا رہا ہوتا ہوں تو اکثر تیل ڈالنے والے مرد اور عورتیں میری کار پلیٹ دیکھ کر مسکراتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں۔ WHO IS A HUMANIST؟
ایسے موقع پر میں یہ تو کہنے سے رہا کہ آئیں آپ کو چائے پلائیں اور دوگھنٹے اس موضوع پر تبادلہِ خیال کریں کہ ہیومنسٹ کون ہوتا ہے۔ چونکہ میں ان کو ایک جملے میں جواب دینا چاہتا ہوں اس لیے کہتا ہوں
FOR HUMANISTS HUMAN BEINGS ARE MORE IMPORTANT THAN GOD AND RELIGIONS
ایک وہ دور تھا جب انسانیت کی خدمت کرنے والے مذہبی لوگ اور رہنما ہوا کرتے تھے جنہیں ہم RELIGIOUS HUMANISTS کہہ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ انسانیت کی خدمت کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ انسانوں کی خدمت سے ان کا خدا خوش ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ کہتے تھے
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
لیکن پھر ساری دنیا میں جدید سائنس ’فلسفے‘ طب اور نفسیات کے ماہرین کی تعلیمات اتنی مقبول ہوئیں کہ دنیا میں ایک سیکولر فضا پیدا ہوئی اور لوگ روایتی مذہب اور خدا سے دور ہوتے چلے گئے۔ وہ سائنسدان اور محققین جنہوں نے ساری دنیا میں ایک سیکولر انسان دوستی کے فلسفے کی بنیادیں ڈالیں ان میں چارلز ڈارون جیسے ماہرینِ بشریات ’سگمنڈ فرائڈ جیسے ماہرینِ نفسیات‘ کارل مارکس جیسے ماہرینِ سماجیات ’برٹنڈرسل جیسے ماہرینِ ریاضیات‘ ژاں پال سارتر جیسے فلسفی اور سٹیون ہاکنگ جیسے ماہرینِ افلاکیات شامل ہیں۔
ان دانشوروں نے یہ موقف پیش کیا کہ انسان دوستی مذہب کے بغیر بھی ہو سکتی ہے چنانچہ انسان دوستی کی اس روایتی نے جنم لیا جس کاخدا اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے لوگ اب SECULAR HUMANISTS کہلاتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں ساری دنیا کے مختلف ممالک اور معاشروں میں خدا کو ماننے والے اور خدا کو نہ ماننے والے آپس میں ٹکراتے ہیں اور ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہو جاتے ہیں۔ وہ غصہ نفرت تلخی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے سے دشنام طرازی کرتے ہیں۔ دہریے مذہبی لوگوں کو طالبان کہتے ہیں اور مذہبی لوگ دہریوں کو لبرل فاشسٹ جیسے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر مذہبی اور غیر مذہبی فتوے لگاتے رہتے ہیں۔
میری نگاہ میں انسان دوست وہ لوگ ہیں جو دوسرے انسانوں کا احترام کرتے ہیں اور غصہ نفرت اور تلخی کی بجائے محبت پیار اور خلوص سے اپنا نقطہَ نظر پیش کرتے ہیں۔ میرا موقف یہ ہے کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ لوگ میرے فلسفہِ حیات کا احترام کریں تو مجھے بھی ان کے فلسفہِ حیات کا احترام کرنا چاہیے چاہے میں اس سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کرتا ہوں۔
کینیڈا کے ہیومنسٹوں نے جب مجھے HUMANIST OF THE YEAR کا ایوارڈ دیا تو میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک تقریر کی۔ اس تقریر کے بعد ایک خاتون میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں میرا شوہر ایک دہریہ ہے لیکن بنیاد پرست اور شدت پسند پادریوں کی طرح ہر وقت غصے میں دوستوں اور رشتہ داروں سے نظریاتی جنگ لڑنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ آپ اس سے بہت مختلف ہیں۔ پھر اس نے ایک جملہ کہا جو اتنے برس گزرنے کے بعد بھی مجھے یاد ہے۔ کہنے لگیں
YOU ARE NOT AN ANGRY ATHEIST YOU ARE A LOVING HUMANIST
میرے دوستوں کے حلقے میں مذہبی لوگ بھی شامل ہیں اور لامذہبی بھی۔ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ اختلاف الرائے کے باوجود ایک دوسرے کو پیار اور اپنائیت سے گلے لگاتے ہیں۔ میں نے کبھی کوشش نہیں کی کہ میں انہیں دہریہ بناؤں اور وہ بھی مجھے مذہبی انسان بنانے کی تبلیغ نہیں کرتے۔ ہم ایک دوسرے کی پسندیدہ کتابیں پڑھتے ہیں اور ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
میں ہر اس انسان کی عزت کرتا ہوں جو انسانیت کی خدمت کرتا ہے اسی لیے میں ہندوستان کی مدر ٹریسا ’امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ‘ جنوبی افریقہ کے ڈزمنڈ ٹوٹو اور پاکستان کے عبدالستار ایدھی کی عزت کرتا ہوں اور انہیں
RELIGIOUS HUMANISTS کہتا ہوں۔ میرے بعض دہریہ دوست ان کے مذہبی نظریات اور اعتقادات کی وجہ سے انہیں خدا پرست کہتے ہیں ہیومنسٹ نہیں مانتے بلکہ ان کے فلاحی کاموں کی وجہ سے انہیں HUMANITARIAN کا نام دیتے ہیں۔
میں جس طرح مذہبی انسان دوستوں کی عزت کرتا ہوں ویسے ہی میں چالرز ڈارون ’سگمنڈ فرائڈ‘ کارل مارکس ’برٹنڈرسل رسل‘ ژاں پال سارتر اور سٹیون ہاکنگ جیسے سیکولر انسان دوستوں اور سائنسی دانشوروں کی عزت کرتا ہوں اور انہیں SECULAR HUMANISTS کہتا ہوں۔
میں ان سب دانشوروں کے نظریات کے اختلاف کی بجائے ان کی انسانیت کی خدمت پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کرتا ہوں۔ میری نگاہ میں اگر آپ انسانیت کی خدمت کرتے ہیں تو آپ ایک انسان دوست ہیں چاہے آپ کا کسی بھی مذہبی ’روحانی‘ سیکولر یا سائنسی روایت سے تعلق ہو۔
میری نگاہ میں انسانیت کی خدمت کرنے کے لیے کسی خدا اور مذہب کا پیروکار ہونا ضروری نہیں۔ میں ایک دہریہ ہوں لیکن انسانیت کی خدمت سیکولر عبادت سمجھ کر کرتا ہوں اسی لیے اپنے آپ کو انسان دوست سمجھتا ہوں اور تمام انسان دوستوں کا تہہِ دل سے احترام کرتا ہوں۔ میرا یہ موقف ہے کہ ہم سب اپنے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کے مستقبل کے لیے ایک دوسرے سے مل کر کام کر سکتے ہیں اور کرہِ ارض پر ایک پرامن معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