ٹوئٹر کا الگورتھم دائیں بازو کی جماعتوں کو مدد دیتا ہے: تحقیق

 

ٹوئٹر کی اپنی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ دائیں بازو کی جماعتوں اور نشریاتی اداروں کی ٹویٹس کو بائیں بازو کے مقابلے میں زیادہ نمایاں کرتا ہے۔

سوشل میڈیا کے اس بڑے ادارے کا کہنا ہے کہ اسے اس بات کا پتہ اس وقت چلا جب اس نے تحقیق شروع کی کہ ٹوئٹر کا الگورتھم سیاسی مواد کو صارفین کے سامنے کس طرح پیش کرتا ہے۔

مگر ٹوئٹر نے یہ بات تسلیم کی کہ اسے اس کی وجہ نہیں معلوم اور یہ سوال زیادہ پیچیدہ ہے۔

ماضی میں ٹوئٹر کو قدامت پسندوں کے مخالف ہونے کے الزام کا سامنا رہ چکا ہے۔

اس تحقیق میں ٹوئٹر نے سات ملکوں میں سیاسی جماعتوں اور صارفین کی نشریاتی اداروں کا مواد شیئر کرنے سے متعلق ٹویٹس کا جائزہ لیا۔ ان ملکوں میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، جاپان، سپین، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔

اس نے یکم اپریل سے 15 اگست 2020 کے دوران لاکھوں ٹویٹس کا جائزہ لیا۔

اس تحقیق میں شریک محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ الگورتھم کے لحاظ سے وہ کون سی ٹویٹس تھیں جو زیادہ نمایاں رہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انھوں نے دیکھا کہ دائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور نشریاتی اداروں کی ٹویٹس کو الگورتھم نے بائیں طرف جھکاؤ رکھنے والوں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں کیا تھا۔

ٹوئٹر کی ایک ڈائریکٹر رومان چوہدری کا کہنا ہے کہ اب کمپنی کا اگلا قدم اس کی وجہ جاننا ہے۔

ریسرچرز کے خیال میں اس کا سبب ان حکمتِ عملیوں میں پایا جانے والا فرق ہو سکتا ہے جو صارفین تک رسائی کے لیے سیاسی جماعتیں اختیار کرتی ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے یہ بات سامنے نہیں آئی کہ ان کے الگورتھم نے ’شدت پسند نظریات کو مرکزی دھارے میں پائے جانے والے خیالات کے مقابلے میں زیادہ بڑھایا ہے۔‘

یہ پہلی بار نہیں کہ ٹوئٹر نے اپنے الگورتھم میں موجود تعصب کا پتا لگایا ہے۔

اس نے اپریل میں انکشاف کیا تھا کہ وہ اس بات کے تعین کے لیے تحقیق کر رہا ہے کہ کہیں اس کا الگورتھم ’غیر ارادی نقصان‘ کا باعث تو نہیں بن رہا۔

مئی میں کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ اس کے تصاویر کے خودکار کراپ کے نظام میں سقم ہے جو سیاہ فاموں کے مقابلے میں سفید فاموں اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو فوقیت دیتا ہے۔