موراں سرکار‘ لاہور کی امرائو جان ادا

 
لاہور کے لوہاری دروازے کے اندر ‘ سارنگی سکول سے آگے۔ کفن دفن کی شاید واحد دکان سے کچھ فاصلے پر۔ چوک چکلا کے نواح میں ایک ایسی قدیم تاریخی حویلی جس کے تمام کمرے‘ خواب گاہیں‘ مہمان خانے‘ سب کے سب اندھے تھے ان میں سے کسی ایک میں بھی نہ کوئی کھڑکی تھی‘ نہ کوئی روزن نہ روشنی کا کوئی در۔
اسی لئے وہ’’اندھی حویلی‘‘ کے نام سے جانی گئی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اسے تعمیر کرنے والا شخص کون تھا۔ کوئی سِکھ سردار‘ کوئی مُغل شہزادہ یا کوئی سوداگر بے پناہ وسائل والا ‘ بہر طور یہ طے ہے کہ وہ جو کوئی بھی تھا۔ روشنی سے ڈرتا تھا۔ ممکن ہے وہ کوئی ایسا عیاش شخص ہو جو اپنے شوق اندھیروں میں پسند کرتا ہو۔
اندھی حویلی کی خواب گاہیں اور مہمان خانے صرف میرے تصور میں تعمیر ہو رہی ہیں ورنہ اندھی حویلی تو کب کی امتدادزمانہ کا شکار ہوچکی۔ پُرانی اینٹوں کی ایک محراب تلے صرف دو یا تین کوٹھڑیاں سی تھیں جو کبھی اندھی حویلی کے داخلے پر واقع تھیں اور ان میں سے ایک کوٹھڑی کا بوسیدہ دروازہ کھلا تھا۔
نیم تاریک کوٹھڑی میں ایک شکستہ پلنگ پر ایک بوڑھی عورت ہماری موجودگی سے بے خبر خلا میں تک رہی تھی۔ اُسے دیکھ کر مجھے جھرجھری سی آ گئی۔ وہ کون ہے جسے ابھی تک خبر نہیں کہ اس کے آس پاس جو شاندار حویلی ہوا کرتی تھی وہ کب کی ڈھے چکی تھی۔ اس کے ملبے پر قبضہ گروپ نے مکان تعمیر کر لئے تھے۔ میں نے ایک دو بار آہستہ سے کھانس کر اسے متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بدستور خلا میں تکتی رہی۔
شاید وہ بھی اندھی ہو۔ کیا پتہ وہ کبھی ایک شہزادی کے روپ میں اس حویلی میں اتری ہو۔ یہ شکستہ پلنگ اس کی سہاگ رات کا ہو اور وہ اب تک انتظار کر رہی ہے۔یہ کیا ہے کہ مجھے بھی کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی ایک اندھی حویلی میں بسیرا کرتا ہوں۔ جہاں کوئی کھڑکی نہیں جسے کھول کر میں تازہ ہوا میں سانس لے سکوں۔
کوئی روشندان نہیں جس میں سے کب کے غروب ہو چکے نہیں‘آج کے چمکتے سورجوں کی روشنی اندر آ سکے۔ یہاں میں وہ لکھ نہیں سکتا جو میرے دل میں ہے۔ وہ کہہ نہیں سکتا جو میری نوک زبان پر کب سے ابلاغ کا منتظر ہے۔ فرش پر جہالت اور تنگ نظری کے کیڑے مکوڑے رینگ رہے ہیں۔
ایسے بچھو گھات لگائے بیٹھے ہیں جو مجھے ڈس لیں گے اگر میں نے وہ کچھ کہا جو ان کے طے شدہ نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا: کوئی کچھ بھی کہے‘ کہے مجھے کیا بات جو میرے دل میں ہے‘ میں اگر آج اپنی زبان پر لا نہ سکا کل ‘ میرے بعد‘ تیری منڈلی پہ جب آگ برسے گی، کون بولے گا (لاہور‘ مجید امجد) ہم اندھی حویلی سے باہر آئے تو دھوپ سے ہماری آنکھیں چندھیا گئیں۔ ہم بھی اندھی حویلی کے اندھیروں میں گھومتے عارضی طور پر اندھے ہو گئے تھے۔
طوائف موراں تاریخ کا ایک ایسا گل رنگ اور اداس کردار ہے‘ شوخ و شنگ بھی اور پاکیزگی کی جانب مائل بھی۔ اس کی حیات کے بارے میں آسانی سے ’’امرائو جان ادا‘‘ سے کہیں زیادہ ٹریجک ناول لکھا جا سکتا ہے۔ اس کے حسن ‘ اس کی ادائوں اور رقص میں مہارت میں کچھ کلام نہ تھا۔ پھر وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی منظور نظر ہو گئی۔
وہ واہگہ کے پار‘ امرتسر کے نواح کے کسی گائوں کی تھی۔ روایت ہے کہ مہاراجہ اسے پانے کی خاطر لاہور سے واہگہ کے دوسری جانب ایک خاص مقام پر جایا کرتا تھا اور اس کی رفاقت اور رقص سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ ایک روز موراں بمشکل چلتی اس مقام پر پہنچی اور مہاراجہ سے کہا کہ آج میں رقص نہیں کر سکتی۔
مہاراجہ نے سبب پوچھا تو وہ کہنے لگی! راستے میں ایک چھوٹی سی ندی ہے جسے عبور کر کے آپ سے ملنے آتی ہوں۔ آج بارشوں کی وجہ سے اس کا پانی بہت یخ ہو چکا تھا میں اس کے پانیوں کو پار کرنے کے لئے اتری تو میرے پائوں بھی یخ ہو گئے اس لیے میں آج رقص نہیں کر سکتی۔ مہاراجہ نے حکم دیا کہ اس ندی پر ایک دن کے اندر اندر پل بنا دیا جائے تاکہ آئندہ موراں کو ندی میں سے نہ گزرنا پڑے۔
چند برس پیشتر جب میں واہگہ کی سرحد پار کر کے امرتسر جا رہا تھا تو راستے میں شاہراہ پر ایک بورڈ آویزاں نظر آیا جس پر ’’کنجری دا پل‘‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ پل وہاں سے تقریباً آٹھ کلو میٹر کے فاصلہ پر تھا اس لئے وہاں تک خواہش کے باوجود نہ جا سکا۔ بعدازاں مہاراجہ نے اسے اپنے حرم میں داخل کر لیا اور وہ طوائف موراں سے موراں سرکار کہلانے لگی کہ سرکار کا لقب صرف مہاراجہ کی قانونی بیویوں کے لئے وقف تھا۔
موراں سے مہاراجہ کی الفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ اس نے موراں کے نام کا سکہ جو لاہور ٹکسالی میں ڈھالا گیا تھا جاری کیا اور اس کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موراں کے کردار میں ایک تبدیلی آنے لگی۔ اس کا رجحان مذہب کی جانب ہو گیا اور وہ ایک عبادت گزار خاتون ہو گئی۔
عمر کے آخری حصے میں اس نے مہاراجہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے گناہوں کے کفارے کے لئے ایک مسجد تعمیر کروانا چاہتی ہے۔ مہاراجہ نے کھلے دل سے تمام وسائل مہیا کر دئیے اور ایک مختصر لیکن نہائت منقش اور دیدہ زیب مسجد وجود میں آئی۔ مقامی آبادی اس مسجد سے گریز کرتی تھی اور اسے ’’کنجری دی مسیت‘‘ کا نام دیا گیا۔
بہت مختصر سی مسجد جس کا بیشتر حصہ نئی تعمیر کی زد میں آ چکا ہے البتہ محراب کی دیوار تب تو اصلی اور پرانی حالت میں موجود تھی۔ لیکن آج خواہش کے باوجود میں اسے اندر جا کر نہ دیکھ سکا کہ انچارج مولوی صاحب اسے مقفل کر کے کسی ذاتی کام پر جا چکے تھے۔
لاہور کی سب سے عجوبہ مسجد ’’نیویں مسجد‘‘ ہے جو بازار کی سطح سے کم از کم تیس فٹ کی گہرائی میں اپنی شانداری کے قصے بیان کرتی ہے۔ شدید بارش کے باوجود اس کے صحن میں پانی کی بوند نہیں ٹھہرتی۔ اس میں ایک نامعلوم ڈھلوان ایسی ہے کہ سارا پانی قدیم مٹی سے بنے ہوئے پائپوں کے راستے متعدد کنوئوں میں غرق ہو جاتا ہے۔
پچھلی بار مجھے نکاسی آب کا یہ حیرت انگیز نظام دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا لیکن آج ’’نیویں مسجد‘‘ بھی کسی درس کی وجہ سے مقفل تھی۔ ہم نیچے نہ اتر سکے۔ بلکہ آج سویر جب میں اور فرید ریگل چوک سے مڑ کر ہال روڈ پر آئے تو کیتھڈرل سکول کے پھاٹک کے پہلو میں دوسری منزل پر واقع ایک کمرے کی وہ مسجد بھی مقفل تھی جو تقریباً ایک ہزار برس پرانی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ لاہور کی قدیم ترین مساجد میں ایک تو قلعہ لاہور میں تعمیر کی گئی تھی۔ دوسری داتا صاحب کے مزار کے ساتھ تعمیر ہوئی اور تیسری یہ ایک کمرے کی مسجد ہے جسے کچھ محقق لاہور کی سب سے پرانی مسجد قرار دیتے ہیں۔ ہم نے شکر کیا کہ مسجد وزیر خان کے در کھلے تھے اور یہاں اس کی خوش نمائی اور نقش گری کی سحر انگریزی میں نفل ادا کرنے میں کیسے کیسے لطف تھے۔
واپسی پر اگرچہ تھکاوٹ نے مجھے شکستہ کر دیا تھا پھر بھی جیلانی پارک میں سجے ہوئے گل دائودی کے پھولوں کو دیکھنے کے لئے اپنے آپ پر جبر کر کے چلا ہی گیا۔ سبحان اللہ گل دائودی کے دو رنگ‘ ایک عنبر اور ایک خزاں زدہ پتوں ایسا۔ شاید اس سویر صرف میرے لئے ہی تخلیق کئے گئے تھے۔
نمائش کے آغاز میں’’لاہور بانسائی سوسائٹی‘‘ کے ممبر اپنے تراشے ہوئے یہ مختصر درخت سجائے بیٹھتے تھے جنہیں دیکھ کر میں مزید خوش ہو گیا۔ یہ الگ بات کہ پارک کی سرد ہوا اور تھکاوٹ کے نتیجے میں ‘ میں مبتلا ہوا شدید زکام اور کپکپاتے بخار میں اور ایک ہفتہ بستر میں پڑا رہا۔ شائد مجھے گل دائودی کے کسی پھول کی یا پھر اندھی حویلی کی نظر لگ گئی تھی۔ لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو