سیمیں کرن
مجھے کچھ سوال پوچھنے
کی اجازت دیجیے۔ دراصل کسی معاشرے میں سوال اٹھانا یا مقام سوال پہ آنا ہی ایک
کامیابی کہلاتا ہے۔ سو سوال کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ سو مجھے کچھ سوالات کرنے کی
اجازت دیجیے۔
میں آپ سے یہ پوچھنا
چاہتی ہوں کہ آپ کے نزدیک روشن خیالی یا لبرل ازم کی کیا تعریف ہے؟
کیا آپ کے نزدیک بائیں
بازو والے روشن خیال ہیں؟
کیا روشن خیالی آپ کے
نزدیک غیر جانبدارانہ، غیر متعصبانہ رویہ نہیں ہے جو آپ کو ایسا طرز فکر عطا کرے
کہ آپ نہ صرف اپنے نظریے کو الٹ پلٹ کر ایمانداری سے دیکھ سکیں بلکہ اپنے ساتھیوں
ہم فکر لوگوں کے لئے بھی آپ کی راے محبت کے تعصب سے خالی ہو۔ جی ہاں محبت ہو یا
نفرت دونوں ہی متعصب ہوا کرتی ہیں۔ کنفیوشس نے کہا تھا ” اپنے افعال کی جانچ پڑتا
ل سے ہی علم بڑھتا ہے ” سو یہ الٹ پلٹ جانچ پرکھ توبہت ضروری ہے۔
کیا آپ کے نزدیک روشن
خیالی یہ نہیں کہ آپ کسی بھی تعصب سے بالا تر ہوکر رائے قائم کرنے کے قابل ہو
جائیں؟
اور کیا آپ یہ سمجھتے
ہیں کہ محض اسی خوبصورت رویے کے نتیجے میں انسان دوستی، مساوات اور قانونی بالا
دستی جیسے اہم رویے جنم لیتے ہیں؟
اور قانون کی بالا
دستی۔ قانون کی حکمرانی سے آپ کی کیا مراد ہے؟
کیا آپ یہ نہیں سمجھتے
کہ قانون کی حکمرانی کا مطلب قانون سب کے لیے برابر ہے۔ پھر وہ چاہے بادشاہ ہو یا
فقیر، عالم ہو یا جاہل۔ اگر قانون توڑے تو وہ احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے؟
ان دنوں جنسی ہراسانی
کا ایک کیس بہت شہرت پا چکا ہے۔ موصوف سے کسی قسم کی ناواقفیت کی بنا پہ مرے پاس
ان کے حق یا خلاف کوئی گواہی نہیں، مگر میں نے ایمانداری سے یہ محسوس کیا کہ ان کا
حلقہ ارباب جو ان کا مقدمہ سوشل میڈیا پہ لڑتا نظر آتا ہے، وہ لے دے کر ایک دو
بودی دلیلیوں کے علاوہ کچھ نہیں کہتا۔ اور یہ تمام بائیں بازو والے عرف عام میں
روشن خیالیے تمام تر غیر جانبداری و انصاف کی فراہمی و قانون کی بالا دستی پہ شاید
انا للہ پڑھ چکے کیونکہ بوگس دلیل خود ایک بہت بڑا سوال ہوا کرتی ہے۔
ایک دلیل تو یہ نظر آئی
کہ صاحب موصوف بہت عالم فاضل ہیں۔ ان کتابوں کی بابت جانتے ہیں جن کا نام بھی کسی
نے نہ سنا ہوگا۔ اکثر کتاب بازار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ دلیل اتنی بوگس ہے کہ سن
کر ہی ‘ ہاسا’ نکل جاتا ہے۔ کیا کتابوں کی گھر، جیب یا دماغ میں موجودگی اس بات کی
کوئی ضمانت ہوا کرتی ہے کہ جنسی ہوس پرستی کی موت واقع ہو چکی؟
یہ ویسی ہی دلیل ہے کہ
ہم کہیں کہ یہ سب لمبی داڑھیوں والے ڈھاٹے والے طالبان اسلام کی سر بلندی کو اٹھے
اور بہت متقی اور پرہیز گار ہیں۔ اس طرح کی دلیل سن کر شاید انصاف شرم کھا کر خود
ہی مر جائے۔
اور صحیفہ مقدس تو اس
ضمن میں بڑی خوبصورت گواہی بن کر آجاتا ہے کہ بے شک بے عمل عالم ایسے ہی ہے جیسے
گدھے پہ کتابیں لدی ہوئی ہوں۔۔ یہ آیت خود کہتی ہے کہ کتابوں کی موجودگی عمل کی
گواہی نہیں ہوا کرتی۔ اور کتابوں پہ عمل نہ ہو تو بے عمل عالم اک گدھے سے بدتر ہے۔
دوسری دلیل یہ پیش کی
جاتی یے کہ ہمارے ان صاحب سے اتنے برس کے تعلقات ہیں۔ معاف کیجیے گا احتساب کی
عدالت میں یہ راے کسی پنکھ سے بھی ہلکی ثابت ہوگی۔ کیونکہ گواہی ہی مشکوک ہو جائے
گی۔ کوئی شخص بھلا اپنے عزیز دوستوں پہ تو نہیں جھپٹے گا۔
ان حالات میں غیر
جانبداری و انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ دوستی، تعلق، جماعتی، طبقاتی،گروہی، لسانی
یا مسلکی تعلقات سے بالا تر ہوکر اس طرح کے واقعات کی انسانی ہمدردی پہ جانچ پڑتال
کی جاتی۔
ہمارا وہ جنسی گدھوں،
بیماروں کا معاشرہ جہاں زینب جیسی معصوم کم سن بچیاں بھی محفوظ نہ ہوں۔اساتذہ کے
ہاتھوں جامعات و تعلیمی ادارے غیر محفوظ ہوجائیں یہ معاشرے کو کس جانب لے کر جارہے
ہیں۔ کاش کسی نے یہ سوچا ہوتا؟!
