بھگوان کے ساتھ سیکس کے حوالے سے کوئی تنازع نہیں رہا تھا

‘سیکس گرو’ کہے جانے والے بھگوان شری رجنیش کے بارے میں آن لائن پلیٹ فارم نیٹ فلکس نے حال ہی میں ‘وائلڈ وائلڈ کنٹری’ نامی ایک دستاویزی سیریز جاری کی ہے۔ دستاویزی سیریز میں رجنیش کے آشرم کی انڈیا سے امریکہ منتقلی کو پیش کیا گیا ہے۔
امریکہ کی اوریگون ریاست میں 64000 ایکڑ کی وسیع و عریض زمین پر رجنیش کے ہزاروں پیرو کاروں نے آشرم بسایا تھا۔ پھر وہاں پانچ سالوں کے درمیان مقامی آبادی کے ساتھ آشرم کے لوگوں کی کشیدگی، قانونی تنازع، قتل کے واقعات، انتخابی دھوکہ دہی، ہتھیاروں کی سمگلنگ اور زہر دینے کے واقعات سامنے آئے۔
اس دستاویزی سیریز کی مرکزی کردار بھگوان شری رجنیش یا اوشو کی ذاتی سیکریٹری ما آنند شیلا ہیں جنھوں نے بھگوان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ شیلا ان دنوں سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہیں جہاں وہ عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے دو مراکز چلاتی ہیں۔
شیلا اور اوشو
شیلا ان دنوں سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہیں
بی بی سی کی اشلین کور نے سوئٹزرلینڈ میں شیلا سے ملاقات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا شیلا تبدیل ہو گئی ہیں اور کیا انھیں کسی بات پر افسوس ہے اور کیا وہ اپنی زندگی سے خوش ہیں۔ اس پر شیلا نے کہا کہ’ وہ فاتح ہیں جو کہ زندگی میں بہت ہی خوشگوار چیز ہے کیونکہ ہر کوئی خود کو ناکام سمجھتا ہے اور وہ ملکہ کی طرح تھیں۔ انھوں نے 39 ماہ جیل میں گزارے اور یہ کافی ہونا چاہیے۔ ‘
انھوں نے بھگوان شری رجنیش کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بھگوان اپنے لوگوں کو اچھا صلہ دیتے تھے، غور و فِکر اور روشن خیالی۔ شیلا نے بتایا کہ جب بھگوان کے پاس لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے کچھ ہوتا تھا۔ مراقبہ اور روشن خیالی۔ وہ جب بھی معاشی طور پر مدد کرنا چاہتے تو میرا کام قدرے آسان ہو جاتا تھا۔ وہ لوگوں کے سامنے روشن خیالی کی ’گاجر‘ ہلاتے اور انھوں نے کئی لوگوں کو روشن خیال قرار بھی دیا۔
تو وہ فریب یا جھانسا دیتے تھے؟ اس سوال پر شیلا نے کہا کہ اس تناظر میں ہاں لیکن جو لوگ اس فریب کے پیچھے بھاگتے تھے وہ بھی سمجھ دار لوگ تھے اس لیے صرف بھگوان کو قصوروار نہ ٹھہرائیں، عقل مند لوگوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرائیں۔ شیلا کے مطابق ان کی بھگوان کی پوزیشن اور طاقت میں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔
تو آپ کی کس چیز میں دلچسپی تھی؟ اس پر شیلا نے کہا ۔۔۔بھگوان۔۔۔۔ میری محبت ان کے لیے تھی اور اس کے علاوہ دیگر کوئی وجوہات نہیں تھیں اور ہم دونوں کے درمیان سیکس کے حوالے سے کوئی تنازع نہیں رہا تھا۔ میرے اپنے چاہنے والے بہت تھے۔ شیلا اور بھگوان کے درمیان کئی برسوں کے تعلقات میں تلخی آ گئی اور بھگوان نے شیلا پر مختلف جرائم کر سرغنہ ہونے کا الزام عائد کیا۔ شیلا پر فراڈ اور اوریگون میں اقدام قتل کے الزامات عائد کیے گئے۔
جب شیلا سے سوال پوچھا گیا کہ کیوں ایسا ہوا تو اس پر ان کا جواب تھا کہ ’ وہ صرف ایک وجہ کی بنیاد پر اس پر بات نہیں کرنا چاہتی ہیں کہ میں نے 39 ماہ جیل میں گزارے اور یہ کافی ہونے چاہیں اور لوگ مجھے زندگی بھر کے لیے سزا نہیں دے سکتے۔ لیکن لوگوں کی ذہنیت ہے کہ وہ صرف سکینڈلز کے پیچھے جانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی زندگی سکینڈلز سے بھری ہوتی ہے۔‘
اوش
شیلا نے کہا کہ ان کی زندگی کا سب سے افسوسناک لمحہ وہ تھا جب بھگوان نے بہت بری طرح سے اپنا غصہ مجھ پر نکالا
تو کیا ’الزامات‘ کو بھی سکینڈل سمجھتی ہیں؟ اس پر شیلا نے جواب دیا کہ بھگوان نے کافی سکینڈلز کو بنایا اور میرے میں اتنی ہمت ہے کہ اس کے بارے میں کہہ سکتی ہوں، اور یہاں تک کہ انھیں( بھگوان) ان کے منہ پر بھی کہہ سکتی ہوں اور جو کوئی بھی مجھے پر الزام عائد کرتا ہے۔ میں نے کوئی مجرمانہ کام نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ’ آپ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے یقین کامل یا واثق سے یہ کہہ سکتی ہوں اور اسی طرح جیسے مجھے بھگوان پر یقین تھا۔ ‘
شیلا نے کہا کہ ان کی زندگی کا سب سے افسوسناک لمحہ وہ تھا جب بھگوان نے بہت بری طرح سے اپنا غصہ مجھ پر نکالا اور اس کا کوئی منطق نہیں اور آپ میرے سے منطقی جوابات مانگ رہے ہیں۔ جو نہیں ہو سکتا ہے۔‘