میٹا ورس: بظاہر یہ بہت بڑی ایجاد ہو گی، لیکن آخر یہ ہے کیا اور ہماری زندگیاں اس سے کیسے تبدیل ہو سکتی ہیں؟


 ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کی طرف سے دوسری بڑی ایجاد میٹاورس ہو گا جو ابھی محض تصور کے طور پر موضوع بحث ہے۔

یہ تصور ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے ناموں جیسے فیس بک کے مارک زکربرگ اور ایپک گیمز کے ٹم سوینی کی توجہ اور وسائل اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔

میٹا ورس ہے کیا؟

کچھ لوگوں کے خیال میں میٹاورس انٹرنیٹ کا مستقبل ہے جبکہ عام لوگوں کے لیے یہ محض ورچوئل ریئلٹی کے بہتر ورژن کی طرح کا ہو سکتا ہے۔

یہ ورچوئل ریئلٹی کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے اور تصور ہے کہ یہ اتنا فرق پیدا کر سکتا ہے جتنا کہ سنہ 1980 کی دہائی کے کم درجے کے موبائل فون اور آج کے دور کے سمارٹ فون میں موجود فرق ہے۔

اس نئی ایجاد کے بعد کمپیوٹر استعمال کرنے کے بجائے میٹاورس کی ورچوئل دنیا میں جانے کے لیے آپ کو ایک ہیڈسیٹ استعمال کرنا ہو گا اور اس سے آپ تمام ڈیجیٹل انوائرنمنٹس سے رابطہ قائم رکھ سکیں گے۔

اس وقت زیادہ تر گیمنگ کے لیے استعمال ہونے والی ورچوئل ریئلٹی کے برعکس ورچوئل ورلڈ کسی بھی چیز مثلاً کام، کھیل، کنسرٹس، سنما اور باہر نکل کر گپ شپ کرنے کے لیے عملی طور پر استعمال کی جا سکے گی۔

زیادہ تر لوگوں کے خیال میں آپ تھری ڈی ایواٹار (تھری ڈی روپ) حاصل کر سکیں گے جو آپ کی نمائندگی کرے گا یعنی جس طرح آپ اسے استعمال کرنا چاہیں گے، کر سکیں گے۔

کیونکہ ابھی یہ محض ایک تصور ہی ہے اس لیے تاحال میٹاورس کی کسی ایک متفقہ تعریف پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

یہ اچانک کیسے ایک بڑی چیز بن گئی؟

ڈیجیٹل دنیا اور آگمینٹڈ ریئلٹی سے متعلق ہر چند برس بعد بات چیت ہوتی ہے۔ مگر اس کے بعد یہ عموماً بغیر کسی نتیجے کے ہی اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔

مگر دولت مند سرمایہ کاروں اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں میٹاورس کے بارے میں بہت جوش و خروش ہے اور کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اگر یہ انٹرنیٹ کا مستقبل بن جائے تو وہ پیچھے رہ جائیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی احساس ہے کہ پہلی مرتبہ ٹیکنالوجی تقریباً وہاں پہنچ گئی ہے۔ ورچوئل ریئلٹی گیمنگ اور کنیکٹیویٹی شاید اس نقطے پر پہنچ رہی ہیں جس کی اس کے لیے ضرورت ہے۔

اس میں فیس بُک کیوں شامل ہے؟

فیس بک نے میٹاورس کی تیاری کو اپنی بڑی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ اس نے اپنے اوکیولس ہیڈسیٹس کے ذریعے ورچوئل ریئلٹی میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور چند تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اُنھوں نے اسے اپنے حریفوں کے مقابلے میں اتنا سستا کر دیا ہے کہ شاید وہ نقصان میں بھی ہوں۔

اس کے علاوہ یہ کمپنی کام کی جگہوں اور سماجی میل جول کے لیے بھی ورچوئل ریئلٹی ایپس بنا رہی ہے، بشمول اُن ایپس کے جو حقیقی دنیا سے تعامل کرتی ہیں۔

A red-haired woman wears the Oculus Quest 2 headset in white, holding two controllers

،تصویر کا ذریعہOCULUS

مگر ماضی میں اپنے کئی حریفوں کو خرید لینے والی کمپنی فیس بک کا دعویٰ ہے کہ میٹاورس ’کوئی ایک کمپنی راتوں رات نہیں بنا لے گی‘۔ اس نے دوسری کمپنیوں کے ساتھ تعاون کا وعدہ بھی کیا ہے۔

فیس بک نے حال ہی میں غیر منافع بخش گروہوں کو پانچ کروڑ ڈالر کی فنڈنگ دی ہے تاکہ وہ ’ذمہ دارانہ طریقے سے میٹاورس کی تیاری‘ میں کردار ادا کریں۔

مگر کمپنی کا خیال ہے کہ میٹاورس کو حقیقت بننے میں ابھی 10 سے 15 سال مزید لگیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

