اس خاتون نے اپنی زندگی کا آغاز چین کے ساحلی علاقے میں بطور سیکس ورکر کیا لیکن بعدازاں وہ پرتگال اور چین کے بحری فوجیوں کے لیے درد سر بن گئیں۔
یہ خاتون قزاق زنگ سی شاؤ، شی یانگ اور چنگ ژی کے ناموں سے مشہور ہوئیں۔ تشدد، سخت سزاؤں اور جسم فروشی کے لیے مشہور یہ خاتون سنہ 1844 تک زندہ رہیں۔ چنگ ژی اپنی حراست میں آنے والے افراد کو اذیت ناک سزائیں دیتی تھیں۔
چنگ ژی چین کے صوبے زینہوا کے علاقے گویانگ ڈونگ میں سنہ 1775 میں پیدا ہوئی تھی۔ مؤرخین ان کے خاندان کی تاریخ سے متعلق خاموش ہیں البتہ تاریخ میں ان کی زندگی اور کردار نے انھیں امر کر دیا۔
اٹھارویں صدی میں صرف مرد ہی بحری تجارت کرتے تھے اور اس دور میں بندرگاہوں اور ساحلوں پر سیکس ورکرز کا کاروبار عام تھا۔ مؤرخین کا ماننا ہے کہ چنگ ژی نے صرف چھ برس کی عمر سے جسم فروشی شروع کر دی تھی۔
بحری قزاق سے شادی
زنگ یی اور چنگ ژی کی ملاقات اس وقت ہوئی جب زنگ یی چین کی سلطنت پر حملہ آور ہوئے تھے۔ اس ملاقات کے بعد دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوئے اور سنہ 1801 میں شادی کر لی۔
زنگ یی نے چنگ ژی سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے حملوں میں سے جو بھی لوٹا مال حاصل کریں گے چنگ ژی اس میں سے آدھے حصے کی حقدار ہوں گی۔ چنگ ژی کو یہ شرط پسند آئی اور انھوں نے فوراً شادی کے لیے ہاں کر دی۔ تاریخ دانوں کے مطابق اس وقت اُن کی عمر 26 برس تھی۔
چنگ ژی کی زنگ یی سے شادی کے ایک برس بعد زنگ یی کے رشتہ دار زنگی کیی جو بحری قزاقوں کے سربراہ تھے کو گیون سلطنت کی فوج نے پکڑ لیا۔ انھیں ویتنام کی سرحد کے قریب یانگپنگ کے علاقے سے گرفتار کیا گیا اور قتل کر دیا گیا۔
اس وقت ایک بحری قزاق زنگ یئی چنگ اور گوین ان کی سلطنت کے خلاف لڑ رہے تھے۔ وہ ویتنام کے بادشاہ سوریاونشی کے وارثوں کے حق میں لڑ رہے تھے اور ان کے رشتہ دار زنگ کیی اس دور کے بڑے بحری قزاق تھے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زنگی کیی ان تمام ڈاکؤوں اور بحری قزاقوں کے سربراہ بن گئے جو زنگ کیی کے زیر سایہ تھے۔
زنگ یی نے مچھیروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک کم سن لڑکے زانگ باؤ سائے کو گود لیا۔ زانگ باؤ کی عمر اس وقت صرف 15 برس تھی جب انھیں سنہ 1798 میں اغوا کر کے بحری قزاقوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ زانگ باؤ مختلف حملوں میں اپنے والد زنگ یی کی مدد کرتا تھا۔
زنگ یی چینی سمندر میں پھیلے تمام بحری قزاقوں کو ایک جھنڈے اکٹھا کرنا چاہتے تھے تاکہ پرتگال، چینی، برطانوی اور فرانسیسی فوجوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
چنگ ژی بحری قزاقوں کی سربراہ بن گئیں
چنگ ژی نے زنگ یئی کے اس خواب کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا اور تمام بحری قزاقوں کے سربراہوں سے مذاکرات کر کے انھیں ایک پرچم تلے اکٹھا کر دیا۔ ان مذاکرات میں ان کے جسم فروشی کے دنوں کے تعلقات بھی کام آئے تھے۔
