تینتالیس سالہ سعادت حسن منٹو کا انتقال چونسٹھ برس پہلے اٹھارہ جنوری انیس سو پچپن کو ہوا۔دو ہزار پانچ میں منٹو کی پچاسویں برسی کے موقعے پر حکومتِ پاکستان نے پہلی بار پانچ روپے مالیت کا منٹو یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔دو ہزار بارہ میں منٹو کا صد سالہ جشن بھارت میں غیر سرکاری اور پاکستان میں سرکاری طور پر منایا گیا اور اس موقع پر بعد از مرگ ستارہِ امتیاز سے نوازا گیا۔
دو ہزار پندرہ میں سرمد کھوسٹ نے منٹو کے چند شاہکار افسانوںاور حقیقی زندگی کی اپنے طور پر تشریح کرتے ہوئے فیچر فلم بنائی جس نے سینما گھروں میں پانچ کروڑ روپے سے زائد کا بزنس کیا۔منٹو کو پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں لاتعداد بار تھیٹر کا موضوع بنایا جا چکا ہے۔زندگی بھر مالی کنگال منٹو کے کام اور نام کے صدقے جانے کب سے کتنے ناشر کتنے نوٹ چھاپ چکے ہیں اور چھاپ رہے ہیں۔
مگر منٹو آج بھی قبر میں لیٹا لیٹا تنگ کر رہا ہے، ہر چند برس بعد اسے کچھ تخلیقی معذور یا علمی بانجھ طرح طرح کے حیلہ ساز خنجروں سے بار بار ہلاک کرنے کی اپنی سی کوشش میں ہر بار اپنی سوچ کی نامردی چھپانے کی کوشش میں خود کو اور عریاں کر لیتے ہیں۔یوں منٹو کا قد کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔
مگر اس وقت میرا موضوع انفرادی ذہنی کج روی کے ماتم سے زیادہ تخلیقی جوہر سمجھنے، پرکھنے، سراہنے اور کسی ایک نتیجے پر پہنچنے کے اوصاف سے عاری وہ ریاستی سقراط ہیں جو بربنائے دماغ نہیں بلکہ بر بنائے عہدہ و اختیار کسی تخلیق کار یا شاہکار کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں کہ اس قوم کے لیے فلاں فلاں کتنا مضر ہے، کب مضر ہے اور کب نہیں، کب اس کا مضر ہونا عارضی معطل ہو سکتا ہے اور کب بحال کیا جا سکتا ہے۔
مجھے کوئی شکایت نہ ہو اگر بانجھ پن کے یہ چلتے پھرتے شاہکار کسی پینٹنگ، نثر، نظم، ڈرامے یا نصاب کو سنسر کرنے کا ہنر ہی کماحقہ جانتے ہوں اور بزعمِ خود کسی پر سیاہی یا سفیدی پھیرنے کے حق میں منطقی دلائل دینے کے ہی قابل ہوں۔
مگر المیہ یہ ہے کہ یہ بچارے خود بھی نہیں جانتے کہ کس شے کو کس بنیاد پر چھپانا یا دکھانا یا نیم دکھانا چاہتے ہیں۔انھیں تو بس کہا جاتا ہے کہ یہ کردو ورنہ ہم کچھ کر دیں گے۔
جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ منٹو کی چونسٹھویں برسی اٹھارہ جنوری کو ہو گی۔اس برسی کی مناسبت سے لاہور کی الحمرا آرٹس کونسل میں چودہ سے سترہ جنوری تک منٹو میلہ ہونا قرار پایا۔اجوکا، آزاد ، ساس فاؤنڈیشن سمیت کئی پرفارمنگ گروپس نے اپنی پرفارمنسز تیار کیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق تین روز قبل الحمرا کی انتظامیہ نے کوئی ٹھوس وجہ بتائے بغیر منٹو میلہ ملتوی کر دیا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ اگر یہ منسوخ نہیں بلکہ ملتوی ہوا ہے تو کب تک کے لیے ؟ یہ بھی تیرے میرے اندازوں پر چھوڑ دیا گیا کہ کس کے یا کن کے کہنے پر یہ اچانک فیصلہ ہوا۔
کچھ ایسا ہی پر اسرار ہاتھ نندیتا داس کی فلم ’’ منٹو‘‘ کے ساتھ بھی ہوا۔یہ فلم گزشتہ برس ستمبر میں بھارت سمیت دنیا بھر میں ریلیز ہوئی۔اس فلم میں نواز الدین صدیقی نے منٹو کا کردار نبھایا۔مگر نندیتا داس کے بقول سنسر بورڈ نے اس فلم کو نمائش کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا۔