میٹاورس میں اور کسے دلچسپی ہے؟

مشہورِ زمانہ ویڈیو گیم فورٹ نائٹ بنانے والی کمپنی ایپک گیمز کے سربراہ مسٹر سوینی طویل عرصے سے میٹاورس کے بارے میں اپنے عزائم کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

آن لائن ملٹی پلیئر گیمز دہائیوں سے کھیلنے والوں کو مشترکہ دنیا میں کھیلنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ یہ میٹاورس تو نہیں ہیں مگر ان میں کچھ تصورات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں فورٹ نائٹ نے اپنی پراڈکٹ کو وسیع تر کیا ہے اور اپنی ڈیجیٹل دنیا میں ہی کانسرٹس، برانڈ ایونٹس اور بہت کچھ منعقد کیا ہے۔ اس سے جن ممکنات کا اندازہ ہوا اس نے کئی لوگوں کو متاثر کیا، اور میٹاورس کے بارے میں سوینی کے وژن کو شہرت ملی۔

اس کے علاوہ دیگر گیمز بھی میٹاورس کے تصور کے نزدیک آتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر روبلوکس ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو ہزاروں انفرادی گیمز کو ایک بڑے ایکو سسٹم سے منسلک ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

اس سب کے دوران یونیٹی نامی تھری ڈی ڈیویلپمنٹ پلیٹ فارم ’ڈیجیٹل ٹوئنز‘ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جو حقیقی دنیا کی ڈیجیٹل نقول ہوں گی۔ دوسری جانب گرافکس کارڈ بنانے والی مشہور کمپنی اینویڈیا اپنی ’اومنی ورس‘ بنا رہی ہے جو اس کے مطابق ورچوئل، تھری ڈی دنیاؤں کو آپس میں منسلک کرنے والا پلیٹ فارم ہو گا۔

تو کیا یہ صرف گیمز سے ہی متعلق ہے؟

نہیں۔ میٹاورس کیا ہوگا، اس متعلق بھلے ہی بہت سے تصورات موجود ہوں مگر زیادہ تر تصورات میں انسانی تعلقات کو ہی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

مثال کے طور پر فیس بک اپنی ورک پلیس ایپ اور ہورائزنز نامی سوشل پلیٹ فارم کے ذریعے ورچوئل ریئلٹی میٹنگز پر تجربات کر رہا ہے۔ دونوں میں ہی اُن کے ورچوئل ایوٹار سسٹمز کا استعمال ہوتا ہے۔

Virtual avatars at a meeting in Facebook Workplace

،تصویر کا ذریعہREUTERS

ایک اور ایپ وی آر چیٹ کی توجہ آن لائن ملاقاتوں اور چیٹنگز پر ہے اور اس کا مقصد مختلف ماحول کا تجربہ کرنے اور لوگوں سے ملنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

اور بھی ایپس ہو سکتی ہیں جن کے بارے میں اب تک ہم نہیں جانتے۔

سوینی نے حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ وہ ایسی دنیا کا تصور کر رہے ہیں جہاں کاریں بنانے والی کسی کمپنی کے نئے ماڈل کو آپ (ورچوئل ریئلٹی میں) خود چلا کر دیکھ سکیں گے۔

شاید آپ جب آن لائن شاپنگ کر رہے ہوں تو آپ پہلے ڈیجیٹل کپڑے خود آزما سکیں اور تسلی ہونے پر ان کا آرڈر کر لیں۔

کیا اس کی ٹیکنالوجی موجود ہے؟

ورچوئل ریئلٹی نے حالیہ برسوں میں بہت ترقی کی ہے اور بلند قیمت ہیڈسیٹ انسانی آنکھ کو تھری ڈی میں دیکھنے کا دھوکہ بھی دے سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ عام زندگیوں میں بھی اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ گیمنگ کے لیے استعمال ہونے والا اوکیولس کوئیسٹ 2 وی آر ہیڈسیٹ 2020 میں کرسمس کے موقعے پر ایک مقبول تحفہ تھا۔

ڈیجیٹل اثاثوں کی ملکیت معلوم کرنے کے ایک قابلِ بھروسہ طریقے ’نان فنجیبل ٹوکنز‘ (این ایف ٹی) میں بڑھتی ہوئی دلچسپی بھی اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ ورچوئل معیشت کیسے کام کرے گی۔

اور زیادہ ترقی یافتہ ڈیجیٹل دنیا کو مزید قابلِ بھروسہ موبائل انٹرنیٹ کی ضرورت ہو گی جو فائیو جی کے آنے سے ممکن ہو سکتا ہے۔

فی الوقت سب کچھ اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ میٹاورس کا ارتقا (اگر ہوا تو) اگلی دہائی یا شاید اس سے بھی زیادہ عرصے تک بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان مقابلے کا سبب بنا رہے گا۔