چنگ ژی اور ان کے شوہر زنگ یی کی کوششوں سے سنہ 1805 میں چینی سمندر میں موجود تمام بحری قزاق گروہ یکجا ہو گئے اور انھیں چھ مختلف رنگوں کے جھنڈوں کی فوج میں تقسیم کیا گیا۔ یہ فوجی گروہ لال، سیاہ، نیلے، سفید، پیلے اور کاسنی رنگ کے پرچم کی نمائندگی کرتے تھے۔
ان قزاقوں کو ان کے متعلقہ علاقوں میں تقسیم کیا گیا اور انھوں نے زنگ یی کی قیادت میں بیرونی فوجوں سے لڑنے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی۔
19ویں صدی کے اوائل میں زنگ یی بحری قزاقوں کا ایک طاقتور سردار بن کر ابھرا تھا جس کے زیر سایہ ستر ہزار سے زائد بحری قزاق اور 1200 سے زائد بحری جہاز تھے۔ اس سب طاقت کے پیچھے ان کی بیوی چنگ ژی کا ہاتھ تھا۔
لال رنگ کے جھنڈے کے قزاقوں کے گروہ کی سربراہی زنگ یی کرتا تھا۔
اس دوران چنگ ژی نے دو بچوں کو جنم دیا جن میں ایک زنگ ینگ شی کا جنم 1803 اور دوسرے بچے زنگ زونگ شی کا جنم 1807 میں ہوا۔ البتہ بعض تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ چنگ ژی نے کبھی کسی بچے کو جنم نہیں دیا تھا۔
یہ کہا جاتا ہے کہ دوسرے بیٹے کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد زنگ یی فوت ہو گیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 42 برس تھی۔
اس موقع پر چنگ ژی بحری قزاقوں کی سربراہی حاصل کرنے کی خواشمند تھیں اور چاہتی تھیں کہ ان قزاقوں کی کمان کسی اور کے ہاتھ میں نہ چلی جائے۔ اس لیے اس نے اپنے لے پالک بیٹے زنگ باؤ کی مدد سے اپنی طاقت کا استعمال کیا۔
یہ بھی پڑھیے
چنگ ژی کے ناجائز تعلقات
تاہم بحری قزاقوں کے خود ساختہ قوانین کے مطابق کوئی خاتون ان کی سربراہ نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس دور میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ کسی خاتون کا بحری جہاز پر ہونا بدشگون ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے چنگ ژی نے اپنے لے پالک بیٹے زانگ باؤ کو بحری قزاقوں کا سربراہ بنا دیا اور دھیرے دھیرے چنگ ژی نے زانگ باؤ کو اپنا کٹھ پتلی بنا لیا۔
چند غیر مصدقہ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ چنگ ژی کے اپنے لے پالک بیٹے زانگ باؤ کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔
زانگ باؤ صرف نام کا سربراہ تھا، قزاقوں کی اصل طاقت چنگ ژی کے ہاتھوں میں تھی۔ قزاقوں کے اس گروہ میں فوجی طرز کی تنظیم تھی۔ ان کی فوج میں بھی احکامات کو پورا کرنا لازمی تھا جبکہ حکم عدولی پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔
چنگ ژی حکم عدولی پر سخت سزائیں دیتی
چنگ ژی اپنے دور میں سخت سزائیں دینے کے لیے مشہور تھیں اور اس کی طاقت اور قزاقوں پر اثر کا خوف سب پر طاری تھا۔ اگر کوئی قزاق ساحلی علاقوں میں کسی عورت کے ساتھ بدتمیزی کرتا تو اس کے کان کاٹ دیے جاتے۔ یہاں تک کہ بعض سزاؤں میں انھیں سب کے سامنے ننگا کر کے قتل کر دیا جاتا۔
اس فوج میں لوٹے ہوئے مال کو جمع کروانے کے لیے ایک مال خانہ تھا، اس مال خانے میں لوٹا ہوا سامان جمع کروانے سے قبل ایک فہرست مرتب کی جاتی۔ اصول یہ تھا کہ لوٹے ہوئے مال کا 20 فیصد حصہ مال لوٹنے والے قزاقوں کو ملتا مگر اگر کوئی قزاق لوٹے مال کو چوری کرنے یا اس میں سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا تو اسے قتل کر دیا جاتا۔
یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ جو قزاق کسی ساحلی دیہات میں لوٹنے کی غرض سے داخل ہوں گے وہ کسی عورت کو نہ ریپ کریں گے نہ نقصان پہنچائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ باندی بنائی گئی خواتین کا ریکارڈ رکھا گیا تھا اور جو ان کے ساتھ بدتمیزی کرتا اس پھانسی دے دی جاتی۔
یہ وہ قوانین تھے جو قزاقوں کی فوج میں رائج تھے۔ تاہم بعض تاریخ دانوں کے خیال میں یہ قوانین زانگ باؤ نے بنائے تھے جنھیں چنگ ژی نے قبول کیا تھا۔
بحری جنگیں اور جارحانہ حملے
سنہ 1808 میں چنگ ژی کے کٹھ پتلی زانگ باؤ نے دریائے پرل کے کنارے دیہاتوں کو لوٹنے کے لیے ہمین کے جنرل لن گولیانگ کے جہازوں پر حملہ کیا۔ اس وقت تک قزاقوں نے چینی جنگی جہازوں پر جارحانہ حملہ نہیں کیا تھا۔ اس حملے میں 35 چینی جنگی جہاز تباہ ہوئے۔
بحری قزاقوں نے ہمین کے جزیرے ویئیوان کے مشرقی علاقے پر حملہ کیا۔ لیفٹیننٹ کرنل لن فا وو جنگ ہار گئے۔ ان دو حملوں نے دریائے پرل میں قزاقوں کے لیے راستہ صاف کر دیا۔
اس وقت چینی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے چنگ ژی نے سوچا کہ ان کا گروہ ایک فوج اور اپنے آپ میں ایک ناقابل تسخیر قوت ہے۔
سنہ 1809 میں کیونگ سلطنت کی صوبائی فوج کے رہنما سن کوانمو نے 100 جنگی بحری جہازوں کے بیڑے کے ساتھ جزیرہ دوانشان کے قریب قزاقوں کے ایک گروہ کا محاصرہ کیا۔ بحری قزاق پہلے ہی اس بارے میں چنگ ژی کو ہنگامی پیغام بھیج چکے تھے۔
جس کے باعث چنگ ژی کی فوج کے لال اور سفید جھنڈے والے گروہوں نے مل کر چین کے بحری جہازوں پر حملہ کر دیا اور اس کے وجہ سے سن کوانمو کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
اس جنگ کے دوران بحری قزاقوں کے سفید جھنڈے کے گروہ کے سربراہ لیانگ مارے گئے اور ان کی کمان میں تمام بحری جہاز بھی تباہ ہوئے جبکہ اس جنگ میں 25 چینی بحری جہازوں کو بھی تباہ کیا گیا۔
سفید جھنڈے کی گروہ کے نقصان پر طیش میں آ کر زانگ باؤ نے لال اور سیاہ جھنڈے کے گروہ کے ساتھ مل کر دریائے پرل کے قریب تمام جہازوں کو تباہ کر دیا۔
اس جنگ میں دو ماہ کے دوران تقریباً دس ہزار افراد ہلاک ہوئے جن میں سے دو ہزار عام شہری بھی تھے۔ اس دوران انھوں نے متعدد ساحلی دیہاتوں میں لوٹ مار کی اور سینکڑوں افراد کو یرغمال بنایا۔
چنگ ژی نے اس جارحانہ کارروائی میں پانچ سو بحری جہازوں کے بیڑے کی سربراہی کرتے ہوئے نگرانی کی تھی۔
اس دور میں مکاؤ پرتگال کے سلطنت کے زیر اثر تھا، کیونگ سلطنت نے قزاقوں سے چھٹکارا پانے کے لیے اس سے مدد طلب کی تھی۔ بحری قزاق اس سے قبل پی تیمور میں پرتگالی گورنر کے علاقے پر قبضہ کر چکے تھے۔
اس اقدام پر بدلے لینے کے لیے تیار بیٹھے پرتگالی ایسے ہی موقع کا انتظار کر رہے تھے۔
