گند منٹو اور میرے ذہن کا -



میرے ایک بہت اچھے دوست ہوا کرتے تھے، سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا۔ روز کا ساتھ تھا اورروح کا تعلق تھا، اس لیے آج بھی وہ ہر وقت میرے دماغ میں رہتے ہیں۔ ان کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہوں، اور ان کی روح سے کبھی کبھار دل کی باتیں کر لیتی ہوں۔ آج جب میڈیا میں چاہے پاکستانی ہو یا کینیڈا کا، ہر طرف جنسی سیکنڈل اور جنسی زیادتیوں کی خبریں پڑھ رہی ہوں تو دل کر رہا ہے اپنے اس دوست سے پو چھوں بتاؤ جو تم کہتے تھے کہ گندا معاشرہ نہیں بلکہ گند منٹو کے ذہن میں تھا اور تم منٹو پڑھ پڑھ کر اتنا ہی گندا سوچتی ہو؟
کاش! گند صرف منٹو اور میرے ذہنوں میں ہو تا تو آج زینب پارکوں میں تتلیوں کے پیچھے زندہ سلامت بھاگ رہی ہوتی، اس کے قہقے فضاؤں کا حصہ ہو تے اور وہ کچرا کنڈی جس سے سبز آنکھوں والی پری کی زیادتی کے بعد لاش ملی ہے، اس کا کہیں وجود نہ ہوتا بلکہ وہاں ایک پتنگ ہوتی، جس پر بیٹھ کر زینب، کثافت سے پاک ہواؤں میں اڑتی، اور اسے جھولا دینے والے ہاتھ، کسی بھی رشتے دار یا محلے دار انکل کے ہوتے۔
کاش! گند صرف میرے اور منٹو کے ذہنوں میں ہوتا تو آج قصور کے ۳۰۰ بچوں کی گندی ویڈیوز دنیا کی ڈارک ویب سائٹ کا حصہ نہ ہوتیں بلکہ ان بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے یہ صاف ستھری دنیا، اکٹھی ہو کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامتی اور کہتی آؤ بچو! سنو کہانی، ایک تھا راجہ ایک تھی رانی اور ان بچوں کو ان کے خوابوں کی قیمت جو ایک چھوٹی سی ٹافی سے لے کرایک بڑا آدمی بننے تک ہوتی ہے، اپنے لہولہان جسم سے ادا نہ کرنی پڑتی۔
میں ایف ایس کی طالبہ تھی، جب پہلی دفعہ منٹو کی وہ کہانی پڑھی جس میں سگا باپ، ماں کے مرنے کے بعد اپنی ہی بیٹی کے ساتھ جنسی تعلق رکھتا ہے، تو پڑھ کر لگا جیسے کسی نے جسم سے روح کھینچ لی ہو، یہ بوجھ اکیلی نہ اٹھا سکی، ۲۵ لڑکیوں کی کلاس میں، بائیولوجی کی کلاس شروع ہونے سے پہلے، ڈائس پر کھڑے ہو کر یہ کہانی سب کو سنا ڈالی، بغیر یہ سوچے کہ کون کیا سوچے گی؟ ٹیچر نے داخل ہوتے ہوتے شاید، کچھ حصہ یا میرا بے لاگ تبصرہ سن لیا، بظاہر خاموش رہیں، لیکن کلاس شروع ہوتے ہی، مجھ پر ایسی نگاہ ڈالی جیسے میں نے کو ئی بہت شرمناک حرکت کی ہو، اور میں بھی سولہ سال کی بچی ہی تو تھی، اندر تک سہم گئی۔ اسی الزام دیتی نظر کے ساتھ ٹیچر نے مجھ سے کوئی سوال کیا، میں گھبرا گئی، جواب آتا بھی تھا، مگر دے نہ سکی، نتیجتاً کلاس سے نکال دی گئی اور بعد میں میری بیسٹ فرینڈ جو کہ گرل زہائی سکول کی پرنسپل کی بیٹی تھی، اسے بلا کر کہا کہ اس لڑکی سے فورا دوستی چھوڑ دو۔ اُس دوپٹے میں لپٹی بائیو جیسا مضمون پڑھاتی ٹیچر کو بھی، میرے مرحوم دوست کی طرح لگا کہ فحش منٹو کو پڑھنے اور اس کی جنسی آلودگی میں ڈوبی کہانی کو، کلاس میں سنا کر، اور اپنی حیرت اور پریشانی اپنی ہم عمروں سے شئیر کر نے والی لڑکی سب کا ذہن گندا کر دے گی۔ میں یہ توہین سالوں تک نہ بھول سکی، اور میرے کچے ذہن نے یہ اثر قبول کیا کہ ایسی باتیں پڑھنا، سوچنا یا ان کی آگاہی دوسروں کو دینا ایک ایسی بری حرکت ہے جس کی سزا سنگساری بھی ہو سکتی ہے۔
عمران نامی درندہ، جس نے اس پھول کو نوچا، وہ ایسے ہی denial میں ڈوبے معاشرے کا فائدہ اٹھانے والے اُن psychopaths جیسا ہے، جو اپنے چہرے پر درویشی اور معصومیت کا ماسک لگائے نہ جانے کتنے معصوم جسموں اور روحوں کو لہولہان کر نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پیارے پیغمبر کی نعتیں پڑھتا، یہ نعت خواں میں کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکتا اگر حالت انکار میں رہنے والا ہمارا معاشرہ، ایسے لوگوں کو بے نقاب کر نے اور ان کا بائیکاٹ کر نے کے قابل ہوتا، مگر افسوس صد افسوس، ہم سب جانتے ہوئے بھی، آنکھیں بند کیے، حقیقت سے نظریں چراتے اپنے کسی بھی ذاتی مطلب یا خوف کے ہاتھوں مجبور ہو کر خاموش رہتے ہیں۔ اسی منافقت کا نتیجہ ہے کہ مغرب کی مخالفت کر نے والے مولویوں کی اولادیں مغرب کے ہی تعلیم یافتہ ہیں۔ فوجیوں کی اولادیں امریکہ یا انڈیا کی ایجنٹ ہیں۔ کبھی نہ بکنے والے صحافیوں کی اولادیں مہنگے داموں بکتی ہیں۔ مصلحت کے نام پر دھوکہ معمول بن چکا ہے اور سیاست دان ہی نہیں سب کے سب بے شرمی سے ہر قسم کی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں۔ کیونکہ دامن کون پکڑے؟ سب کے سب داغ دار دامن والی قمیضیں پہنے فخر سے گھومتے ہیں؟ کون بچا ہے جس کے دامن پر داغ نہ ہو؟ زینب کے لٹنے کی، مرنے کی کہانی، دھڑا دھڑ بک رہی ہے ایک کالمسٹ نے اس پر لکھا “اس ہوشربا کہانی کا اگلا حصہ اگلے کالم میں پڑھیں۔”
کاش گند صرف منٹو اور میرے ذہن میں ہوتا تو آج امریکہ کا اولمپکس ڈاکٹر لیری نیسر نوعمر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی یا انہیں ہراساں کرنے پر ۱۷۵ سال کی سزا نہ پاتا۔ امریکہ جیسا ملک، ڈاکٹر جیسا عہدہ، اگر وہاں یہ سب ہو سکتا ہے تو کہاں نہیں ہو سکتا؟ ۲۰۰۰ اولمپکس برونز میڈلسٹDantzscher جو کہ اب 35 سال کی ہے، نے عدالت میں جو کچھ کہا وہ دھیان سے سننے اور یاد رکھنے کے قابل ہے۔ جس سے ہم اپنی معصوم بچیوں، ٹین ایجرز لڑکیوں اور جاب کرتی خواتین کو، عمران جیسے گھناؤنے کرداروں سے بچا سکتے ہیں۔
"اسے یہ لگا کہ ڈاکٹر اس کا guardian angel ہے۔”

