علاؤ الدین خلجی جنھوں نے بادشاہت کے لیے اپنے چچا کو دھوکے سے قتل کروایا

 


آج سے پورے 725 برس قبل یعنی 21 اکتوبر 1296 کو دہلی سلطنت کے دارالحکومت دلی میں واقع قصر سفید اور قصر لال میں جشن کا ماحول تھا۔

اس روز اِن دونوں محلوں سے ہیرے موتی لٹائے جا رہے تھے، سونے، چاندی اور جواہرت تقسیم کیے جا رہے تھے اور شاہی خزانے کا منھ رعایا کے لیے کھول دیا گیا تھا کیونکہ اس روز علاؤ الدین خلجی کی تاج پوشی تھی۔

وہی علاؤ الدین خلجی جنھوں نے اس کے بعد مہرولی کے شمال میں کوئی کوس بھر کے فاصلے پر محل ہزار ستون تعمیر کروایا اور پھر تقریباً پورے ہندوستان پر اسی محل میں بیٹھ کر راج کیا۔

محل میں جشن کا سا سماں کوئی نیا نہیں تھا بلکہ یہ اسی دن سے جاری تھا جس دن علاؤ الدین خلجی نے اپنے چچا اور سُسر یعنی دہلی سلطنت کے سلطان جلال الدین کو دھوکے سے قتل کروا کر اپنی بادشاہت کا اعلان کیا تھا۔

اگرچہ سلطان جلال الدین کے قتل سے خوف و ہراس کی فضا بھی بن گئی تھی مگر مؤرخین کا کہنا ہے کہ علی گرشپ (علاؤ الدین کا اصل نام) نے علاؤ الدنیا والدین محمد شاہ السلطان کے لقب کے ساتھ 29 جولائی 1296 کو ظہر کے وقت اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔

علاؤ الدین نامی ایک کتابچے کے مصنف پرویز اشرفی لکھتے ہیں کہ ’جلال الدین کے واقعہ شہادت سے عوام و خواص کو علاؤ الدین سے نفرت ہو گئی۔ ان حالات کو بھانپ کر علاؤ الدین نے دکن سے جو مال غنیمت حاصل کیا تھا اسے عوام میں بے دریغ لٹایا۔ کہتے ہیں کہ دہلی سے آتے وقت اس نے ہر پڑاؤ پر پانچ پانچ من سونا ایک چھوٹی منجنیق (توپ) کے ذریعے لٹایا۔ اس کے علاوہ جو لوگ فوج میں آ کر بھرتی ہوتے انھیں سینکڑوں روپے انعام میں دیے جاتے تھے۔ دولت کی اس قدر بارش سے اس نے عوام کے ساتھ ساتھ عمائدین دہلی کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا۔‘

دریائے گنگا اور دریائے جمنا میں برسات کے پانی کی طغیانی کے سبب علاؤ الدین کو دلی تک پہنچنے میں کچھ وقت ضرور لگا لیکن بدایوں دروازے سے دلی میں داخل ہونے کے بعد جب جلال الدین کے چھوٹے بیٹے رکن الدین نے مقابلے کی ٹھانی تو اس کی فوج کا ایک حصہ علاؤ الدین سے جا ملا جس کے بعد رکن الدین رات کی تاریکی میں اپنی والدہ اور دوسرے جانثاروں کے ساتھ جو کچھ بھی محل سے لے جا سکتے تھے لے کر غزنی دروازے سے ملتان کے لیے روانہ ہو گئے جہاں ان کے بھائی کی عملداری تھی۔

علاؤ الدین خلجی کو جس طرح آج انڈیا میں ایک خاص طبقے کی جانب سے ایک وحشی، عیش پرست اور ظالم بادشاہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ اس کے برعکس ایک سمجھدار اور موقع شناس بادشاہ تھے جنھوں نے گپتا سلطنت کے بعد ہندوستان کے سب سے بڑے خطے پر حکومت کی اور دلی سلطنت کو دکن اور گجرات تک وسعت بخشی۔

جنگ

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

آکسفورڈ یونیورسٹی کے معین احمد نظامی کا کہنا ہے کہ ’علاؤ الدین خلجی ایک انتظامی ذہانت، ایک حوصلہ مند حکمران اور ایک عظیم سیاستدان تھے۔ ایک مضبوط اور نظم و ضبط کی فوج کے ساتھ انھوں نے بہت سی بغاوتوں کا خاتمہ کیا اور جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک کو کنٹرول کیا۔

