طلاق اور اولاد


بھائی کیا مرنے سے تمام پریشانیاں حل ہو جاتی ہیں؟

معصوم حیدر نے اپنے بڑے بھائی علی سے پوچھا

نہیں میری جان ایسا تم سے کس نے کہ دیا کہ مرنے سے تمان پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں؟

بھائی وہ۔ وہ۔ وہ

بولو بھی حیدر ( علی افسردگی سے پوچھا)

حیدر معصومیت سے اپنی قمیض کا گھیرا اپنی انگلیوں میں لپیٹتے ہوئے بولا

پھپھو نے کہا فون پر جب وہ رضیہ آپی سے کہ رہی تھیں ”یہ مرتے بھی تو نہیں ہیں اتنے دن ہو گئے نہ ان کے باپ کو خبر ہے اور نہ ہی ماں کو اور میں کون سی ان کی سگی خالہ ہوں وہ تو بس حارث سے اپنے بیٹے کی جاب لگوانے کی خاطر اس کی ہاں میں ہاں ملانی پڑی اور اس کے بچے گھر لے آئی یہاں اپنا پورا نہیں پڑتا ان کو کہاں سے کھلاؤں ایک مہینہ ہو گیا ان کے پیٹ بھرتے ہوئے اور عدالت کے چکر الگ کرائے جو لگ رہے ہیں ان کا حساب الگ“

علی کی آنکھیں نم تھیں دل افسردہ اس کو اپنے ابا حارث کی منہ بولی بہن کی باتیں بری نہیں لگی بلکہ اپنے معصوم بھائی کے منہ سے اتنے تلخ لفظ پہلی بار سنے تھے علی قابو نہ کر پایا اور ضبط کو تھامے نہ رکھ سکا اس نے حیدر کو گلے لگایا اور زور زور سے رونے لگا اور کہنے لگا

”اؤ میری جان میرے پیارے بھائی مشکل وقت ہے یہ میری جان تم اداس نہ ہوں یہ گزر جائے گا میں ہوں نہ تمہارا بڑا بھائی تم کیوں پریشان ہوتے ہو کاش میں جلد بڑا ہو جاؤں اور تمہارے سارے غم اپنے اندر سمیٹ لوں میری پہچان ہو تم کاش میں تمہاری یادوں میں سے یہ کڑوی یاد ہمیشہ کے لئے نکال کر پھینکنے میں کامیاب ہو جاؤں کاش تمہاری سماعت کو ایسے لفظ دوبارہ نہ برداشت کرنے پڑیں“

حیدر نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے بڑے بھائی کے آنسو صاف کئیے اور اس سے پہلے کہ علی نارمل ہوتا ایک اور سوال پوچھا

: ”بھائی کیا آج ہمیں ان میں سے کوئی ایک رکھ لے گا نہ یا آج بھی وہ ہمیں دیکھ کر منہ موڑ لیں گے جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں بھائی کیا ہم اتنے گندے بچے ہیں کہ ہمیں کوئی رکھنا نہیں چاہتا پیار نہیں دینا چاہتا؟ “

علی نے حیدر کے افسردہ چہرے پر شادابی لانے کے لئے اس کو گد گدی کرنا شروع کردی ( بنا اس کے سوال کا جواب دیے ) اس کو مسکرانے پر مجبور کر دیا۔

جب ہنستے ہنستے حیدر علی کی آغوش میں سو گیا

بھائی کو سوتے دیکھ علی مسکرایا اور پھر سے سوچوں میں گم ہو گیا

علی کی عمر آٹھ سال لیکن اس کو اس دنیا نے بہت سمجھدار بنا دیا تھا کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ

”یہ عمر نہیں وقت ہے جو بچے کو بھی بڑا بنا دیتا ہے“

وہ سوچتا اور روز سوچتا کہ کیا ایسے ہوتے ہیں ماں باپ جو ہمیں ہی رکھنا نہیں چاہتے اگر ہم سے محبت نہیں تھی تو ہمیں اس دنیا میں ہی کیوں لائے اس دنیا کی ٹھوکروں کو برداشت کرنے کے لئے ساری عمر ہر چیز خاص طور پر باپ کی شفقت ماں کا لاڈ ہمیں کون دے گا اور اس نے اپنے رخسار سے آنسو صاف کیے

پھر اسے اور رونا آیا اور ہچکیاں بند گیئں کیونکہ اب اس کی سوچ کچھ ایسے اندھیرے میں لے کر جارہی تھی جہاں اس عمر میں کسی بچے کا جانا ممکن نہیں

وہ، وہ دونوں اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہیں اماں بھی شادی کر چکیں اور ان کے شوہر ہمیں رکھنے پر راضی نہیں اود ہمارے ابا کو بھی نئی بیگم مل گئیں ہیں اور ان کو ہم برداشت نہیں

ہم کہاں جائیں ہمارا کیا قصور

ہمارا کیا گناہ تھا

کس بات کی سزا ملی ہے ہمیں

کاش واقعی ہم مر پاتے

لیکن استاد صاحب کہتے ہیں کہ ہر چیز کا وقت متعین ہے

تو میں کیسے ایسی بات کر سکتا ہوں یا اللہ مجھے معاف کر دینا

اس کی ہچکیاں نہ تھم سکیں اور وہ جانے کب تک ٹیک لگائے بیٹھا رہا اور پتہ نہیں کب نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

یہ ہے دنیا یا یوں کہیں خود غرض دنیا

جس میں ہمیں صرف اپنی خوشیوں کی پرواہ ہے اور اس خوشی کی راہ میں جو بھی آئے تو وہ قابلِ رحم نہیں ہے

میں نے تو سنا تھا کہ والدین اپنی اولاد کی خوشی کے لیے اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں

ہاں یہ سچ ہے آج بھی ہیں ایسے والدین جو واقعی ایسا کرتے ہیں ان کے لئے صرف ان کی اولاد سب سے پہلے اور اس بعد ان کی اپنی ذات

لیکن ان کے ساتھ ہی کچھ حیدر اور علی کے ماں باپ جیسے بھی ہوتے ہیں جو صرف خود کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنی اپنی زندگیاں نئے سرے سے شروع کرتے ہیں ایک دوسرے سے الگ ہو کر پھر چاہے ان کی علیحدگی سے ان کے بچے ہی کیوں نہ متاثر ہوں۔

افسوس ہائے افسوس