تاریخ کی کتابوں میں کئی حیرت انگیز واقعات درج ہیں اور ان میں افریقی ملک انگولا کی ملکہ اینجنگا ایمباندی بھی ہیں جو ایک ہوشیار اور بہادر جنگجو کے طور پر نظر آتی ہیں۔ انھوں نے 17 ویں صدی میں افریقہ میں یورپی استعماریت کے خلاف جنگ کا طبل بجایا تھا لیکن بعض تاریخ نویس انھیں ظالم خاتون کے طور پر بیان کرتے ہیں جنھوں نے اقتدار کے لیے اپنے بھائی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اتنا ہی نہیں ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے حرم میں رہنے والے مردوں کے ساتھ ایک بار جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد انھیں زندہ نذر آتش کروا دیا کرتی تھیں۔ تاہم تاریخ دانوں میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ افریقہ کی سب سے مقبول خواتین میں سے ایک تھیں۔
ملکہ یا اینگولا
ایمباندو قبیلے کی رہنما اینجنگا جنوب مغربی افریقی علاقے اینڈونگو اور متامبا کی ملکہ تھیں۔ لیکن مقامی زبان میں کمباندو میں اینڈونگو کو انگولا کہا جاتا تھا اور اسی نام سے پرتگالی اس علاقے کا ذکر کرتے تھے۔ اور بالآخر اس علاقے کو دنیا بھر انگولا کے نام سے ہی جانا گیا۔ اس علاقے کو یہ نام اس وقت دیا گیا جب پرتگال کے فوجیوں نے سونے اور چاندی کی تلاش میں اینڈونگو پر حملہ کر دیا۔ لیکن جب انھیں سونے اور چاندی کی کانیں نہیں ملیں تو انھوں نے اپنی نئی کالونی برازیل میں یہاں سے مزدور بھیجنے شروع کر دیے۔
اینجنگا پرتگالی حملے کے آٹھ سال بعد پیدا ہوئیں اور انھوں نے اپنے والد بادشاہ ایمباندی کیلنجی کے ساتھ بچپن سے ہی حملہ آوروں کے خلاف جدوجہد میں شرکت کی۔ سنہ 1617 میں بادشاہ ایمباندی کی موت کے بعد ان کے بیٹے اینگولا ایمباندی نے حکومت سنبھالی لیکن ان میں نہ اپنے والد کا کرشمہ تھا اور نہ ہی اپنی بہن جیسی ہوشیاری۔
اینگولا ایمباندی کو یہ ڈر ستانے لگا کہ ان کے وفادار ہی ان کے خلاف اور ان کی بہن کے حق میں سازش کر رہے ہیں۔ اور اسی خوف کے سبب اینگولا ایمباندی نے اینجنگا کے بیٹے کو سزائے موت سنا دی۔ لیکن جب نئے بادشاہ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ یورپی حملہ آوروں کا سامنا کرنے میں ناکام ہیں اور یورپی فوج رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہی ہے اور بہت زیادہ جانی نقصان ہو رہا ہے تو ایسے میں انھوں نے اپنے ایک معتمد کا مشورہ مانتے ہوئے اپنی بہن کے ساتھ اقتدار کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔
پرتگالی مشنریوں سے پرتگالی زبان سیکھنے والی اینجنگا بہت ہی با صلاحیت اور جنگی حمکت عملی بنانے والی خاتون تھیں۔ اس صورت حال میں جب وہ مذاکرات کے لیے لوانڈا پہنچیں تو انھوں نے وہاں کالے گورے اور مختلف قبائلیوں کو دیکھا۔ اینجنگا نے ایسا منظر پہلی بار دیکھا تھا تاہم وہ ایک دوسری چیز دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں۔ انھوں نے دیکھا کہ غلاموں کو قطار در قطار بڑے بڑے جہازوں پر لے جایا جا رہا تھا اور چند ہی سالوں میں لوانڈا افریقہ میں غلاموں کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔
لیکن جب وہ پرتگالی گورنر جواؤ كوریے ڈے سوؤسا کے ساتھ امن مذاکرات کرنے ان دفتر پہنچیں تو ان کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کا ذکر مورخين نے تفصیل سے کیا ہے۔ وہ جب وہاں پہنچیں تو انھوں نے دیکھا کہ پرتگالی اہلکار تو آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے تھے جبکہ ان کے لیے زمین پر بیٹھنے کے انتظامات کیے گئے تھے۔ اس سلوک پر اینجنگا نے ایک لفظ نہیں کہا جبکہ ان کے اشارے پر ان کا ایک ملازم کرسی بن کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ پھر وہ اس ملازم کی پیٹھ پر بیٹھ گئیں اور اس طرح وہ پرتگالی گورنر کے رو برو ان کے برابر پہنچ گئیں۔ اینجنگا نے اس طرح یہ واضح کر دیا کہ وہ مساوی بنیادوں پر مذاکرات کرنے کے لیے آئی ہیں۔