’ان کی سب سے بڑی فوجی کامیابیوں میں سے ایک متعدد منگول حملوں سے ہندوستان کو محفوظ رکھنا ہے۔ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ امرا کی طاقت کو کنٹرول میں رکھا جائے اور انتظامی عہدیدار دولت اور طاقت حاصل نہ کریں جس سے ان کے تاج کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔‘

ابتدائی حالات

علاؤ الدین بادشاہ جلال الدین کے بڑے بھائی شہاب الدین مسعود کے گھر پیدا ہوئے اور ان کا نام علی گرشپ رکھا گیا۔ تاریخ دان محمد سعید احمد جعفری نے اپنی تصنیف ’سکندر ثانی سلطان علاؤ الدین‘ میں لکھا ہے کہ ’سلطان جلال الدین فیروز شاہ خلجی نے بدست خود اپنے ایک بھتیجے جس کا نام علاؤ الدین بن شہاب الدین مسعود تھا اس زمانے سے جبکہ وہ اپنی ماں کا دودھ پیتا تھا، نہایت ناز و نعم سے پالا۔‘

’یہ اسے اپنے بیٹوں سے بھی بہت عزیز رکھتا تھا۔ مارنا تو درکنار کبھی تیز نگاہ سے بھی اس کی طرف نہ دیکھا تھا۔ جس طرح عموماً امیروں کے بچے لاڈ پیار میں ایک حرف بھی پڑھ کر نہیں دیتے اسی طرح یہ بھی خالی ہی رہا اور خزانۂ علم سے بہرور نہ ہو سکا۔‘

’لیکن اس میں بچپن ہی سے شجاعت اور مردانگی کے آثار پائے جاتے تھے، سلطان جلال الدین جو کہ خود نہایت شجاع تھا یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کرتا تھا اور اس پر ہر وقت جان چھڑکنے کے لیے تیار رہتا تھا اور اس کی ذرا سی تکلیف سے سخت بے چین ہو جاتا تھا۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’جب سے (علاؤ الدین) ہاتھ پاؤں قابو میں آئے تو اپنے بدن اور قد کے موزں ہتھیار سنبھالنے لگا۔ شروع سے ہی تیر اندازی، نیزہ بازی، شکار اور گھڑسواری کا عاشق تھا۔ سن تمیز کو پہنچنے تک تمام فنون سپاہ گری میں وہ مہارت اور کمال پیدا کیا کہ سن رسیدہ اشخاص دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔ ضعیف سلطان چچا اپنے نونہال کے حرکات سکنات کا مشاہدہ کر کے باغ باغ ہوتا تھا مگر یہ خبر نہ تھی کہ جو دیکھ رہا ہوں یہ میری ہی موت کے سامان ہیں۔‘

کڑہ کی گورنری

علاؤ الدین خلجی کو کڑہ کی بغاوت کو کامیابی سے کچلنے کے بعد وہاں کا گورنر بنا دیا گیا تھا۔

اس کے بعد قرب و جوار کے علاقے کو دلی سلطنت میں ملانے پر ان علاقوں کا بھی ذمہ دار بنا دیا گیا۔ اس سے قبل علاؤ الدین کو سلطنت کا امیر تزک یعنی جشن کا ذمہ دار بنایا گيا تھا اور بادشاہ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی اپنے ایک بھتیجے علاؤ الدین سے کی جبکہ دوسری بیٹی کی شادی دوسرے بھتیجے اسلم بیگ سے کی جو کہ علاؤ الدین کا سگا بھائی تھا۔

بھیسلا اور مالوہ کی مہم کے دوران علاؤ الدین خلجی کو دیوگری کی دولت کا علم ہوا اور اس نے اپنے چچا کو بغیر بتائے اس پر حملہ کیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ لیکن اس نے دلی جانے کے بجائے کڑہ واپسی کی اور اپنے بھائی کو سلطان کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ علاؤ الدین ان سے بہت خوفزدہ ہے جس کے سبب وہ ان سے ملنے کی جسارت نہیں کر سکا اور اسے معافی نامہ دیا جائے۔

