چند روز قبل انٹرنیٹ پر ایک بچے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ بڑے غصے سے کسی سے اپنا اسکول بیگ مانگ رہا تھا۔ سوشل میڈیا کے صارفین اس ویڈیو سے خوب لطف اندوز ہوئے بعد ازاں احمد نامی وہ بچہ مارننگ شوز کا حصہ بنا۔ جب لوگوں کا اس بچے سے مکمل تعارف ہوا تو کچھ حضرات نے اسے معصوم جبکہ کچھ نے اسے بدتمیز گرداننا، حالانکہ تین سالہ بچے کو کیا پتہ تمیز کیا ہے اور بدتمیزی کسے کہتے ہیں۔ وہ تو کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہیں۔
انہیں جو بات سکھائی یا سمجھائی جائے وہ فوری نوٹ کرلیتے ہیں۔ بچوں کو توجہ کی طلب زیادہ ہوتی ہے۔ احمد نامی اس بچے نے دیکھا لوگ اسے کے غصے کی وجہ سے اسے توجہ دے رہے ہیں۔ اس کی باتوں پر ہنسا جا رہا ہے۔ اسے پیار کیا جا رہا ہے لہذا اس نے وہی کیا جو لوگوں نے چاہا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچہ بدتمیز نہیں ہے بلکہ اسے بدتمیز بنایا جا رہا ہے۔
ہر بچے کی پہلی شناخت اور درسگاہ اس کی ماں ہوتی ہے۔ ماں کا اپنے بچے سے تعلق بہترین دوست اور رہنما جیسا ہوتا ہے دوسری جانب والد کا کردار بھی اولاد کی شخصیت سازی میں بہت اہم ہوتا ہے اسی لئے ہر بچے کا پہلا ہیرو اس کا باپ ہوتا ہے جبکہ پہلی محبت اس کی ماں۔ والدین کے بعد بچوں بہتر ذہین سازی میں اساتذہ کی محنت کار فرما ہوتی ہے۔ ان تین شخصیات کی تربیت بدولت ہی معصوم ذہین پروان چڑھتا ہے۔ دور جدید کے بچے زمانے کے اعتبار سے بہت ماڈرن ہیں۔ انٹرنیٹ کے بدولت ان کے پاس مصروفیت اور تفریح کا خزانہ تو ہے تاہم تیز رفتار زندگی کے باعث وہ والدین کی عدم توجہ کا شکار بھی ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان میں چڑچڑا پن آگیا ہے۔
انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گی کہ آج کل کے والدین نے اپنی آدھی ذمے داری انٹرنیٹ پر ڈال دی ہے چھوٹے چھوٹے ذہینوں کو سیل فونز اور آئی پیڈز کے حوالے کردیا ہے۔ یہ ہی وجہ معاشرے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ کمسنوں کے ساتھ زیادتی یال پھر جرائم میں نوعمروں کا ملوث ہونا کسی حد تک والدین کی کوتاہی کا خمیازہ ہے۔ گیارہ سے انیس سال کی عمر کو شباب جوانی کہا جاتا ہے۔ یہ بچوں کی زندگی کا بہت اہم دور ہوتا ہے۔
اس عمر کے بچوں کے والدین کو دانش مندی سے کام لینا چاہیے اس عمر کے بچوں کے لئے بے جا روک ٹوک اور کھلی چھوٹ دونوں ہی نقصان دہ ہیں۔ یہ عوامل بچوں کی شخصیت کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ منفی روائیوں کے سبب ان عمروں کے بچوں کی زندگی تباہ بھی ہوجاتی ہے۔ گیارہ سے انیس سال کی عمر کے بچے جذباتی عدم استقامت کا شکار ہوتے ہیں۔ اسی دوران ان میں جسمانی اور ذہنی نشوونما کے اثرات بھی تیزی سے متحرک ہوتے نظر آرہے ہوتے ہیں۔
اسی سبب ان عمروں میں ہی ذہین و دل جنس مخالف کی کشش میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ عمر بے راروی اور بغاوت کی جانب بھی اکساتی ہے۔ اسی خطرناک عمر میں کھلی آنکھوں سے خواب دیکھے جاتے ہیں اور ہر چمکنے والی چیز سونا لگتی ہے۔ عمر کے اس اسٹیج پر والدین کے بعد اساتذہ کو بچوں کے زیادہ قریب ہونا چاہیے کیونکہ والدین کی طرح استاتذہ طلبہ کی شخصیت و ذہین سازی میں معاون کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ اپنے طرزعمل کے ذریعے اس عمر کے بچوں کے ذہنی رویوں کو مدنظر رکھ کر ان سے دوستی کریں تاکہ وہ اپنے دل کی باتیں آپ سے شئیر کریں۔
یاد رکھیں آپ کی ذرا سی غفلت و لاپرواہی بڑھتی عمر کے بچوں میں غصہ، چڑچڑاپن، شدت پسندی کی جانب گامزن کرتی ہے۔ جس کے نتائج بھیانک ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ اپنے بچوں کو انٹرنیٹ یا دور جدید کے دیگر تقاضوں سے دور کردیں، بس ان کی ایکٹیوٹیز پر شفقت بھری نظر رکھیں۔ ٹین ایجز سختی یا پابندی کے باعث باغی ہوجاتے ہیں لہذا والدین اور اساتذہ کو معاملہ فہمی سے کام لے کر بچے کے اس دور کا رہنما بنا چاہیے۔
ہمارے یہاں کے والدین بچوں پر اپنی منشا تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے مستقل کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔ ان کا پروفیشن بھی خود منتخب کرتے ہیں۔ اکثر بچے اپنے والدین کی امیدوں پر پورا نہیں اتر پاتے تو وہ یا تو شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈپریشن سے نجات کے لئے یا تو وہ خودکشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر نشے کی لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ان کے بچے کسی قسم کے ڈپریشن کا شکار نہ ہوں۔
ان کے دوستوں سے بھی گاہے بگاہے ملاقات کریں اور مناسب طریقے سے بے تکلفی کی فضا ہموار کریں تاکہ آپ یہ جان سکے کہ آپ کے بچے کی صحبت کس قسم کی ہے۔ اس طرح آپ کے بچہ کو یہ محسوس نہیں ہوگا کہ آپ اس پر نظر رکھیں ہیں بلکہ وہ مزید آپ کے قریب آئے گا۔ والدین اپنے بچوں سے ان سے ان کی پسند نہ پسند پوچھیں، ان کو رائے دینے کا حق دیں۔ ان کو فیصلہ کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا عادی بنائیں تاکہ ان کی شخصیت کا نکھار سامنے آئے۔ علاوہ ازیں والدین کو آپس کے تعلقات بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ والدین کے درمیان کا خلفشار بھی بڑھتی عمر کے بچوں کو ڈسٹرب کرتا ہے۔