مغربی ممالک میں بے حیائی کا کلچر یوں تو ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے مگر یورپی ملک سوٹزرلینڈ نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا اور واحد ملک ہے جہاں خود حکومت نے سرکاری خرچے پر ’سیکس بُوتھ‘ قائم رکھے ہیں جن میں جسم فروش خواتین اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے ہر وقت موجود ہوتی ہیں۔
میل آن لائن کے مطابق زیورخ شہر کی انتظامیہ سیکس بوتھ کے آئیڈیا کو بہت کامیاب سمجھتی ہے اور اسے شہریوں کے لئے بڑی سہولت قرار دیتی ہے۔ شہریوں کی رائے بھی کچھ خاص مختلف نہیں۔ شہر میں جب ایک سروے کیا گیا تو 52 فیصد لوگوں نے ’سیکس بُوتھ‘ کے حق میں ووٹ دیا اور انہیں قائم رکھنے کی خواہش ظاہر کی۔
یہ ’سیکس بُوتھ‘ بظاہر ایک گیراج جیسے نظر آتے ہیں اور دیکھنے میں یوں لگتا ہے کہ گویا ان کے اندر گاڑیاں پارک کی گئی ہیں لیکن دراصل یہ بُرائی کے دھندے کے اڈے ہیں۔ یہ شہر میں جگہ جگہ واقع ہیں اور حکومت انہیں چلانے کیلئے 20 لاکھ ڈالر (تقریباً 24 کروڑ پاکستانی روپے) سالانہ خرچ کررہی ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں جسم فروشی 1940ءکی دہائی سے قانونی قرار دی جاچکی ہے اور یورپ کے متعدد دیگر ممالک کے برعکس یہاں جسم فروش خواتین یا ان کے کسٹمرز کو کسی طرح کی پابندی یا قانونی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ سیکس بوتھ قائم کئے جانے سے پہلے جسم فروش خواتین کی اکثریت مرکزی شاہراہوں اور دریا کنارے بنائے گئے تفریحی مقامات کا رُخ کرتی تھی لیکن اب ان کی بڑی تعداد سرکاری سیکس بُوتھوں کے آس پاس منڈلاتی دکھائی دیتی ہے۔
حکومت کا مﺅقف ہے کہ سیکس بوتھ کے قیام سے جسم فروشی کے دھندے کے لئے انسانی سمگلنگ اور جسم فروش خواتین پر حملوں جیسے واقعات میں کمی آگئی ہے۔ سیکس بوتھ پر کام کرنے والی جسم فروش خواتین کے باقاعدگی سے میڈیکل ٹیسٹ کئے جاتے ہیں، انہیں سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے اور وہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں بھاری رقم بھی دیتی ہیں، لہٰذا حکومت اس کام کو اپنی نگرانی میں جاری رکھنے پر بہت خوش ہے۔