وہ دیکھو خاتون گاڑی چلا رہی ہے، یہ جملہ اس وقت سننے کو ملتا تھا جب خواتین ڈرائیورز اکا دکا پائی جاتی تھیں۔ موجودہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خواتین ڈرائیورزکی تعداد تیس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ خواتین جہاں بیشتر معاملات میں خود مختار ہو رہی ہیں وہیں انہوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کے لئے بھی مردوں پر منحصر کرنا چھوڑ دیا ہے اور یہ بات خوش آئند بھی ہے اس نے نا صرف خواتین اپنے کام خود کرنے کے قابل ہوئی ہیں بلکہ مردوں کی مشکلات میں بھی کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ بچوں کو سکول چھوڑنا ہو، شاپنگ کے لیے جانا ہو یا کسی تقریب میں شرکت کرنی ہو خواتین اپنی مدد آپ کے تحت اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہی ہیں۔ اس کے لیے انہیں گھر کے مردوں کو تکلیف دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
بات کی جائے ٹریفک کی، تو ٹریفک کے حالات تو ہمارے یہاں تقریبا قابو سے باہر ہی ہیں جس میں مجھے لگتا ہے کہ ہماری انتظامیہ سے زیادہ عوام قصور وار ہے۔ سڑک پر نکلنے والا ہردوسراشخص جلد بازی کا شکار ہے اور اسی صورتحال میں خواتین ڈرائیورز کو بے جا ہارن دینا، ڈپر مارنا یا اوور ٹیک کرنا تو ثواب سمجھا جاتا ہے اور اس حرکت کے بعد پاس سے گزرتے ہوئے لکس دینا تو لازم و ملزوم ہے۔
خواتین کو جہاں باقی صلاحیتوں میں کم تر سمجھا جاتا ہے وہیں ڈرائیونگ سر فہرست ہے۔ غلط ڈرائیو ہوتی ہوئی گاڑی کو دور سے دیکھ کر کہا جاتا ہے کہ لازمی یہ گاڑی کوئی خاتون ڈرائیو کر رہی ہو گی۔ یہ جملہ بھی عام فہم ہے کہ ذرا بچ کر، گاڑی خاتون چلا رہی ہے جبکہ ٹریفک پولیس کے مطابق حادثات کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تعداد مردوں کی ہوتی ہے کیوں کہ خواتین محتاط طریقے سے گاڑی چلاتی ہیں اور ٹریفک رولز بھی فالو کرتی ہیں جبکہ مرد ڈرائیورز ایسے بھی ہیں جن کی گاڑی کا سا ئیڈ مرر (شیشہ ) ٹوٹا ہوا ہو تو ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ پچیس سالوں کا تجربہ ہے شیشے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اور شاید یہی تجربہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث وہ خواتین کو جونیٔر ڈرائیور سمجھتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ خواتین اس ڈر سے بھی حادثات سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہیں کیوں کہ ہمارے یہاں کے مائنڈ سیٹ کے مطابق اگر خاتون کسی حادثے کا شکار ہوئی ہے تو اس میں غلطی اسی کی ہی ہو گی کیوں کہ گاڑی چلانا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ جہاں تک بات ہے تنقید کی تو تنقید برائے تنقید تو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ہی مگر بات اب تنقید تک نہیں رہی اب خواتین ڈرائیورز کو بہت دلیری سے باقاعدہ ہراساں کیا جاتا ہے۔
ایک کولیگ کا بتانا تھا کہ وہ آفس سے گھر جا رہی تھیں کہ موٹر سائیکل سوار دو نوجوانوں نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا جب انہیں اس بات کا علم ہوا تو گھبراہٹ میں کئی راستے بھی بدلے مگر وہ تھے کہ پیچھا کیے جا رہے تھے انہیں اس وقت حل یہی نظر آیا کہ وہ کسی محفوظ جگہ گا ڑی پارک کر کے کسی مارکیٹ میں رک گیٔں اور اس طرح جان چھڑوائی۔ ا نہوں نے فل وقت تو سمجھداری سے بغیر کسے نقصان کے ایسی صورتحال کا مقابلہ کر لیا مگر ایسے واقعات کے بعد کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے ڈر سے خواتین دوران ڈرائیونگ بھی ذہنی کوفت کا شکار رہتی ہیں اور حادثات کا شکار ہو سکتی ہیں۔
ا سی حوالے سے فیس بک پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں ایک خاتون کا کہنا تھا کہ وہ خود گاڑی چلاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ کہیں جا رہی تھیں کہ راستے میں ایک گاڑی جس میں کچھ نوجوان سوار تھے انہوں نے آوازیں کسی اور تنگ کرنا شروع کر دیا اگر وہ اپنی گاڑی کی رفتار کم کرتیں تو نوجوان بھی کم کرلیتے اور اگر وہ تیزی سے گزرنے کی کوشش کرتیں تو گاڑی آگے کر کے راستہ تنگ کر دیتے اسی چکر میں وہ اس قدر ڈسٹرب ہوئیں کہ گاڑی فٹ پاتھ سے ٹکرا گئی، اس قسم کی ہراسمنٹ ڈرائیور خواتین کے لیے جانی نقصان کا سبب بھی بن سکتی ہے مگر ہمارے یہاں نا تو اس ذہنیت کو بدلنے کے لیے کو ئی تیار نظر آتا ہے اور بات کریں انتظامیہ کی تو سفر کے دوران کسی بھی مدد کے لئے بنائی گئی ہیلپ لائنز تک آسان رسائی اور برقت یا مثبت رسپانس نا ہونے کے باعث خواتین ڈرائیونگ کے دوران پیش آنے والے ایسے واقعات کو رپورٹ ہی نہیں کر سکتیں۔
اس حوالے سے کوئی خاص قانون سازی کر کے اورانتظامیہ تک جلد رسائی ممکن بنا کر ایسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔ سگنل توڑنا، غلط لین میں گاڑی چلانا، ہیلمٹ کا استعمال نا کرنے کے ساتھ ساتھ دوران ڈارئیونگ دوسروں کے ساتھ غلط رویے اور خاص طور پر خواتین کو ہراساں کرنے کو بھی ٹریفک رولز کی خلاف ورزی قرار دینا چاہیٔے اور اس اس کی خاص سزا اور جرمانہ تجویز کرنا چاہیٔے۔
نوٹ : خواتین کو شیشوں پر کالے پیپر یا شیڈز لگا کر گاڑی چلانے کا مشورہ دینے سے گریز کریں کیوں کہ یہ غیر قانونی ہے۔
نوٹ : خواتین کو شیشوں پر کالے پیپر یا شیڈز لگا کر گاڑی چلانے کا مشورہ دینے سے گریز کریں کیوں کہ یہ غیر قانونی ہے۔