ہماری زندگی بھی امتحان میں آئے پرچے کی طرح ہوتی ہے۔ جیسے ہم امتحان میں سوالات کو سمجھ نہیں پاتے اور غلط جواب لکھ دیتے ہیں پھر ظاہر ہے نمبر کٹ جاتے ہیں کبھی زیروبھی مل جاتا ہے اور اکثر پوائینٹ فائیو مارکس بھی کٹ جاتے ہیں بالکل اسی طرح ہم زندگی کو سمجھ نہیں پاتے اور ناکام رہتے ہیں۔ قدم بہ قدم نمبر کٹتے جاتے ہیں اور ہم مایوسیوں میں گھِرتے جاتے ہیں۔ زندگی بے رحم بن جاتی ہے۔ وہ لوگ جو بہت اہم ہوتے ہیں اور کہنے کو مضبوط رشتوں میں گندھے ہوتے ہیں سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ ساری زندگی ایک ساتھ گزارنے کے باوجود ہم ان کو اور وہ ہمیں سمجھ ہی نہیں پاتے۔ بالکل امتحان میں آئے سوالات کی طرح ’جسے اٹیمپٹ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ چارولاچار پرچہ حل کرنا پڑتا ہے۔
بس دونوں میں ایک فرق ہوتا ہے وہ یہ کہ امتحان میں کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں جن میں ہم لمبی لمبی ہانک سکتے ہیں اور اگر قسمت ساتھ دے جائے تو اگزیمینر جواب کی لمبائی چوڑائی اور پریزینٹیشن دیکھ کر نمبر دے دیتا ہے۔ لیکن زندگی بڑی ظالم ہوتی ہے ہر سوال کا بڑا ٹو دا پوائینٹ جواب مانگتی ہے۔ نہ تھوڑا سا اِدھر نہ تھوڑا سا اُدھر۔ اور تھوڑی سی غلطی پر نیگیٹو مارکنگ ہوجاتی ہے بس کامیاب وہی ہوتا ہے جو ذہین ہوتا ہے زندگی کے فلسفے کو سمجھ جاتا ہے صبر و استقامت کا دامن تھامے ’زندگی کے دیے امتحانات میں کامیاب ہوتا ہوا منزلیں طے کرتا جاتا ہے۔ اور وقت کے گزرتے دھارے کے ساتھ کندن بن کر ابھرتا ہے۔
پھر آتے ہیں وہ لوگ جو ٹھوکریں کھا کر بھی نہیں سمجھتے اور ہر ناکامی کا قصور وار قسمت کو ٹھہراتے ہیں۔ ہر بار ایک ہی غلطی کو دہراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ رزلٹ بھی انہی کی مرضی کا آئے۔ اپنی کی گئی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتے ’اپنا موازنہ نہیں کرتے خود میں تبدیلی لانے کے روادار نہیں ہوتے۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وقت کسی کا دوست نہیں ہوتا اور زندگی کسی کا خیال نہیں کرتی بس اپنے پیروں تلے روندتی چلی جاتی ہے۔ پھر اُس کی بلا سے کہ آپ بادشاہ ہیں یا فقیر۔ ۔ ۔
پھر آتے ہیں وہ لوگ جو خود کو اوور سمارٹ سمجھتے ہیں سارے سوالوں کو بخوبی سمجھنے اور حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن سمارٹنس کے نشے میں منہ کے بل گرتے ہیں۔ زندگی اپنا اصل روپ دکھا کر ان کے چودہ طبق روشن کر دیتی ہے۔
زندگی دراصل خود مشکل نہیں ہوتی بلکہ اس کے سوالات مشکل ہوتے ہیں۔ کس سوال میں کیا مطلب پنہا ہے ’کون سے سوال کا کتنا جواب دینا ہے‘ کس سوال کو پہلے حل کرنا ہے اور کتنا وقت لگانا ہے۔ بس یہ منطق سمجھ آجائے تو زندگی سہل ہو جائے۔
زندگی کی فلاسفی کو سمجھنے کے لئے عقل و فہم کے ساتھ ساتھ حوصلہ ’ہمت اور جذبہ ہونا ضروری ہے۔
قسمت بہت اہمیت رکھتی ہے انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے ’اپنی سوچ سے‘ اپنی محنت سے ’اپنے ارادوں سے۔ لیکن زندگی کے کچھ امتحانات ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان بے بس ہوتا ہے۔ چاہتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں پاتا۔ وقت اور حالات سے لڑتے لڑتے تھک جاتا ہے۔ زندگی کے امتحانوں کو سہتے سہتے خوش ہونا‘ ہنسنا ’بولنا اور جینا بھول جاتا ہے۔ رشتوں کو آپس میں باندھتے باندھتے خود کو‘ اپنی ذات کو بھول جاتا ہے۔ لوگوں کو خوش کرتے کرتے اپنی خوشیاں فراموش کر دیتا ہے۔
یہ زندگی اور اس کے امتحانات بہت ظالم ہوتے ہیں انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتے ہیں ’کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دیتے ہیں۔ انسان محور بن جاتا ہے اور دکھ‘ تکلیفیں ’پریشانیاں اور آزمائیشیں اس کے اردگرد گھومتی‘ ناچتی نظر آتی ہیں بے بس انسان بے چارہ چکرا کر رہ جاتا ہے کہ اب کرے تو کیا؟
ایسے میں اللّٰہ وسیلے بناتا ہے امیدوں کے نئے در کھولتا ہے اور انسان کو خود سے قریب کر لیتا ہے اور ایسی جگہوں سے مدد پہنچاتا ہے جہاں ہم انسانوں کی سوچ کی رسائی بھی نہیں ہوتی اور ہمارے لئے نئے در کھولتا ہے عقل و فہم کے ’آگاہی کے اور پھر انسان پرسکون ہو جاتا ہے خود کو اپنے رب کے حوالے کر دیتا ہے پھر کوئی غم‘ دکھ ’پریشانی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ وہ شعور کی منزلیں طے کرتا ہے جان جاتا ہے زندگی کو‘ قدرت کے رازوں کو اور خود کو سونپ دیتا ہے اپنے رب کی رضا پر اور پھر منزل پا لیتا ہے۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں اپنی خوشیوں کو ’اپنے خوابوں کو دوسروں کو خوش کرنے کے لئے قربان نہ کریں یہ نہ سوچیں کہ لوگ کیا کہیں گے لوگوں کا تو کام ہے کہنا کچھ تو کہیں گے۔ خوش رہنا اور جینا سیکھیں ہمیشہ اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور سب سے بڑھ کر اللّٰہ کا شکر ادا کرنا سیکھیں پھر حالات جیسے بھی ہوں امتحان کیسا بھی ہو اللّٰہ پر بھروسا سہ اور قوی یقین سارے بیڑے پار لگوا دے گا۔ انشا اللّٰہ۔