مذاکرات کے طویل دور کے بعد طرفین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پرتگالی فوج اینڈینگو سے نکل جائے گی اور ان کی حاکمیت قبول کرے گی۔ اور اس کے بدلے میں اینجنگا نے اس علاقے کے کاروباری راستے کی تعمیر کے لیے رضامندی دی۔ پرتگال کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے اینجنگا نے مسیحی مذہب اختیار کیا اور اپنا نیا نام اینا ڈی سوزا اختیار کیا۔ اس وقت ان کی عمر 40 سال تھی۔ لیکن دونوں کے درمیان تعلقات زیادہ دنوں تک بہتر نہیں رہے اور پھر نئی جنگ شروع ہو گئی۔
سنہ 1624 میں ان کے بھائی ایک چھوٹے سے جزیرے پر رہنے لگے جہاں ان کی موت واقع ہو گئی جس کے متعلق مختلف قسم کی کہانیاں رائج ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اینجنگا نے اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے اپنے بھائی کو زہر دیا۔ جبکہ بعض دوسرے ان کی موت کو خود کشی قرار دیتے ہیں۔
لیکن ان سب قیاس آرائیوں کے درمیان میں اینجنگا ایمباندے نے پرتگاليوں اور چند اپنے لوگوں کی جانب سے کھڑے ہونے والے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ایندونگو کی پہلی ملکہ بننے کا افتخار حاصل کیا۔
انگولا کی نیشنل لائبریری کے ڈائریکٹر جاؤ پیڈرو لارینکو کا کہنا ہے کہ ‘افریقہ میں قدیم زمانے سے جاری خواتین کے استحصال کے خلاف اینجنگا ایمباندے ایک بلند آواز کی طرح ہیں۔’ ‘انھی کی طرح کئی دوسری شخصیات ہیں جو ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ افریقہ میں اقتدار کے ڈھانچے میں فٹ نہ ہونے کے باوجود ان خواتین نے اس براعظم کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔’
بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ایک ملکہ کی حیثیت سے اینجنگا کا انداز ظالمانہ تھا۔ مثال کے طور پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ان کا ریاست کی سرحد پر رہنے والے امبانگالا جنگجوؤں کی مدد حاصل کرنا تاکہ وہ اپنے حریفوں کو خوفزدہ کر سکیں۔ کئی سالوں تک اپنی سلطنت پر حکومت کرنے کے بعد انھوں نے اپنی پڑوسی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی سلطنت کی سرحدوں کو بخوبی محفوظ کیا۔
برازیل کے پرتگالی مصنف جوز ایڈوارڈو اگوالوسا کہتے ہیں کہ ملکہ اینجنگا میدان جنگ میں صرف ایک عظیم جنگجو نہیں بلکہ ایک عظیم حکمت عملی بنانے والی اور سیاست داں تھیں۔ انھوں نے پرتگالیوں کے خلاف جنگ کی اور دوسری طرح ڈچ کے ساتھ دوستی کی۔ اور جب ان کی پڑوسی سلطنتوں سے جنگ ہوتی تھی تو وہ پرتگالیوں سے مدد حاصل کرتی تھیں۔
جنسی غلام کے متعلق کہانی
فرانسیسی فلسفی مارکیز ڈی سیڈ نے اطالوی مشنری جیوانی کاویز کی کہانیوں پر مبنی ایک کتاب ‘دا فلاسفی آف دا ڈریسنگ ٹیبل’ تصنیف کی ہے۔ کاویز کی کہانیوں میں یہ کہا گیا ہے اینجنگا اپنے عاشقوں کے ساتھ سیکس کرنے کے بعد انھیں جلاکر مار دیتی تھیں۔ ملکہ اینجنگا کے حرم کو ‘چبدوس’ کہا جاتا تھا اور اس میں رہنے والے مردوں کو خواتین کے کپڑے پہنائے جاتے تھے۔
اتنا ہی نہیں جب ملکہ کو اپنے حرم میں موجود کسی مرد کے ساتھ سیکس کرنا ہوتا تھا تو اس کے لیے حرم کے لڑکے مرتے دم تک آپس میں لڑتے اور پھر ان میں جو فاتح ہوتا اس کے ساتھ ملکہ ہم بستری کرتی۔ تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ جیتنے والے کے ساتھ زیادہ خطرناک سلوک ہوتا تھا۔ دراصل ان کے ساتھ سیکس کے بعد انھیں جلا کر مار ڈالا جاتا تھا۔
اس بارے میں دوسرا خیال یہ ہے کہ کاویز کی کہانیاں دوسرے لوگوں کے دعووں پر مبنی ہیں جبکہ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس کے مختلف ورژن موجود ہیں۔