بادشاہ نے فورا معافی نامہ فراہم کیا اور پھر اسلم بیگ نے کسی طرح بادشاہ کو کڑہ کے سفر کے لیے راضی کر لیا جہاں روزے کی حالت میں بادشاہ کو قتل کروا دیا گیا اور علی گرشپ علاؤ الدنیا والدین بن کر ابھرا۔

علاؤ الدین اور رانی پدمنی کی کہانی

رانی پدمنی کی تصویر

،تصویر کا ذریعہNCERT

،تصویر کا کیپشن

رانی پدمنی کی تصویر انڈیا کی سرکاری کتاب میں

اگرچہ فارسی ماخذ میں رانی پدمنی کا کوئی ذکر نہیں ملتا لیکن ایک طبقہ اس بات پر مصر ہے کہ رانی پدمنی یا پدماوتی کے حصول کے لیے علاؤ الدین بادشاہ نے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔

معین احمد نظامی کہتے ہیں کہ ’علاؤ الدین خلجی نے سنہ 1303 میں چتوڑ پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا جکہ سولہویں صدی کے ایک صوفی شاعر ملک محمد جائسی نے 1540 میں ایک افسانوی، تمثیلی کہانی لکھی جس میں انھوں نے چتوڑ پر حملے کی وجہ چتور کے راجہ کی ملکہ پدمنی کو حاصل کرنے کی سلطان کی خواہش کو قرار دیا۔‘

ان کا کہنا کہ ہے کہ ’جس طرح کہانی میں رومانس، مہم جوئی اور المیہ آپس میں ملتے ہیں، اس نے لوگوں کے ذہنوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 17 ویں صدی کے دوران فرشتہ اور حاجی الدبیر کی کہانیوں سمیت کئی فارسی تاریخوں میں اسے بیان کیا گیا۔ راجپوتوں کی مقامی روایات پر انحصار کرتے ہوئے برطانوی افسر کرنل جیمز ٹوڈ نے اس کہانی کو مزید پرشکوہ انداز میں پیش کر دیا۔‘

معین احمد کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ کہانی غیر حقیقی اور تاریخی غلطیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ چتوڑ کی فتح کے بعد دو صدیوں سے زیادہ عرصہ بعد ایک صوفی کے رزمیہ میں بطور ایک تمثیلی کہانی کے لکھا گیا تھا اور یہ کسی حقیقی تاریخی واقعہ کی داستان نہیں ہے۔‘

’ابتدائی تاریخ دانوں، شاعروں یا مسافروں جیسے بارانی، اسامی، امیر خسرو، ابن بطوطہ، بہامید خان اور یحییٰ سرہندی میں سے کسی نے بھی پدمنی معاملہ کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔ امیر خسرو جو سلطان کے ہمراہ چتوڑ پہنچے اور محاصرے کا تفصیلی احوال دیتے ہیں اس طرح کے کسی واقعہ کا ذکر نہیں کرتے۔ اس طرح پدمنی کی کہانی صرف جائیسی کی پدماوت، روایتی کہانی میں اور ان حکایتوں میں پائی جاتی ہے جنھوں نے اسے پدماوت سے ادھار لیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ حالیہ فلم پدماوت میں علاؤالدین خلجی کی تصویر کشی ایک اہم تاریخی شخصیت کی سنگین غلط بیانی ہے۔ ایک ظالم، وحشی حملہ آور، اور ایک غیر مہذب عیش پرست کے طور پر اس کی تصویر کسی بھی تاریخی حقیقت سے مکمل طور پر عاری ہے۔

ادکارہ دیپکا پاڈوکون نے فلم میں رانی پدمنی کا کردار ادا کیا ہے

،تصویر کا ذریعہTWITTER

،تصویر کا کیپشن

ادکارہ دیپکا پاڈوکون نے فلم میں رانی پدمنی کا کردار ادا کیا ہے

لیکن جے پور میں تاریخ کے پروفیسر راجندر سنگھ کھنگروٹ کا کہنا ہے کہ چتوڑ کے رتن سنگھ کی کہانی کو علیحدہ طور پر نہیں دیکھا جا سکتا جن کی رانی پدمنی تھیں۔ رانا رتن سنگھ 1302 میں بادشاہ بنے تھے لیکن اس سے پہلے کے راجپوت بادشاہ بھی سلطنت کے ساتھ مسلسل لڑ رہے تھے۔

راجندر سنگھ کھنگروٹ وضاحت کرتے ہیں کہ ’علاؤ الدین خلجی اور رتن سنگھ کے تنازع کو علیحدہ طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ اقتدار کی جدوجہد تھی جس کی ابتدا محمد غوری اور پرتھوی راج چوہان کے درمیان سنہ 1191 میں ہوئی تھی۔‘

پروفیسر کھنگروٹ نے کہا: ’ترکوں اور راجپوتوں کے درمیان تنازع کے بعد دہلی سلطنت اور راجپوتوں کے درمیان تنازع شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد غلاموں سے شہنشاہ بننے والے لوگوں نے راجپوتانہ میں اپنے پاؤں پھیلانے کی کوشش کی۔ قطب الدین ایبک اجمیر میں سرگرم رہے۔ التمش جالور اور رنتھمبور میں سرگرم رہے۔ بلبن نے میواڑ میں کوشش کی، لیکن وہ سب کچھ خاص نہ کر سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ جدوجہد پہلے سے جاری تھی اور پھر خلجی آیا جس کا دور سنہ 1290 اور 1320 کے درمیان تھا۔ خلجی کو ان سب میں سب سے زیادہ حوصلہ مند سمجھا جاتا ہے۔ سنہ 1310 کا ذکر فارسی دستاویزات میں چتور کے بارے میں ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خلجی اقتدار چاہتا تھا اور سیاسی وجوہات کی بنا پر چتور پر حملہ کیا گیا۔

خلجی کی اصلاحات

دلی سلطنت کے ماہرین تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ امور سلطنت اور جہاں بانی میں علاء الدین خلجی سب سے آگے تھا۔ انھوں نے بازار کو منظم کیا۔

معین احمد نظامی کہتے ہیں: ’اپنی معاشی اصلاحات اور ایک منظم محصول کی پالیسی کے ذریعے انھوں نے اتار چڑھاؤ والے بازار کو کنٹرول کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ذخیرہ اندوزی یا قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ ذخیرہ اندوزی کے خلاف قوانین کو اس قدر سختی سے نافذ کیا گیا تھا کہ کسی تاجر یا اشیائے خوردنی فروش کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اناج کا ذخیرہ کرے یا سرکاری نرخوں سے زیادہ قیمت میں فروخت کرے۔‘

انھوں نے مشہور چشتی شیخ ناصر الدین چراغ دہلی کی گفتگو پر مبنی کتاب خیر المجالس کے حوالے سے بتایا: ’شیخ نے ایک بار علاؤالدین کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت چیزیں کتنی سستی تھیں۔ ان دنوں میں کوئی بھکاری ایسا نہیں تھا جس کے تن پر سوتی کپڑے نہ ہوں۔ علاؤ الدین چھوٹے لڑکوں کو بازاروں میں بھیجتے تھے تاکہ تاجروں کی ایمانداری اور سچائی کو جانچیں۔ مختلف ذرائع سے رپورٹیں حاصل کرتے اور مجرموں کو سزا دیتے۔‘

طوطئی ہند کا لقب پانے والے صوفی شاعر امیر خسرو نے علاؤ الدین خلجی کے دور پر مبنی ’خزائن الفتوح تحریر کی جو سنہ 1311 میں سامنے آئی۔ انھوں نے علاؤالدین کی تعریف فوج کے حوالے سے نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے اٹھائے جانے والے انتظامی اور معاشی اقدامات کے سبب کی ہے۔

سکہ

،تصویر کا ذریعہWIKIPEDIA

،تصویر کا کیپشن

علاؤ الدین خلجی نے اپنے سکے پر خود کو سکندر ثانی کہا ہے

معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ اگرچہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھا لیکن اسے سیکھنے اور مذہب پر یقین رکھنے میں بہت دلچسپی تھی۔ اس نے اپنے دربار میں علما، دانشوروں اور شاعروں کی ایک بڑی تعداد کو اکٹھا کر رکھا تھا۔ ان میں مشہور شاعر امیر خسرو، حسن سجزی (صوفی سوانح سیار الاولیا کے مرتب)، عین الملک ملتانی (جن کی انشا مہرو خوبصورت نثر کا مرقع ہے) کے ساتھ امیر ارسلان کولہی، کبیر الدین وغیرہ جیسے مؤرخین شامل تھے۔