اس دوران انھیں خبر ملی کے چنگ ژی ٹنگ چنگ بندرگاہ پر اپنے خراب جہازوں کی مرمت کروانے پہنچ رہی ہیں۔ اس اطلاع پر اسے وہاں گھیرے میں لے لیا گیا۔
کیونگ سلطنت کی رہنما سنکوانمو کی سربراہی میں 93 بحری جہازوں نے اس فتح میں مدد کی۔ اس کارروائی میں فرانسیسی بحری فوج نے بھی حصہ لیا تھا کیونکہ فرانسیسی بحری تجارت کو بھی ان قزاقوں سے خطرہ تھا۔
یہ جنگ دو ہفتے جاری رہی اس دوران پرتگالیوں نے اپنے جہازوں کو کھو دیا۔ سن کوانمو نے اپنے جہازوں کو آگ لگا دی اور انھیں قزاقوں کے جہازوں کے ساتھ ٹکرانا شروع کر دیا۔ اس نے 43 سے زیادہ آگ لگے جہازوں کو قزاقوں کے جہازوں سے ٹکرانے کے لیے بھیجا لیکن تیز ہوا کی وجہ سے وہ اپنے جہازوں کے ساتھ ہی جا ٹکرائے اور انھیں تباہ کر دیا۔
چنگ ژی کے جہاز تباہ نہیں ہوئے تھے لیکن اس جنگ میں 43 قزاق ضرور مارے گئے تھے۔ چینی تاریخ میں اسے 'شیر کے منھ کی جنگ' کہا جاتا ہے۔
ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے بحریہ میں نوکریاں
بحری قزاقوں کے سیاہ جھنڈے کے گروہ کے سربراہ گوؤپودائی کو اس جنگ میں اپنی جان گنوانا بیوقوفی لگا لہٰذا اس نے اس جنگ میں چنگ ژی اور زانگ باؤ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
پودائی نے لیناگ گیوینگ کے وائس رائے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور اس کے لیے اسے ان کی بحری فوج میں سب لیفٹینٹ کے عہدے پر نوکری دے دی گئی۔
فوج میں شمولیت اختیار کرنے کے فوری بعد اس نے قزاقوں کی خوراک، تیل اور اسلحے کی رسد کے بارے میں بتایا گیا جس کو چینی فوج نے فوری کاٹ دیا۔
اس دوران کیونگ سلطنت کو یہ احساس ہوا کہ قزاقوں کے خلاف مزید جنگ لڑنا ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے لہٰذا انھوں نے چنگ ژی سے مذاکرات کرنے کا منصوبہ بنایا۔
چنگ ژی کو یہ پیشکش قبول کرنے کے لیے مجبور کیا گیا اور اس مذاکرات کو بیالنگ کی سربراہی میں کیا گیا۔
بیس اپریل 1810 کو زانگ باؤ اور چنگ ژی نے 17000 سے زیادہ قزاقوں، 226 جنگی جہازوں، 1300 توپوں اور 2700 ہتھیاروں کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے۔ کیونگ سلطنت نے زانگ باؤ کو 20-30 جہازوں کا لیفٹیننٹ بنا دیا۔
اپنے لے پالک بیٹے کے ساتھ شادی
چنگ ژی نے حکومت سے اپنے گود لیے ہوئے بیٹے زانگ باؤ سے شادی کرنے کی اجازت مانگی۔ چند ماہ بعد وہ شیئر کی قیادت میں قزاقوں کے نیلے جھنڈے والےگروپ کو شکست ہوئی۔
چنگ ژی اور زانگ باؤ نے ایک بیٹے اور ژانگ یولین نامی ایک بیٹی کو جنم دیا۔ زانگ باؤ کا انتقال 1822 میں 36 سال کی عمر میں ہوا۔ چنگ ژی واپس گوانگ ڈونگ چلے گئی۔ اس نے وہاں جوا خانہ اور جسم فروشی کے لیے قحبہ خانہ قائم کیا۔
چنگ ژی جو کبھی کئی سلطنتوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہوا کرتی تھیں کی 69 برس کی عمر میں رات کو سوتے میں وفات پا گئیں۔
بہت سے مورخین کا خیال ہے کہ چنگ ژی کی زندگی ایک سیکس ورکر کی کہانی ہے جو طاقت و اقتدار کی بھوکی، ضد، جنگی حکمت عملی اور دھوکے سے بھری ہوئی تھی۔ اس کی کہانی یہ پیغام دیتی ہے کہ ایک خاتون بھی تاریخ کا رخ موڑ سکتی ہے۔