گزشتہ برس محکمہ زراعت بعض ناقابلِ اشاعت وجوہات کی بناء پر خاصا مقبول رہا۔ اس سال یہ مقبولیت ہماری یونیورسٹیز کے حصے میں آتی معلوم ہو رہی ہے۔ روزانہ ہی کسی نہ کسی یونیورسٹی سے ایسی خبر آتی ہے جو سننے والوں کے چودہ طبق روشن کر دیتی ہے۔ بحریہ یونیورسٹی اس معاملے میں پہلی پوزیشن پر ہے لیکن قوی امید ہے کہ یہ مقام جلد ہی یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کے نام ہو جائے گا۔
یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے اعلان کیا ہے کہ اس سال یونیورسٹی ویلنٹائنز ڈے کی جگہ سسٹرز ڈے منائے گی۔ اس دن طالبات میں یونیورسٹی کے نام والے سکارف، شال اور برقع بانٹ کر انہیں ان کے ساتھی لڑکوں کی بہنیں بنایا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر وائس چانسلر صاحب کے اس اعلان کا خوب مذاق اڑایا جا رہا ہے جس کی ہمیں بالکل پرواہ نہیں۔ سوشل میڈیا پر 5 سال برباد کرنے کے بعد ہمیں اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا ہے کہ یہاں کوئی دانشور نہیں بیٹھا ہوا۔ یہاں صرف وہ لوگ بیٹھے ہیں جن کے پاس حقیقی زندگی میں کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا اور یہ بس کی بورڈ سنبھالے ہر اچھی چیز میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔
ان ٹرولز کو سمجھ لینا چاہیے کہ وائس چانسلر صاحب کا یہ فیصلہ ملک و قوم کے وسیع ترین مفاد میں ہے۔ ویلنٹائنز ڈے کو سسٹرز ڈے کے طور پر منا کر زرعی یونیورسٹی پاکستان کی پہلی ایسی یونیورسٹی بن جائے گی جہاں فحاشی کا نشان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ دنیا بھر میں موجود ایسے والدین جو تعلیمی اداروں میں ہونے والی بے راہ روی سے پریشان ہیں، اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے یہاں بھیجا کریں گے۔
یہ قدم ان باپ اور بھائیوں کے لیے بھی راحت بخش ہے جو سردی گرمی میں اپنی بیٹی یا بہن کو یونیورسٹی سے لانے لیجانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اس سے پہلے جو لڑکا پیچھا کرتے کرتے لڑکی کو گھر چھوڑ کر آیا کرتا تھا، اب ایک بھائی کی ذمہ داری کے ساتھ یہ کام کیا کرے گا۔ ویسے بھی وائس چانسلر صاحب کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر وہ خاتون محفوظ ہے جو برقع اور سکارف پہنتی ہے۔ جب لڑکیاں برقع پہن کر گھر سے نکلیں گی تو اوباش لڑکوں کی کیا مجال کہ انہیں آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لیں۔
جو ناس پیٹی لڑکیاں فحاشی پھیلانے یونیورسٹی کا رخ کیا کرتی تھیں اب وہ پردے میں چھپی استغفراللہ کی تسبیح کیا کریں گی۔
کچھ لڑکیاں ایسی بھی دیکھنے میں آئی ہیں جو اللہ سے بھائی نہ ہونے کا شکوہ کرتی ہیں۔ چودہ فروری کے بعد ان کا یہ شکوہ بھی دور ہو جائے گا۔ دینے والا جب بھی دیتا، دیتا چھپر پھاڑ کے۔ ان لڑکیوں کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہوگا۔
کچھ لڑکیاں ایسی بھی دیکھنے میں آئی ہیں جو اللہ سے بھائی نہ ہونے کا شکوہ کرتی ہیں۔ چودہ فروری کے بعد ان کا یہ شکوہ بھی دور ہو جائے گا۔ دینے والا جب بھی دیتا، دیتا چھپر پھاڑ کے۔ ان لڑکیوں کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہوگا۔
دوسری طرف لڑکیوں کے یہ بھائی گریجویشن کے وقت اپنی ہر بہن کو جہیز کی کوئی نہ کوئی چیز تحفتاً دیں گے۔ یوں ایگریکلچر یونیورسٹی سے جو بھی لڑکی پاس آؤٹ ہو گی وہ ڈگری کے ساتھ ساتھ مکمل جہیز بھی لے کر آئے گی۔ وائس چانسلر صاحب کے دنشورانہ فیصلے کے بعد اب اس ملک میں کوئی بیٹی جہیز کی وجہ سے کنواری نہیں رہے گی۔ ہاں رشتے کے لیے تھوڑا سا خوار ہونا پڑے گا لیکن اس کا حل بھی موجود ہے۔ ایک یونیورسٹی میں پڑھنے والے آپس میں بہن بھائی ہوں گے۔ ان کی شادیاں دوسری یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طالب علموں سے ہو سکیں گی۔
بلاشبہ وائس چانسلر صاحب انعام کے حقدار ہیں لیکن ہمیں لگتا ہے کہ وہ طلبہ کے ساتھ زیادتی کر گئے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر جگہ لڑکیوں کو فوقیت دی جاتی ہے اور لڑکوں کو جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا جاتا۔ وائس چانسلر صاحب خود ایک مرد ہیں۔ انہیں کم از کم مرد و زن میں یہ تفریق نہیں کرنی چاہیے تھی۔
اس تفریق کو ختم کرنے کا بھی ایک حل میرے پاس ہے۔ اگر وائس چانسلر صاحب اس پر عمل کر لیں تو لڑکوں کے لیے بھی نایاب تحائف کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ اگر وائس چانسلر صاحب یونیورسٹیز کی تالہ لگی لیبارٹریز کو کھولیں اور وہاں مردوں کے لیے شرم و حیا اور تھوڑی سی عقل پیدا کرنا شروع کر دیں تو دس ہی روز میں اتنی پیداوار ہو جائے گی جو ان سمیت یونیورسٹی کے تمام طلبہ کے لیے کافی ہوگی۔ اس کے لیے لیبارٹریز کھولنا شرط ہے جو وائس چانسلر صاحب کے بس کی بات نہیں۔