کوئی باضابطہ وضاحت بھی سامنے نہیں آسکی۔ ’’نام نہ بتانے کی شرط پر ‘‘ یہی بتایا گیا کہ فلم میں تقسیمِ پاک و ہند کے بارے میں منٹو کے بیانیے اور کچھ بیباک مناظر کے سبب یہ فلم پاکستانی ناظرین کے لیے مضرِ صحت سمجھی گئی۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے منٹو کی نمائش پاکستان میں نہ ہونے پر ’’ افسوس‘‘ جتاتے ہوئے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ کوئی ڈسٹری بیوٹر اس فلم کو نمائش کے لیے اٹھانے پر تیار ہو جائے۔مگر فلم کی پروڈیوسر نندیتا داس کا کہنا ہے کہ مسئلہ ڈسٹری بیوٹر کا نہیں۔ہم نے تو پہلے ہی سے ایک ایسے تجربہ کار پاکستانی ڈسٹری بیوٹر کو اس فلم کے نمائشی حقوق دے دیے تھے جو کامیابی سے بھارتی فلمیں امپورٹ کرتا ہے۔
اس سے پہلے کہ کوئی اس کھکھیڑ میں پڑتا کہ اس سنسرانہ کہانی میں کون سا کردار سچ اور کون جھوٹ بول رہا ہے۔نیٹ فلیکس نے دونوں طرف کی عزت رکھ لی اور تیس نومبر کو یہ فلم اپنی ویب سائٹ پر ہر خاص و عام کے لیے ریلیز کر دی۔
اصل میں قصور وار خود منٹو ہے۔وہ خود ہی وہ پاگل ہے جو نہ ہندوستان میں رہنا چاہتا ہے نہ پاکستان میں بلکہ اس درخت پر رہنا چاہتا ہے جس کی اونچائی سے اسے دونوں طرف کا دیوالیہ پن ، ننگ اور منافقت کے ایک کے اندر ایک کھلنے والے کواڑ نظر آتے رہیں۔جس گھٹن سے گھبرا کر وہ بمبئی سے لاہور آیا وہی لاہور جب منٹو کی آوارہ روح کو قانونی و ماورائے قانون بیڑیاں نہ پہنا پایا تو بے اعتنائی کے رسے سے گھٹن کے تختہِ دار پر جھلا دیا۔
شائد یہی احساسِ جرم ہے جو کبھی ہمیں منٹو کو گلے لگانے پر راضی کرتا ہے اور کبھی ایک ڈراؤنے خواب کی طرح خود سے دور جھٹکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔کیا عجب فحش نگار ہے جس کے نشتر کی چبھن سے بچنے کے کبھی اس کی بھٹکتی روح کو یادگاری ڈاک ٹکٹ کی رشوت دی جاتی ہے، کبھی ستارہ ِامتیاز سنگِ مزار سے لٹکا دیا جاتا ہے۔مگر اس کی سیکڑوں کہانیوں میں سے کوئی ایک بھی اس قابل نہیں سمجھی گئی جسے اسکول لیول پر تعلیمی نصاب میں شامل کیا جا سکے۔
جو لال بھجکڑ ٹھنڈا گوشت ، کالی شلوار، بو ، کھول دو کو ہی پورا منٹو سمجھ لیں اور لاش کے ریپ ، تقسیم کے ہنگامے کی لہو رنگ مصوری اور انسان کے دماغی ہیجڑے پن میں بھی جنسی تلذز ڈھونڈھ لیں ان کے درمیان اگر منٹو آج بھی اپنی شرائط پر زندہ ہے تو یہی کتنی بڑی بات ہے۔
منٹو نے اپنی سب کہانیوں میں کل ملا کے جتنی دیدہ دلیری، نشتر زنی اور گلیاریت دکھائی اس سے دگنی تو ہم کسی بھی ایک ہفتے میں اپنے بچوں کو ٹاک شوز، پارلیمنٹ، پریس کانفرنسوں، فرقہ پرست ریلیوں اور جلسوں میں سنوا دیتے ہیں۔
مگر ان سب اور منٹو میں ایک فرق ہے۔یہ فٹ پاتھ پر بکنے والے عطر کی سستی فورتھ کاپی ہیں جس کی خوشبو لگاتے ہی بو میں بدل جاتی ہے اور یہ بو بھی گھنٹے بھر میں اڑ جاتی ہے۔جب کہ منٹو ایک نثری مصور ہے جو دل کے کینوس پر گھوڑے کے بالوں کے برش سے ہمارے انفرادی و اجتماعی بھدے پن کو اتنی ہی خوبصورتی سے پینٹ کرتا ہے اور یہ پینٹگ روز رنگ بدلتی ہے۔ایسی پینٹگ خریدنے کی اوقات تو خیر کیا ہوگی۔ سمجھ میں ہی آ جائے تو بڑی بات ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس