برطانیہ میں تعلقات سے متعلق فلاحی ادارے ریلیٹ نے ایسے افراد کو مدد کی پیشکش کی جو سیکس کی لت کا شکار تھے، دو افراد نے اپنی زندگی پر اس کے اثرات کے بارے میں بات کی۔
’اس کی بدترین حالت کے دوران دن میں پانچ مرتبہ سیکس بھی ناکافی تھا۔‘ تین بچوں کی ماں ربیکا بیکر کا کہنا تھا کہ وہ 2014 میں اس حالت کا شکار ہوئیں اور ان کے تعلقات خراب ہو گئے۔ ان کی اس عادت کے باعث وہ اپنے پارٹنر سے بار بار سیکس کرنے کے لیے کہتیں۔ 37 سالہ ربیکا کا کہنا تھا ’جاگنے کے بعد یہ پہلی چیز ہوتی جس کے بارے میں میں سوچتی تھی۔‘
’مجھے ایسا لگتا تھا ہر چیز مجھے اسی کی یاد دلاتی ہے۔ مجھے لگتا تھا شاید یہ میرے ڈپریشن سے منسلک ہے۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرا پورا جسم اس کے لیے بھوکا ہے۔‘ ’اس سے مجھے فوری تسکین ملتی لیکن پانچ منٹ بعد ہی مجھے یہ دوبارہ چاہیے ہوتا۔‘
’میں گوشہ نشین ہو گئی، میں گھر میں ہی رہنے لگی کیونکہ مجھے شرمندگی ہوتی کیونکہ میں اسی کے بارے میں سوچتی رہتی۔ حالانکہ کوئی میرا ذہن نہیں پڑھ سکتا لیکن پھر بھی مجھے بے چینی محسوس ہوتی۔‘ ربیکا کی لت نے ان کے تعلقات کو کافی نقصان پہنچایا۔ اگرچہ ان کے ساتھی نے شروع شروع میں اس توجہ کا کافی لطف لیا تاہم رفتہ رفتہ یہ ان کے لیے بے چینی کا باعث بن گیا۔
’شروع شروع میں وہ ٹھیک تھا لیکن پھر اسے سمجھنے سے قاصر تھا۔ کچھ ماہ بعد اس نے سوال اٹھانا شروع کر دیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘ اس نے مجھ پر افیئر چلانے کا الزام لگایا۔ اسے لگتا تھا شاید میں اب پچھتا رہی ہوں اس لیے اس کے ساتھ سیکس کرنا چاہتی ہوں۔‘ 2014 میں ربیکا نے اس تعلق میں توقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی ماں کے پاس رہنے چلی گئیں۔ ’میں نے جانے سے پہلے اپنے ساتھی سے کہا کہ مجھے وقفہ چاہیے۔ اس نے مجھے جانے دیا لیکن اس کے فوراً بعد یہ تعلق ٹوٹ گیا۔‘
’میں اس وقت اپنا علاج کروا رہی تھی لیکن میرے معالج نے بارہا میری دوا تو تبدیل کی لیکن یہ نہیں بتایا کہ کچھ گروہ ہیں جو اس معاملے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔‘ سنہ 2012 میں تیسرے بچے کے بعد ربیکا کے ڈپریشن کی تشخیص ہوئی تھی جو سنہ 2014 میں ان کی ملازمت کی تبدیلی اور علیحدگی کے بعد شدید تر ہوگئی۔‘ ان کا کہنا تھا ’میں نے ڈپریشن اور اپنی لت پر قابو پانے کے لیے اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی کی۔ جس نے کام بھی کیا۔‘
فلاحی تنظیم ریلیٹ کے مطابق جنسی عمل کی لت ایسے ہی ہے جیسے کوئی بھی اختیار سے باہر جنسی عمل ہوتا ہے اور امکان ہے کہ عالمی ادارۂ صحت ’جنسی رویے کی بے قاعدگی‘ کی اس کیفیت کو سنہ 2019 کی بیماریوں کی درجہ بندی کی فہرست میں شامل کرے گا۔
گراہم جن کی شناخت تبدیل کی گئی ہے کا کہنا تھا کہ اس لت کی وجہ سے انھوں نے اپنی بیوی سے دھوکا کرتے ہوئے درجنوں سیکس ورکز کے ساتھ تعلقات قائم کیے جس کا انھیں شدید پچھتاوا ہے۔
انھوں نے بتایا ’جب آپ کسی لت کا شکار ہوتے ہیں تو جاگنے سے لے کر دوبارہ سونے تک آپ پر صرف اسی کے بارے میں سوچتے رہنے کی دھن سوار رہتی ہے۔ `
’یہ خوفناک اور کریہہ تجربہ تھا کہ دنیا میں سیکس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں رہی تھی۔ جب آپ جاگیں تو تکلیف میں ہوں۔ یہ قطعی سیکسی نہیں ہے۔‘
’یہ نقصان دہ ہے اور زندگی کے لیے تباہ کن۔‘
گراہم جن کی عمر 60 برس سے زائد ہے کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہر ماہ سینکڑوں پاؤنڈ سیکس ورکرز پر خرچ کیے۔
’کام کی جگہ پر ایک افیئر سے شروع ہونے والا کام میرے لیے روز کا نشہ بن گیا۔‘
’آپ ایک تعلق بناتے ہیں اور پھر آپ کو دوسرا اور تیسرا چاہیے ہوتا ہے۔
’جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ اپنی اس لت کو پورا کرنے کا تیز ترین طریقہ یہ رقم ادا کر کے حاصل کرنا تھا۔ میں ہفتے میں تین یا چار مرتبہ سیکس ورکرز کے پاس جاتا۔‘
وہ کہتے ہیں: ’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کو شراب کی لت لگ جائے۔ آپ اس کے بارے سوچ کر ہی بے خود ہونے لگتے ہیں یہ کیسے ہوگا۔ اور آپ اس پر اپنے منصوبے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔‘
’ لیکن یہ کرنے کے بعد آپ نادم محسوس ہوتے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ایسا پھر کبھی نہیں کریں گے۔‘
شرمندگی سے وقار تک کا سفر
گراہم نے اپنی اس ہولناک دوہری زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جب ان کے اہلیہ نے ان کی ایک ای میل دیکھ لی اور ان سے سوال کیا۔
انھوں نے جنسی لت میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنے والے گروہ رابطہ کیا۔
’جب مجھے اس بارے میں پتا چلا تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اب کچھ تبدیل ہوگا۔ میں اسے شرمندگی سے وقار کی طرف جانا کہتا ہوں۔‘
’جب میں ان سے ملنے جاتا تو تھوڑا بہتر محسوس کرتا کہ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو ایسی ہی پریشانی کا شکار ہیں جیسے آپ ہیں۔
’وہ لوگ جو اس مسئلے سے دوچار ہیں میں انھیں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ اس سے باہر نکلنے کا راستہ موجود ہے آپ اس چکر کو توڑ سکتے ہیں۔‘
سیکس کی لت کا علاج کرنے والے ادارے اے ٹی ایس اے سی کا کہنا ہے کہ سیکس کی لت ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس مدد کے لیے آنے والے افراد کی تعداد گذشتہ پانچ سال میں دوگنی ہو کر 170 ہو گئی ہے جن میں اکثریت مردو کی ہے۔
سنہ 2013 میں سیکس کی لت کے حوالے سے ایک 21058 افراد نے ایک سوال نامہ پُر کیا۔ جس کے مطابق مدد کے خواہشمند 91 فیصد افراد مرد تھے۔
ان میں عمر کے تناسب سے سب سے بڑا گروہ 26 سے 35 سال کے لوگوں کا تھا جن کی تعداد 31 فیصد تھی جبکہ 16 سال سے کم عمر یا 55 سال سے زائد عمر کے افراد آٹھ فیصد تھے۔
اے ٹی ایس اے سی کی شریک بانی پاؤلا ہال کہتی ہے کہ ’ہم لوگوں کو انفرادی علاج فراہم کرتے ہیں اور بحالی کے اجتماعی پروگرامز میں شامل کرتے ہیں۔‘
ریلیٹ سے تعلق رکھنے والے پیٹر سیڈنگٹن کا کہنا تھا کہ ’لت کا شکار افراد جانتے ہیں کہ یہ نقصان دہ ہے لیکن وہ اسے کرنے سے خود کو روک نہیں پاتے انھیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اسے بدلنے کے لیے انھیں مدد کی ضرورت ہے۔ ‘
’بہتر ہو گا کے یہ لوگ معالج کے پاس جائیں اور مدد حاصل کریں۔ یہ ان کے تعلقات، خاندان، معاشی حالات کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی صحت کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔`