تصویر کے کاپی رائٹ GETTY IMAGES اس سے پہلے 2017 میں بھی ایک ایسا ہی کیس سامنے آیا تھا جب ایک سعودی خاتون نے فلپائن کے راستے آسٹریلیا جانے کی کوشش کی تھی۔ ایک نوجوان سعودی خاتون نے کہا ہے کہ ہے وہ اپنے خاندان سے الگ ہو کر آسٹریلیا جانا چاہتی تھیں لیکن تھائی لینڈ کے ایئرپورٹ پر سعودی حکام نے اس کا پاسپورٹ ضبط کر لیا ہے۔ اٹھارہ سالہ رهف محمد القنون نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ کویت گئی تھیں جہاں سے وہ دو دن پہلے اکیلی جہاز پر سوار ہو گئیں۔ وہ بنگکاک سے جہاز لے کر آسٹریلیا جانا چاہتی تھیں۔ سعودی خواتین کو طلاق کا فیصلہ موبائل پر بھیج…
ثنا نقوی وہ دیکھو خاتون گاڑی چلا رہی ہے، یہ جملہ اس وقت سننے کو ملتا تھا جب خواتین ڈرائیورز اکا دکا پائی جاتی تھیں۔ موجودہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خواتین ڈرائیورزکی تعداد تیس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ خواتین جہاں بیشتر معاملات میں خود مختار ہو رہی ہیں وہیں انہوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کے لئے بھی مردوں پر منحصر کرنا چھوڑ دیا ہے اور یہ بات خوش آئند بھی ہے اس نے نا صرف خواتین اپنے کام خود کرنے کے قابل ہوئی ہیں بلکہ مردوں کی مشکلات میں بھی کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ بچوں کو سکول چھوڑنا ہو، شاپنگ کے لیے جان…
آصف جیلانی 1991 میں بے نظیر بھٹو اقتدار سے محروم تھیں۔ تب انہوں نے برصغیر کے حزب مخالف کے رہنماوں کی اسلام آباد میں ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں ہندوستان کے وی پی سنگھ، بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور سری لنکا کی صدر چندریکا کمارتنگا کے حریف بھائی انورا بندارنایکے شریک ہوئے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے اس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا تھا کہ جنوبی ایشیاء کے موروثی حکمرانوں نے عظیم خدمات انجام دی ہیں اور اس علاقہ کے لئے اس میں بہتری ہوگی اگر یہ خاندان دوبارہ بر سر اقتدار آجائیں۔ بلا شبہ بے نظیر بھٹو کے اس خطاب سے خود ستائی عیاں تھی اور اصل مقص…
وسعت اللہ خان رومی شہنشاہیت کے پاس کم از کم کولوسئیم کے ایرینا میں خونخوار جانوروں سے لڑنے والے غلام اور گلیڈی ایٹرز تھے تاکہ عوام کی توجہ فوری مسائل سے ہٹ کر ہفتوں تک جاری کھیل تماشوں میں لگی رہے، مگر ہمارے ہاں نہ تو کولوسئیم ہے، نہ گلیڈی ایٹرز۔ لے دے کے پارلیمانی ایرینا میں از قسم فواد چوہدری، شیخ رشید، فیصل واؤڈا، فیاض الحسن چوہان، مراد سعید، نعیم الحق وغیرہ ہیں۔ مسائل زدہ عوام آخر اور کے روز ان کی گالمانہ گفتگو سے لطف کشید کرتے رہیں؟ یہ قوم ہر سرکاری اجلاس میں خان صاحب کی انقلابی گفتگو اور ہر ہفتے کوئی نہ کوئی تاریخی، مالی، انتظا…
بلال نقیب سعادت حسن منٹو کے موت کے پچاس برس بعد تک اس کی افسانوں کی اشاعت پر باقاعدہ پابندی تو نہیں تھی تاہم اس کی ادبی حیثیت کے بارے میں ریاست اور معاشرے میں واضح مخاصمت موجود تھی۔ اس کوتاہ نظری کے باعث دو نسلیں ادب کے اس بہترین سرمائے سے محروم رہی۔ منٹو کی تحریریں آج بھی زندہ اور موجودہ حالات سے مطابقت رکھتی ہیں۔ بعض واقعات کے رونما ہونے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ منٹو کی تحریروں میں پوشیدہ آگہی اور حکمت ان کا ادراک اور احاطہ بہت قبل کر چکی تھی۔ اس کالم میں منٹو کے چند افسانوں کا ذکر غیر رسمی طور پر موجودہ حالات کے تناظر میں کیا گیا ہے…
Social Plugin