دو دن سے یہ سوال مجھے کچوکے دے رہا ہے جب اچانک ہی ایک ویڈیو کھل
جانے پر میں نے نہ آنسو بہائے نہ ہی کسی اور رد عمل کا اظہار کیا بلکہ معمول کے
مطابق اسکرول کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی حالانکہ میں اپنے آپ کو بہت زود رنج سمجھتی
ہوں آخر میں اتنی بے حس کیسے ہو گئی سیاہ سکارف لپیٹے ایک خوب صورت لڑکی اپنے قتل
کرنے والے کا نام لیتے ہوئے آخری سانسیں لے رہی تھی اس کی آنکھیں پتھرا رہی تھیں
انتہائی دکھ اور اذیت سے بچنے کو میں نے اس معصوم کی آخری فریاد نہ سنی دل شائد
پتھر ہو گیا تھا تب ہی کل رات رونما ہونے والے ایک اور واقعے نے مجھ پر کوئی اثر
نہ کیا۔
جب پڑوسی کی زخمی بلی جسے
کسی نے اپنی گاڑی سے کچل کر ایک طرف پھینک دیا تھا سسکتی ہوئی ہمارے ڈرائیو وے میں
آگئی یہ بتانے کو دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ میں نے اپنی عبادت میں مخل ہونے پر برا
منہ بنا کر دروازہ کھولا۔ سامنے وہی پڑوسن کھڑی تھی جو اپنی ذہنی بیماری کی وجہ سے
سب سے الجھتی پھرتی ہے مجھے دیکھا تو جلدی سے واپس پلٹ گئی میں نے پڑوسی سے پوچھا
رات کے اس پہر کیا مسئلہ حل طلب ہے آخر اس نے گاڑی کی طرف اشارہ کیا وہاں کچھ سیاہ
سی چیز ساکت پڑی تھی
میں نے اس سے پوچھا یہ کیا ہے اندھیرے میں بغیر عینک کے مجھے ٹھیک
سے دکھائی نہ دیا
یہ اسی پڑوسن کی بلی ہے کسی گاڑی سے کچلی گئی ہے اور آپ کے گھر آ گئی ہے شائد اپنا
آخری وقت آپ کے ساتھ بتانا چاہتی ہے
آپ کو معلوم ہے میری دو بلیاں اور دو ننھی نواسیاں بھی یہاں رہتی
ہیں وہ اس زخمی جانور کو دیکھ کر ڈر جائیں گی آپ برائے مہربانی اسے اٹھا لے جائیں
. مجھے اپنے اس بے رحم رد عمل پر حیرت اور افسوس ہوا شائد کچھ پہلے یہ سب ہوا ہوتا
تو میں نے اسی وقت اس کی مرہم پٹی کی فکر کی ہوتی یا پھر ایس پی سی اے کو فون کیا
ہوتا مگر مجھے معلوم تھا کہ اس وقت سب کچھ بند ہو گا اور بلی بھی اپنے آخری سانس
لے رہی تھی – پڑوسی اسے اٹھا کر واپس لے گیا –
رات بھر بے چینی رہی نیند جانے کہاں چلی گئی تھی آنکھوں میں بلی کا
سراپا نہیں بلکہ اس معصوم لڑکی کی صورت گھومتی رہی کس کی گود اجڑی اور کس جوان
زندگی کو قبر کے حوالے کر دیا گیا صبح سب سے پہلے سڑک کے اس پار جا کر دیکھا وہ
سیاہ ریشمی بالوں والی بلی ایک گتے کے ٹکڑے پر آنکھیں موندے پڑی تھی اشرف
المخلوقات کے بے رحم رویوں کا شکار ہو کر آنکھوں پر ہاتھ رکھے دنیا سے روٹھ گئی
تھی – سوچ رہی ہوں اسے گارڈن میں لا کر دفنا ہی دوں۔
بشکریہ ہم سب