تصویر کے کاپی رائٹEPA
پاکستان
میں عورتوں اور بچوں پہ بڑھتے ہوئے جسمانی تشدد کے واقعات اتنی تیزی سے سامنے آ
رہے ہیں کہ وہ تمام لوگ بھی خاموش ہو گئے ہیں جو کسی بھی ایسے جرم کے بعد، مغرب
میں ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار یوں گنواتے تھے، جیسے ہمارا ان کا وٹے سٹے کا
رشتہ ہو اور مغرب کی بے راہ روی کو دیکھتے ہوئے ہمیں اطمینان ہو جائے کہ سب اچھا
ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اعداد و
شمار میں مغرب کے بازی لے جانے کی وجہ ان کے ہاں بہت سے کیسز کا رجسٹرڈ ہوجانا ہے۔
جبکہ ہمارے ہاں بہت ہی کم معاملات پہ آ واز اٹھائی جاتی ہے اور جن پہ بات کی بھی
جاتی ہے، ان پہ بھی ایف آ ئی آ ر کٹنے کی نوبت کم ہی آ تی ہے۔ اس لیے اعداد و شمار
کوئی اور کہانی سناتے رہتے ہیں اور حقیقت کچھ اور ہی رہتی ہے۔
قصور سے اٹھنے والی اس
آندھی نے اب طوفان کی شکل اختیار کر لی ہے اور جنسی و جسمانی تشدد کے واقعات منظر
نامے پہ ایسے چھا رہے ہیں جیسے آج ہی یہ رویے پیدا ہوئے ہوں۔ ان واقعات کی رپورٹنگ
کرنے والے میڈیا کا مقصد یقیناً نیک ہوتا ہے اور وہ ان خواتین کی مدد کرنے اور ان
کی آ واز کو اربابِ حل و عقد تک ہی پہچانے کے لیے یہ سب کر رہے ہوتے ہیں لیکن
الفاظ کا چناؤ ملاحظہ ہو، ’موضع فلاں میں مسماۃ فلاں کو آ برو ریزی کے بعد قتل
کردیا گیا‘ یا ’حوا کی بیٹی کی عصمت ایک بار پھر تار تار، امیر زمیندار کے اوباش
لڑکوں نے ۔۔۔‘ وعلیٰ ہٰذا لقیاس۔
خدا کے واسطے، ان الفاظ
سے باہر نکل آ ئیے۔ دماغ سے عقل چوس اتاریے اور غور کیجیے۔ عورتوں کے خلاف ہونے
والے آ دھے سے زیادہ جنسی جرائم میں یہ ہی الفاظ معاونت کرتے ہیں۔ جب اجتماعی طور
پر یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ عورت کے ساتھ اس کے خاندان اور گھر والوں کی رضا کے
بغیر جنسی تعلق قائم کر لینا، نہ صرف اس عورت کی، بلکہ اس کے خاندان کی نسلوں کی
’عصمت دری‘ اور ’آ برو ریزی‘ ہے تو پھر آ پ عورت کو اس جرم سے کسی بھی طرح نہیں
بچا سکتے، چاہے اس کے لیے کتنا ہی سخت قانون کیوں نہ بنا لیں۔
قتلِ غیرت، ریپ،
خودکشی، خواتین کے نروس بریک ڈاؤن اور دیگر کئی ذہنی بیماریوں کے پیچھے ’پاکی‘ اور
عصمت کا یہ ہی تصور کارفرما ہے۔ حد یہ ہے کہ جنسی ہراسانی (جو کہ مغرب میں بھی عام
ہے) کی ہمارے معاشرے میں موجودگی کے پیچھے بھی یہ ہی خیال پایا جاتا ہے کہ جب ایک
مرد عورت کو کسی جنسی تلذذ کے احساس سے چھوتا ہے تو عورت ’نا پاک‘ ہو جاتی ہے۔
یہ
بھی پڑھیے
٭ بہاءالدین زکریا بلیک میلنگ سکینڈل میں کون کون
ملوث ہے؟
٭کیا فیس
بک نے مجھے بے حس بنا دیا ہے؟
٭ اسلام
آباد میں غیر ملکی بچے سے بدفعلی کے الزام میں قاری گرفتار
٭ ایک ڈاکٹر جنہیں جنسی ہراسانی خودکشی تک لے گئ
سوال یہ ہے کہ لمس تو
دونوں طرف محسوس کیا گیا، تو کیا دونوں ہی نا پاک نہیں ہوئے؟ یا پھر ہم نے یہ بات
تسلیم کر لی ہے کہ مرد کی کوئی عزت نہیں ہوتی؟ سڑکوں بازاروں میں آ تے جاتے،
دانستہ عورتوں کو چھونے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ بھی تو ایک جسم رکھتے ہیں
اور اس جسم کے ساتھ اگر کوئی تصورِ غیرت وابستہ ہے تو کیا اس طرح وہ اپنی آ برو کو
سڑک پہ نہیں رول رہے؟
تصویر کے کاپی رائٹ
عورت، جسمانی طور پہ
کمزور ہوتی ہے، مزید اسے اپنے جسم کے ’ہونے‘ کا اس قدر احساس دلا یا جاتا ہے کہ جو
ہاتھ پاؤں ذرا چلتے بھی ہیں، وہ بھی جام ہی ہو جاتے ہیں کہ کہیں، زور سے ہنسنے،
بازو پھیلا کر انگڑائی لینے، کھیلتے ہوئے ذرا سی ٹانگیں ادھر سے ادھر ہو جانے، جسم
کے خطوط کے نظر آ جانے سے، خاندان، ملک و مذہب اور اسلاف کی ناک کٹ کر وہ جا گرے
گی۔
اسی کیفیت سے وہ مزید
کمزور ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ جو اپنی کسی ہزیمت کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ان
کے لیے یہ عورتیں آ سان شکار ثابت ہوتی ہیں۔ ایک تو یوں بھی کمزور، دوسرے ذہنی طور
پہ اپنے دفاع سے عاری اور تیسرے یہ کہ اس وار کے بعد مخالف کی کمر ایسے ٹوٹتی ہے
کہ وہ کوئی بھی جنگ لڑنے کے قابل نہیں رہتا۔
عصمت اور آ برو کا یہ
تصور عورت کی جان کا دشمن بن چکا ہے۔ ان واقعات کا شکار عورتیں سماجی اور ذہنی
دباؤ سے خود کشی کر لیتی ہیں یا ذ ہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ فریحہ الطاف
نے اپنے ساتھ گزرنے والے بچپن کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اس
کے اثر سے ان کی والدہ کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا اور خود ان کی اپنی ازدواجی
زندگی کی ناکامی کی وجہ بھی اس واقعے کے نفسیاتی اثرات ہی تھے۔
تصویر کے کاپی رائٹ
ریپ کو ایک جسمانی
حادثے کے طور پہ دیکھنا چاہیے۔ ریپ کا شکار عورت نہ ہی کچھ کھوتی ہے اور نہ ہی اس
کی کوئی بے عزتی ہوتی ہے۔ الٹا وہ شخص جو یہ عمل کرتا ہے ایک نا پسندیدہ اور
ٹھکرایا ہو ا شخص ہوتا ہے، جسے کسی عورت سے جسمانی تعلق استوار کرنے کے لیے
زبردستی کرنا پڑتی ہے۔ نیز وہ ذہنی مریض بھی ہوتا ہے۔
ریپ کو عزت کے تصور سے
الگ کر کے ایسے دیکھا جائے جیسے سائیکل چلاتے ہوئے گر جانا، بازو ٹوٹ جانا، جھولے
سے گر کے زخمی ہو جانا یا گاڑی کے حادثے میں ٹانگ ٹوٹ جانا۔ ان زخموں کا علاج کیا
جاتا ہے اور زندگی آ گے چلتی ہے۔ اگر کسی کی ٹانگ ٹوٹ جانا، خاندان کی ناک پہ گراں
گزرتا تو اس زخمی کا نہ علاج ہوتا اور نہ اس کی تکلیف کو کوئی سمجھتا۔ جس کی غلطی
کے باعث یہ زخم پہنچا، وہ شخص اتراتا، اینڈتا، مونچھوں کو تاؤ دیتا پھرتا اور زخمی
ذہنی دباؤ سے خودکشی کر لیتا۔
عورتوں کے خلاف ہونے
والے تشدد کے واقعات پہ بات ہو رہی ہے اور یہ ایک بہت خوش آ ئند بات ہے، لیکن ساتھ
کے ساتھ ہمیں، عصمت، پاکیزگی، آ برو، عزت اور کنوارپن کے ان صدیوں پرانے خوفناک
تصورات اور اصلاحات پہ بھی بات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ صورت حال وہی رہے گی کہ اپنے
17 سے زیادہ معاشقوں کا آن دی ریکارڈ ذکر کرنے والے جوش ملیح آ بادی تو مرد کے بچے
رہیں گے اور سارا شگفتہ، خود کشی کرنے کے بعد بھی ’نیمفو مینیا‘ کا شکار کہلائے
گی۔
خدارا، عورت کے ساتھ
جسمانی تعلق کو اپنی فتح اور اس کی شکست کے طور پہ مت دیکھیے، اگر یہ غلاظت ہے تو
آپ کے منہ پہ بھی تھپی ہوئی ہے اور اگر تمغہ ہے تو عورت کو بھی یہ تمغہ دیجیے۔
انصاف کیجیے، ورنہ ایسے جرائم کبھی ختم نہیں ہو ں گے۔