علاو الدین کو اس وقت کے صوفیوں پر بھی بڑا اعتقاد تھا جن میں پانی پت کے بو علی شاہ قلندر اور دہلی کے نظام الدین اولیا شامل تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جن وجوہات کی بنا پر بارانی نے علاؤالدین کے دور حکومت کی تعریف کی ہے ان میں شامل ہیں: ’منگولوں کو کچلنا‘، ’ضروریات زندگی کی سستی اور کافی مقدار اور قلت کے موسموں میں اناج کی مقررہ قیمتیں‘ سڑکیں اور شاہراہیں محفوظ بنانا وغیرہ۔‘

عصر جدید کے معروف مؤرخ ہربنس مکھیا کا کہنا ہے کہ خلجی نے اپنے دور حکومت میں عوامی مفاد کے کئی کام کیے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ خلجی نے قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں بہت اچھا کام کیا۔

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے دلال یعنی بیچ کے آدمی سے لوگوں کو راحت دی۔

ظالم بادشاہ

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا علاؤ الدین ظالم بادشاہ تھا تو ہربنس مکھیا کا کہنا تھا کہ ’علاؤالدین کو اس وجہ سے ظالم کہنا کہ اس نے اپنے سسر کو قتل کرنے کے بعد دہلی سلطنت پر قابض ہوا تھا، ایسے تو بادشاہ اشوک نے حکومت کے لیے اپنے 99 بھائیوں کو قتل کیا تھا۔‘

بی بی سی کے ساتھ ایک دفعہ بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ لوگ بادشاہت کا مقابلہ جمہوریت سے کس طرح کر سکتے ہیں جبکہ دونوں کا معیار نقد الگ الگ ہے۔

علاؤ الدین خلجی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندو مخالف تھے اور انھوں نے بہت سے منادر توڑے لیکن یہ بہت درست نہیں ہے اور اس کے شواہد تاریخ میں ملتے ہیں کہ اس نے جو کچھ کیا وہ ملکی انتظامات کے تحت کیا اسے ہندو اور مسلم سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔

کمپریہنسو ہسٹری آف انڈیا میں لکھا گیا ہے کہ 19 اکتوبر 1311 کو خلجی نے ہزاروں نو مسلم کو دلی میں قتل کرا کے سنسی پھیلا دی۔

صفحات

،تصویر کا ذریعہBOOK/ SULTAN SALAHUDDIN

معروف مورخ ضیا الدین برنی کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اس وقت دہلی میں دس ہزار سے زیادہ نو مسلم تھے ان میں سے زیادہ تر منگول تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کئی سال سے بے روزگار تھے۔ جب سلطان علاؤ الدین صرف ایک کرتے میں اپنا باز اڑانے کے لیے آئے تو ان نو مسلموں کا ارادہ بادشاہ کو قتل کرنے کا تھا لیکن بادشاہ کو اس بات کا کسی طرح علم ہو گيا اور اس نے خاموشی سے ان سب کے قتل کا فرمان جاری کر دیا۔

برنی کا کہنا ہے کہ بادشاہ علاؤ الدین کو کسی چیز کا لحاظ نہ تھا نہ تو مذہب اور نہ ہی رشتہ داری یا دوسرے کے حقوق کا۔ کہا جاتا کہ ایک مخصوص دن ہزاروں نو مسلموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جن میں بیشتر کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بادشاہ کے خلاف کوئی سازش ہونے والی تھی۔

علاؤ الدین کے بارے میں کہا جاتا ہے اسے دنیا جیتنے کے شوق کے ساتھ نئے مذہب کی ابتدا کا بھی شوق تھا۔ لیکن ان کے ایک معتمد خاص نے انھیں اس بات پر قائل کر لیا کہ نئے مذہب کے لیے خدا خود پیغمبر کو منتخب کرتے ہیں اور یہ کسی بادشاہ کا کام نہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان سے پہلے کتنے ہی بادشاہ ہوئے کیا انھوں نے کوئی دین نافذ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

