مرد عورت کے لئے کیا نہیں کرتا؟


مورخہ 3 جنوری کا “ہم سب” پر مالک اشتر کا بلاگ نظروں سے گزر ہوا، جس میں انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے کچھ فتاوی پر نظر ڈالی۔ انھوں نے لکھا
“دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء نے سوال نمبر 151566 کے جواب میں صادر فتوے میں فرمایا کہ شوہر کو طلاق کا اختیار اس لیے دیا تاکہ طلاق کم سے کم واقع ہو کیونکہ عورت جلدباز ہوتی ہے اور بسا اوقات بغیر سوچے کوئی فیصلہ کرلیتی ہے”۔
اب اس میں محترم مفتی صاحب کے فتوے پر بحث کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں ان کی بات ماننی پڑے گی کیونکہ وہ تو وہی کہتے ہیں جو دین کہتا ہے۔ اور اگر وہ ہم جیسے کم فہم لوگوں کو سمجھانے کے واسطے جوابات میں کچھ اپنی تفسیر شامل کر بھی دیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
بچپن سے پچپن تک جب بھی جمعے کے خطبے پر کان لگا کر کچھ سننا چاہا کہ کہ مولانا صاحب کیا بیان فرما رہے تو اکثر و بیشتر کان پڑی یہی آواز آئی کہ اپنے گھر کی عورتوں کو گھر کے اندر ہی بہترین تعلیم دو۔ ان کی تمام تر ذمہ داری آپ پر ہے۔ وغیرہ وغیرہ
کچھ عورتوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس میں لفظ “ذمہ داری” کو لوگ “پابندی” کے متبادل کیوں سمجھتے ہیں اور گھر آکر اس کی مشق بھی کرتے ہیں۔ بہر حال یہ لوگوں کی سوچ کا قصور ہے۔ مولانا صاحب تو اچھی اچھی باتیں ہی کرتے ہیں ہمیشہ۔ یہ اکثر عورتیں اللہ جانے کیوں ان کو اپنا دشمن سمجھتی ہیں۔ “ان” کس کو کہتی ہیں آپ خود سمجھدار ہیں مولانا صاحب کو یا اپنے صاحب کو۔
بہر حال مالک اشتر صاحب کے بلاگ کی ایک اور دلچسپ بات کہ انھوں نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ “اگر مرد میں عقل اور صبر زیادہ ہے تو دال میں نمک کم ہونے پر یا شوہر کا فون کاٹنے پر، یہاں تک کے معمولی گھریلو بحث میں طلاق طلاق کہہ کر بیوی کو نکال دینے کے واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟ یہاں اس عقل اور صبر کا کیا ہوا؟”
کافی سوچا کہ ان کی اس بات کا کیا خاطر خواہ جواب لکھا جائے مگر سارے گھوڑے دوڑ دوڑ کر تھکے ہارے واپس دماغ کے اصطبل میں آکر گدھوں اور انسانوں کو بیچ کر سو گئے۔ جواب ندارد۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ آج کل ایسے اور بھی بہت سے مرد حضرات دیکھنے میں آتے ہیں جو اس طرح کی باتیں کر کے مرد ذات کا سر شرم سے جھکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ لیکن پھر کچھ “اصلی” مرد آگے بڑھتے ہیں جو مولانا صاحب کی تاکید کو یاد کرتے ہوئے کہ عورتوں کی ذمہ داری ان کے مردوں پر ہے، اپنے زور بازو سے عورت بمع عصمت کو قابو کر کے ان نا مردوں کو دیکھتے ہوئے مونچھوں کو تائو دیتے ہیں۔ اور کیوں نہ دیں؟ مرد عورت کے لئے کیا نہیں کرتا؟
اپنی زندگی کی گاڑی میں قربانی و ایثار کا ایندھن ڈال کر اپنے گھر والوں کو ہر ممکن آرام دہ سفر کے لئے سوار کرتا ہے۔ اپنے خوابوں کو پس پشت ڈال کر اپنے گھر والوں کے لئے پرسکون نیند کو یقینی بناتا ہے۔ بریڈ ونر ہے مرد بریڈ ونر۔ چلئے “ونر” کے معنی کے لئے تو دوسرا بلاگ چاہئیے ہوگا۔ لیکن فی الحال صرف بریڈ کی بات ہی کافی ہے۔ یہ وہی بریڈ ہے جس سے پیٹ کی آگ کو بجھایا جا سکتا ہے۔ باقی رہ کیا جاتا ہے دنیا میں بھوک کے علاوہ؟ ہاں کدو۔ جس سے وہ بریڈ لگا لگا کے کھائی جائے گی؟
چلیں اب بتائیے لڑکیاں کیا کرتی ہیں مردوں کے لئے؟
پیدا ہو کر باپ پر ایک احسان کے علاوہ؟ اور وہ احسان بھی اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب مرد کی اولاد نرینہ پیدا ہو کر نہ دے تو ایسی صورتحال میں بھی کچھ مرد بیٹی پر اکتفا کرتے ہیں کہ مردانگی کی سند تو مل گئی۔ اور کچھ دوسری شادی کر لیتے ہیں۔ وہ بھی شرعی حق ہے اس لئے استعمال کر لیتے ہیں۔ (یہ تو معلوم ہوگا آپ سب کو؟ یا اس کے لئے بھی فتوی پیش کیا جائے؟)
ہمارے معاشرے میں ماں کی عظمت پر کافی زور دیا جاتا ہے لیکن باپ کی شفقت اور قربانی کی زیادہ بات نہیں کی جاتی۔ جی ہاں مجھے معلوم ہے کہ ماں کا رتبہ باپ سے تین گنا زیادہ ہے۔ میں نے بھی وہ حدیث پاک سن اور پڑھ رکھی ہے جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی ہے کہ “تمہاری ماں، تمہاری ماں، تمہاری ماں”
اور یہ آپ کے منی بس، رکشے والوں نے ساری دنیا کو باور کروا دیا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ لیکن صاحب یہ جنت بھی اس مرد کی مرہون منت ہے جو اس سے شادی کرتا ہے اور ماں کے عظیم رتبے پر فائز کرتا ہے۔ ورنہ مرد کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب دب کر اپنی قدرے سہل زندگی کو داؤ پر لگائے اور بیوی کی فرمائشوں اور بچوں کی ضدوں کو پورا کرتے کرتے خود پورا ہو جائے؟
یہ تو آپ سب مانتے ہیں نا کہ ہمارے ہاں بیوی کو خاص طور پر مرد کی اطاعت، سکون، دلجوئی اور خدمت کے لئے اس کی زندگی میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہی ہمارے اکثر علماء بتاتے ہیں اور یہی ہم نے سنا ہے۔
اب اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمان سے بتائیے اگر وہی بیوی اپنے شوہر کو ٹھنڈا کھانا پیش کرے اور اس پر شوہر غصے کا مظاہرہ کرے اور بیوی الٹا اسے طعنہ دے کہ یہ نخرے اپنی ماں کو دکھاؤ تو مرد پر کیا گزرے گی؟ کیا اس کے سر پر خون سوار نہیں ہوگا؟ اور اگر اسی طیش میں اس سے بیوی کا قتل ہو جائے تو کیا اس میں بیچارے مرد کا ہی سارا قصور ہے؟
جیسا کہ نومبر 2017 میں سرگودھا کے ایک رہائشی کو قصور وار ثابت کر کے کیس فائل کر لیا گیا۔ جس نے اپنی بیوی کو ٹھنڈا کھانا دینے پر جان سے مار دیا تھا (لیکن پھر اسی عقل کو، جو عورت کے مقابلے میں اسے زیادہ ملی ہے، بروئے کار لاتے ہوئے موقع سے فرار ہو گیا(
اور صرف یہی نہیں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں عورتیں اپنی کم عقلی کے باعث اپنی جان تک گنوا بیٹھتی ہیں۔ تو ٹھیک ہی کہتے ہیں پھر علماء کہ عورت بے صبری اور کم عقل ہے؟
مرد اپنے کام دھندے سے فارغ ہو کر بھوک سے نڈھال گھر میں لوٹے اور اسے ڈھنگ کا کھانا تک نہ ملے تو کیا یہ زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بن جائے گا ایک دن؟ یہ تو آپ بھی مانیں گے کہ زیادہ تر مرد گھر میں بھوکے لوٹتے ہیں کسی کو کھانے کی بھوک ہوتی ہے اور کسی کو کئی دوسری چیزوں کی۔ تھکے ہارے بھی سب ہی مرد آتے ہیں تقریباً۔ کوئی محنت کر کے تھک کر آتا ہے تو کوئی جوا کھیل کر ہارا ہوا لوٹتا ہے۔ بہر حال دونوں ہی صورتوں میں گھر واپسی پر کوئی خلاف معمول بات ہونے پر اس کا غصہ کرنا معقول سی بات ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی اگر عورتیں مرد کی عقل و دانائی اور صبر کو خاک میں ملائیں تو میں کہتی ہوں ایسی عورتوں کو خود خاک ہوجانا چاہئیے۔

بشکریہ  ہم سب