یہ جیسے زیر آب دھماکہ ہو۔ جیسے ہی ایک مادہ مچھلی نے اپنے انڈے چھوڑے، ’کیموفلاج گروپر‘ کہلانے والی متعدد نر مچھلیوں نے اس پر اپنے سپرم پھینکے۔
یہ تصویر بحرالکاہل میں فاکاراوا اٹول جزیرے کے قریب لی گئی تھی اور اس کے لیے لورین بلیسٹا کو وائلڈ لائٹ فوٹوگرافر آف دی یئر کا اعزاز دیا گیا ہے۔
اس مقابلے کے ججوں کی چیئر پرسن روز کڈمین نے کہا کہ یہ تصویر تکنیکی بنیادوں پر شاندار مہارت کا مظاہرہ تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جزوی طور پر تو یہ (کیمرے کی سیٹنگ) کا کمال ہے، فل مون کے وقت کھینچی گئی مگر اس میں وقت کا عنصر بھی اہم ہے کہ کب تصویر کھینچنی ہے۔‘
ہر سال ’کیموفلاج گروپر مچھلیوں کے انڈوں اور سپرم پھینکنے کا سیزن جولائی میں ہوتا ہے۔ اس میں توقع کی جاتی ہے کہ تقریباً 20000 مچھلیاں آئیں گی اور ساتھ میں بھوکی ریف شارک مچھلیاں بھی پہنچ جاتی ہیں۔
حد سے زیادہ ماہی گیری کی وجہ سے کیموفلاج گروپر کے ناپید ہونے کا امکان بڑھتا جا رہا ہے مگر یہ تصویر ایک ایسے محفوظ علاقے میں لی گئی تھی جہاں ان کو پکڑنے کی ممانعت ہے۔
لورین بلیسٹا کہتے ہیں کہ انھوں نے اس مقام پر پانچ سال گزارے ہیں، 3000 گھنٹے زیرِ آب ڈائیونگ کی ہے تاکہ یہ مخصوص لمحہ عکس بند کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیے
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اس تصویر سے خاص لگاؤ ہے کیونکہ اس میں انڈوں سے بننے والے بادلوں کی شکل ہے جو ایک الٹے سوالیہ نشان کی مانند ہے۔ یہ ان انڈوں کے مستقبل کے بارے میں سوال ہے کیونکہ لاکھوں میں سے ایک انڈہ ہی بڑا ہو کر مچھلی بنے گا یا پھر شاید یہ ماحول کے مستقبل کے بارے میں سوال ہے۔ یہ ماحول کے مستقبل کے بارے میں اہم سوال ہے۔‘
نہ صرف وائلٹ لائٹ فوٹوگرافر آف دی یئر بلکہ ان مقابلوں میں زیرِ آب کیٹگری میں بھی یہی تصویر سب سے آگے رہی ہے۔
انڈیا کے دس سالہ ویدن آر ہیبر کو اس تصویر کے لیے جونیئر وائلڈ لائف فوٹوگرافر آف دی یئر کا اعزاز دیا گیا ہے۔ اس کا نام انھوں نے ڈوم ہوم رکھا ہے۔
اس تصویر میں پیچھے ہرے اور پیلے رنگ اصل میں رکشوں کے ہیں۔
روز کڈمین نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ اس میں انتہائی شارپ فوکس ہے۔ آپ اگر اس تصویر کو بڑا کریں تو آپ مکڑے کی ٹانگیں علیحدہ دیکھ سکتے ہیں۔ اور مجھے یہ انتہائی پسند ہے کہ اسے ایسے فریم کیا گیا ہے۔ آپ جالے کا پورا سٹرکچر دیکھ سکتے ہیں۔‘
ویدن اس تصویر کے بارے میں یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’اس کو فوکس کرنا انتہائی مشکل تھا کیونکہ جب بھی کوئی گاڑی گزرتی تھی تو جالا ہلنے لگتا تھا۔‘
1964 مں شروع ہونے والے وائلڈ لائف فوٹوگرافر آف دی یئر اعزاز لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں کروائے جاتے ہیں۔
ان مقابلوں میں ہر سال ہزاروں لوگ اپنی تصاویر بھیجتے ہیں۔ مندرجہ ذیل کچھ انفرادی کیٹیگری میں جیتنے والی تصاویر بھی ملاحضہ کریں۔
ایلیفنٹ ان دی روم، ایڈم اوزول، آسٹریلیا
ایڈم اوزول نے فوٹوجرنلزم کا اعزاز جیتا۔ ان کی تصویر میں تھائی لینڈ میں ایک چڑیا گھر میں ایک ہاتھی کو زیر آب پرفارم کرتے ہوئے دیکھایا گیا ہے۔ ہاتھیوں کے حوالے سے سیاحت ایشیا بھر میں بڑھنے لگی ہے۔ تھائی لینڈ میں اب جنگلوں سے زیادہ ہاتھی پنجروں میں بند ہیں۔
دی ہیلنگ ٹچ، کمیونٹی کیئر، برینٹ سرنٹن، جنوبی افریقہ
برینٹ سرنٹن کو فوٹوجرنلسٹ سٹوری ایوارڈ کا انعام دیا گیا ہے۔ ان کی تصاویر کی سیریز ان چیمپینزیز کے بحالی مرکز کی کہانی بتاتی ہیں جو کہ افریقہ میں جنگلی جانوروں کے گوشت کی تجارت کی وجہ سے یتیم ہو جاتے ہیں۔ تصویر میں مرکز کی ڈائریکٹر کو نئے آنے والے چیمپینزیز کی دیکھ بھال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ہیڈ ٹو ہیڈ، سٹیفانو انٹرتھنر، اٹلی
ڈبلیو پی وائی کو اس سال برف کے حوالے سے چند بہترین تصاویر موصول ہوئی ہیں اور یہ تصویر ’میملز بیہیویئر‘ کیٹیگری میں کامیاب ہوئی ہے۔ سٹیفانو انٹرتھنر نے اس میں دو سوالبارڈ رینڈیئر کی لڑائی کو عکس بند کیا ہے۔
ریفلیکشن، مجید علی، کویت
مجید علی نے چار گھنٹے ایک ٹریک پر سفر کیا تاکہ وہ 40 سالہ پہاڑی گوریلے سے جنوبی یوگینڈا میں ملاقات کر سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جتنا پہاڑی پر اونچا جا رہے تھے اتنی گرمی اور ہوا میں نمی بڑھ رہی تھی۔‘
روڈ ٹو روئن، ہاویئار لافونتے، سپین
ہاویئار لافونتے کی اس تصویر نے ’ویٹ لینڈ دی بگر پکچر‘ کی کیٹیگری جیتی ہے۔ اس میں 1980 کی دہائی میں تعمیر کردہ ایک سڑک دکھائی گئی ہے جو کہ ایک ایسے ویٹ لینڈ کو منقسم کرتی ہے جس میں سینکڑوں قسم کے پرندے، کیڑے اور دیگر جانور رہتے ہیں۔
سپنگ دی کریڈل، جل ویزن، کینیڈا، اسرائیل
جل ویزن ایک ماہر حیاتیات ہیں اور بہترین فوٹوگرافر بھی ہیں۔ ان کی تصویر میں ایک فشنگ مکڑے کو اپنا گھر بُنتے دیکھا جا سکتا ہے۔