یہ بھی  پڑھیں۔۔۔

منٹو کی زندگی  پر بھارتی فلم

اپنے بیان میں اس نے مزید کہا کہ ڈاکٹربہت مہربان، ہمدرد اور ہر وقت مدد کے لیے تیار نظر آتا تھااور اولمپکس کے abusive اور سخت ماحول میں، وہ ایک ایسا فرشتہ نظر آتا تھا، جس پر میں نے بغیر کسی دقّت کے اعتبار کیا۔ کیونکہ وہ دوست کی طرح تھا، ایک bright light جب کہ اس وقت میں خوفزدہ رہتی تھی، کبھی اپنے زخمی ہونے سے کبھی ہار جانے سے کبھی لوگوں کے رویّوں سے۔ وہ مجھے ہنساتا تھا اور مجھے لڑکپن میں لگتا تھاکہ وہی ایک واحد انسان ہے جس پر میں اعتبار کر سکتی ہوں اور جو میرے خواب پورے کرنے میں مدد کرے گا اور جو مجھے سمجھتا ہے اور ہر مشکل میں میرے ساتھ کھڑا ہوگا۔ وہ مجھے کہتا تھا All are horribles۔ میں اس پر اتنا اعتبار کرتی تھی کہ وہ گلوز کے بغیر میرے پرائیویٹ پارٹس کو چھوتا تھا، تو میں اس کی نیت پر تب بھی شک نہیں کرتی تھی اور اسے میڈیکل طریقہ کار کا حصہ سمجھتی تھی۔ یہ تو بہت سال بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ جو کچھ میرے ساتھ چیک اپ کے نام پر کرتا رہا تھا، وہ سب غلط تھا۔
اور میں نے ان دو درجن خواتین جو، اس درندے کے خلاف آگے آئی ہیں، ان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا، جب میں نے تصور کی آنکھ سے اپنی بھانجیوں کو، ایسے ہی مہربان اور ہمدرد کا روپ بھرے بہروپیے کے ہاتھوں molest ہوتے دیکھا۔ میرے آگے آنے اور حقیقت بتانے کی صرف یہی وجہ ہے کہ میں معصوم اتھیلیٹ لڑکیوں کو ایسے شکاریوں سے بچانا چاہتی ہوں، جو آنکھوں میں خواب لیے آتی ہیں اور خاموشی سے یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ اس سب عذاب سے گزرے بغیر ایتھلیٹ بننے کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ "
Dantzscher کا لیری نیسر کے خلاف یہ عدالتی بیان، اور زینب کے مجرم کا میڈیا میں پیش ہو نے والا کردار، ان میں مشابہت ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، وہ صاف ظاہر ہے۔
جذبات ہوں یا خواب یا چاکلیٹ، ان کا لالچ دے کر لوٹنے والے، sympathetic نہیں manipulative ہوتے ہیں۔ ہمدرد کے روپ میں ہی، لٹیرے اپنا کام باآسانی کر سکتے ہیں۔ اعتماد کی فصل بو کر ہی اپنی مرضی کا پھل اگاتے ہیں۔ میرے مرحوم دوست کی طرحdenial میں مت رہیںاور آنکھیں بند کر کے یہ کہہ کر خود کو مطمئن نہ کر لیں کہ "گند منٹو کے اور تمہارے ذہن میں ہے، تم کس دنیا میں رہتی ہو، میری دنیا میں تو یہ نہیں ہوتا۔ "
یہ بات وہی لوگ کہہ سکتے ہیں جو حالت انکار میں ہیں یاشاید خود بھی اسی کا ایک حصہ ہیں۔



بشکریہ دلیل