شہید کی جو موت ہے۔۔۔۔



سکولوں میں پڑھایا جاتا تھا، یوم پاکستان پہ گایا جاتا تھا اور یوم دفاع کے موقعے پر بڑے بڑے بینروں پر سجایا جاتا تھا:
شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے
مجھے یقین ہے کہ اس مصرعے کے متبادل دنیا کی ہر زبان، ہر مذہب اور ہر تہذیب میں موجود ہوں گے کیونکہ ہر قوم کو اپنی بقا کے لیے اور ہر تحریک کو اپنی نمود کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں، یقینی موت کے طرف لپکیں اور اپنی زندگی دے کر قوموں کو اور تحریکوں کی نظریات کو دوام بخشیں۔
دنیا کے ہر ملک میں شہیدوں کے نام پر یادگاریں ہیں، سڑکیں ہیں، پارک ہیں، ان کی قربانی کو یاد کیا جاتا ہے، ان کا احترام عام طور پر ایسے ہی کیا جاتا ہے جیسے مقدس صحیفوں کا۔
مولانا منور حسن نے پاکستانی فوجیوں کی شہادت پر سوال لگا کر جو ہنگامہ کھڑا کیا ہے اس سے شہدا کے خاندانوں کے دل تو دکھے ہیں لیکن بالآخر ہم اس بنیادی سوال کا جواب ڈھونڈنے نکل پڑے ہیں کہ شہید کون ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ آپ بھی مولانا کو غدار قرار دیں اور جماعت اسلامی پر پابندی کا مطالبہ کریں اپنے آپ سے یہ پوچھیں کہ کیا مولانا نے وہی نہیں کہا جو بہت سوں کے دل میں ہے؟
کیا مولانا کے بیان سے پہلے یہ طے تھا کہ کون شہید ہے اور کون جہنم وصل ہوا ہے؟ صرف حالیہ ماضی پر نظر ڈالیں۔
کیا بھگت سنگھ شہید ہماری تحریک آزادی کا ہیرو نہیں تھا، کیا اس نے ہمیں غلام بنانے والے انگریزوں کے خلاف جان کا نذرانہ پیش نہیں کیا؟
تو لاہور میں ایک سڑک کو اس کا نام دینے پر ہمارا ایمان کیوں متزلزل ہونے لگتا ہے؟ چلیں بھگت سنگھ غیر مسلم تھا، لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو آدھا ملک شہید مانتا ہے اور آدھا سیاسی شعبدہ باز۔ جس طرح پاک فوج نے ناراض ہو کر جماعت اسلامی کے بارے میں بیان دیا اور ساتھ ہی ساتھ خود مودودی صاحب کی تعریف کی کہ کیا کبھی ایسا بیان پیپلز پارٹی کے بارے میں بھی آئے گا اور ساتھ یہ کہا جائے گا کہ اس بھٹو کی پارٹی سے یہ توقع نہیں تھی جس نے 90 ہزار فوجیوں کو بھارت کی قید سے آزاد کروایا اور ملک کے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی؟
چلیں فوج بھٹو کو کیسے شہید کہہ سکتی ہے جب اس نے خود ہی اسے پھانسی پر لٹکایا۔ لیکن گورنر سلمان تاثیر کو تو اس کے اپنے باوردی گارڈ نے گولی ماری۔ سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے مولوی نہیں مل رہا تھا اور اس کا قاتل راتوں رات اس ملک کے زیادہ تر نوجوانوں کا رول ماڈل بن گیا۔اس ملک میں کتنے شیعہ شہری صرف یا حسین کا نعرہ لگاتے ہوئے مار دیے گئے۔ ہماری کتنی غیر شیعہ مذہبی جماعتیں ان کو شہید مانتی ہیں؟
اس بات کا ذکر بھی نہیں کرتے کہ بنگلہ دیشی مسلمان پاک فوجیوں کو شہید نہیں مانتے، بلوچ علیحدگی پسند اپنے بچوں کو شہید مانتے ہیں، فوج نہیں مانتی، سندھی قوم پرست بھی اپنے کارکنوں کو شہید کہتے ہیں اور کوئی نہیں مانتا۔ مجھے تو شک ہے کہ وہ احمدی بھی جو ہمارے مومنوں کے حملے میں مارے جاتے ہیں اپنے آپ کو شہید سمجھتے ہیں۔
مولانا کی غالباً واحد غلطی یہ ہے کہ انہوں نے فوجیوں کی شہادت پر سوال اٹھایا ہے۔ فوجی سرکار سے تنخواہ لیتے ہیں، ریاست کی حفاظت کا حلف لیتے ہیں اور اگر اس میں جان بھی چلی جائے تو ڈیوٹی کا حصہ ہے۔
سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کون شہید ہے اور کون نہیں۔ سوال یہ ہونا چاہیے کہ ایسے حالات کیسے پیدا ہوئے کہ مولانا منور حسن جیسا دیندار آدمی اس واہمے میں مبتلا ہوگیا کہ حکیم اللہ محسود ان سے بہتر مسلمان ہے۔ مولانا سمجھتے ہیں کہ ایک وہ مجاہد تھا جو راہ حق میں شہادت کا مرتبہ پاگیا اور ایک میں ہوں کہ ہر دوسرے دن ٹی وی چینلوں پر منکر نکیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کاش ہم کہہ سکتے کہ یہ وہم صرف مولانا کے دل میں ہے۔ ہم بھی اس مخاصمے کا شکار ہیں مولانا غالباً مرنے اور مارنے والے دونوں کو شہید کہہ کر اکتا گئے تھے اس لیے دل کی بات کہہ گئے۔ اگر مولانا شاعر ہوتے تو فرماتے:
شہید کی جو موت ہے، وہ قوم سے مذاق ہے!
(قند مکرر – 12 نومبر 2013)