اسی طرح جب علاؤ الدین نے دنیا کو جیتنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ان کے اسی معتمد کا کہنا تھا کہ ان کے ہندوستان سے جانے کے بعد یہ سلطنت بھی ان کے ہاتھ سے جاتی رہے گی اس لیے انھیں پہلے اپنی اسی سلطنت کو مستحکم اور پائیدار بنانا چاہیے۔

علاؤ الدین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں نماز کے لیے بنیادی چیزوں کے علاوہ کوئی دینی علم نہیں تھا لیکن ان پڑھ لوگوں کی طرح ان کا دین میں پکا اعتماد تھا۔ وہ نماز تو پڑھتے تھے لیکن روزے کے پابند بالکل نہیں تھے۔

مقبرہ علاؤ الدین خلجی

،تصویر کا ذریعہNROER.GOV.IN

،تصویر کا کیپشن

علاؤ الدین خلجی کا دہلی میں مقبرہ

آخری وقت

علاؤ الدین خلجی اپنے آخیر زمانے میں بیمار رہنے لگے تھے اور ان کے بیٹے اور اہلیہ نے بھی ان سے بے اعتنائی برتنی شروع کر دی تھی۔ علاؤ الدین کی بیماری کو برنی نے استسقا یعنی پیاس کی شدت قرار دیا ہے جبکہ امیر خسرو نے جگر کا مرض بتایا جبکہ اسامی نے انتہائی درد کی بات کہی ہے۔ یعنی درد کی شدت سے وہ پاگل ہو گئے تھے اور تمام چیزوں سے بے پروا رہنے لگے تھے۔

مورخ فرشتہ نے اس کی بنیاد پر لکھا ہے کہ خضر خان اور بادشاہ کی اہلیہ ملکۂ جہاں نے بادشاہ کی دیکھ بھال کے بجائے جشن و طرب میں خود کو مشغول کر لیا اور سلطان کو اس کا بے حد رنج ہونے لگا۔ بڑے بیٹے خضر خان سیر و تفریح اور جشن و طرب کی محفلیں سجانے لگا، پولو کھیلنا اور ہاتھی کی لڑائی کرانا اس کا مشغلہ بن گیا اور اس کی وجہ سے بہت سے بے جا ساتھی اس پاس جمع ہونے لگے۔ امیر خسرو نے اپنی خضر خان پر لکھی اپنی تصنیف میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اگرچہ بادشاہ نے انھیں ولی عہد مقرر کر دیا تھا لیکن ان میں بہت اخلاقی گراوٹ آ گئی تھی۔

سرورق

،تصویر کا ذریعہREKHTA.ORG

علاؤ الدین نے یہ سب دیکھ کر ولی عہد کو معزول کر دیا اور اپنے خاص معتمد ملک کافور کو طلب کیا۔ لیکن جب ملک کافور نے بادشاہ کی حالت دیکھی تو وہ اپنی حکومت قائم کرنے کی فکر میں لگ گیا۔

مورخ اسامی کے مطابق آخری دن ملک کافور نے بستر مرگ پر بادشاہ کے حضور فوجی افسروں کو پیش کیا جہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ شہاب الدین عمر جو کہ رام دیو کی بیٹی جیتھاپلی کے بطن سے پیدا تھا کو بادشاہ بنایا جائے گا۔ شہاب الدین اس وقت تقریبا چھ سال اور چند ماہ کا تھا اس لیے اس کے نام پر امور مملکت ملک کافور کے ذمہ ہو گا۔ بادشاہ کی حالت بگڑتی گئی اور ان کے منھ سے ایک لفظ نہ نکلا اور ان کی خاموشی کی ہامی مان کر شہاب الدین کو ان کا جانشین قرار دیا گیا۔

اور پھر اسی رات دیر گئے چار جنوری 1316 کو بادشاہ نے آخری سانسیں لیں اور ملک کافور نے بادشاہ کی انگوٹھی نکال کر سنبل کو تھمائی جو کہ اس بات کا اختیار تھا کہ وہ فوری گوالیار جائے اور قلعے کی ذمہ داری سنبھالے اور واپسی سے قبل بادشاہ کے بڑے بیٹے خضر خان کو نابینا بنا دیا جائے اور یہ سب ہونے کے دوران ایک بار پھر سے دہلی سلطنت خلفشار کا شکار ہو گئی۔