آپ کی ساری روشن خیالی
شاید تیل بیچنے چلی گئی۔
ان صاحبان و صاحبات نے
شائد موصوف کے اپنے بیانات پہ غور کرنا مناسب نہیں سمجھا جس کے تحت وہ خود اعتراف
کر رہے ہیں کہ کسی سے ہاتھ ملا لینا یا گلے لگا لینا وہ معیوب نہیں سمجھتے؟
جبکہ اسی قبیل کے لوگ
اپنے خاندان کی خواتین کے لیے قبائلی زمانے کے مرد ثابت ہوتے ہیں اور اپنی بیویوں
کو قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار کرنا، تشدد کرنا اور ہر قسم کی ” روشن خیالی”
سے محفوظ رکھنا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔
وہ چیز، وہ رویہ جو آپ
اپنے لئے درست نہیں سمجھتے وہ کسی دوسرے شخص کے لئے آپ کو کیوں اچھا لگتا ہے؟
سوال تو یہ بھی ہے کسی
بھی انسان کو، مردو زن کو اس کی مرضی کے بغیر چھونا کیوں نہ جنسی ہراسانی میں
سمجھا جائے؟
سوال نام نہاد روشن
خیالی پہ بھی ہے کہ ایک خاتون نے معاشرے کی تمام تر بیمار سوچ اور اپنی بیماری سے
لڑتے ہوئے اگر یہ جنگ بہادری سے لڑی ہے تو کیوں روایتی ہتھیار استعمال کئے جارہے
ہیں۔
کیا وہ وقت ابھی نہیں
آیا عورت کے لئے کہ اس کی عزت و حرمت ایسے الزامات سے بہت بلند سمجھی جائے؟
کیا کسی کے چھونے سے
صرف عورت پلید ہوتی ہے؟
کیا یہ دعوی اپنی جگہ
خود اس بات کا اعتراف نہیں کہ مرد خود کو سراپا غلاظت تسلیم کر رہا ہے؟
سچ، حق اور انصاف کا
تقاضا یہ ہے کہ جامعہ نے جو فیصلہ محتسب اعلی کے حکم پہ ان کی تشفی کو دیا ہے اور
اس پہ ابھی احتساب عدالت سے کیس آنا ہے تو جس کے پاس مدلل گواہی ہے وہ عدالت میں
پیش کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے۔
اور حرف اخر کے طور پہ
جنسی ہراسانی و جنسی جرائم کے اس پھیلتے مرض کا ایک بہت بڑا تدارک یہ بھی ہے کہ ہم
سب سے پہلے اپنے ذہنوں سے روایتی سوچ اور taboos کو خدا حافظ کہہ دیں۔
یہ ایک Mob psychology کی نفسیات رکھنے والا
معاشرہ جہاں جنگ، بے یقینی، سیاسی عدم استحکام زہنوں کو ایک بحران کا شکار کرتا ہے
اور یہ بحران اس طرح کے مزید واقعات کو جنم دیتا ہے۔ آپ جب ان واقعات کو دکھاتے
ہیں تو ان مجرمین یا ملزمین کو آبرو باختہ اور معاشرے کا رزیل دکھائیے۔۔ میرے علم
میں مختلف علاقوں سے تین واقعات آئے جہاں اہل علاقہ نے بچوں کو نہ صرف بازیاب
کروایا بلکہ اس شخص کو اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنا کر پولیس کے حوالے کر دیا۔
آپکا میڈیا ایسے واقعات کیوں نہیں دکھاتا؟
تاکہ خوف و ذلت کا
احساس ہی اس حیوانیت کے خلاف کہیں کوئی تدارک بن سکے؟ کیا آپ اپنے قدیم قبائل کا
وہ پرانا اصول بھول گئے جو درندوں کو بھگانے کے لئے آگ جلا کر اور گڑھے کھود کر
کیا کرتے تھے؟
کیا آپ کا مکالمہ، آپ
کا رویہ معاشرے میں ان درندوں کے لیے، ان ذہنی جنسی بیماروں کے لیے کوئی آگ جلانے
کی سکت رکھتا ہے؟ کوئی گڑھا جو ان کی قبر ثابت ہو؟ یہ واقعات ہوتے آنے ہیں۔ ہوتے
رہے ہیں، ہوتے رہیں گے مگر کیا روشن خیالی و روشن ضمیری یہ مقدمہ کھڑا نہیں کرتی
کہ ظالم معاشرے کا شودر بنایا جائے۔ ذلت، رسوائی،اس کا مقدر ٹھہرے نہ کہ آپ مظلوم
کو اپنے لفظوں و رویوں سے رجم کرنا شروع کردیں۔۔
معاف کیجیے گا جب تک یہ
رویہ نہیں بدلتا۔ جنسی بیمار گدھ نہ صرف گلیوں میں منڈلاتے پھرتے رہیں گے بلکہ آپ
کی جامعات میں کتابوں کا بوجھ ڈھوتے ہوئے بھی پائے جائیں گے۔
بشکریہ ہم سب