BALOCHISTAN ASSEMBLY |
- محمد کاظم
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
'میں ایک مولوی کے پاس دم کروانے گیا تھا جس کی وجہ سے مجھے اجلاس میں آنے میں تاخیر ہوئی۔‘
یہ کہنا تھا حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ناراض رکن لالہ رشید بلوچ کا جو گذشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے تاخیر سے اسمبلی پہنچے۔
اسمبلی کے مرکزی دروازے پر میڈیا کے نمائندوں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں تاخیر سے آئے تو انھوں نے بات کرنے سے گریز کیا تاہم جاتے ہوئے یہ کہا کہ ’طبیعت خراب تھی میں دم کروانے گیا تھا۔‘
گذشتہ روز پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں باقاعدہ تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی ہے جس پر رائے شماری 25 اکتوبر کو ہو گی تاہم اجلاس کے دوران اسمبلی کے ناراض گروپ نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے چند ساتھی لاپتہ ہیں۔
لالا رشید بلوچ کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی میں ناراض گروپ سے ہے۔ تاخیر سے اجلاس میں آنے پر بلوچستان عوامی پارٹی میں ناراض گروپ کے ترجمان سردار عبد الرحمان کھیتران نے دعویٰ کیا کہ ’لالہ رشید سمیت ان کے گروپ کے پانچ اراکین کو ’لاپتہ‘ کیا گیا ہے۔‘
ناراض گروپ کی جانب سے بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نامزد کیے جانے والے ظہور بلیدی نے الزام عائد کیا کہ ’جو اراکین لاپتہ ہیں ان کو جام کمال کی اقلیتی حکومت نے لاپتہ کیا ہے۔‘
تاہم وزیر اعلیٰ جام کمال نے کہا ہے کہ ’جس طرح بہت سارے دیگر اراکین اجلاس میں نہیں آئے اسی طرح یہ لوگ بھی اپنی مرضی سے اجلاس میں نہیں آئے ہیں۔‘
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سے ناراض اراکین اورحزب اختلاف کے متعدد اراکین رات گئے تک بلوچستان اسمبلی میں رہے جس کے بعد ان میں سے زیادہ تر اپنے گھروں کو جانے کی بجائے بعض اطلاعات کے مطابق حفاظت کی پیش نظر سپیکر بلوچستان اسمبلی کے گھر گئے اور رات وہاں گزاری۔
مبینہ طور پر ’لاپتہ‘ اراکین کون ہیں؟
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں ناراض گروپ کے ترجمان سردار عبدالرحمان کھیتران نے ’لاپتہ‘ کیے جانے کے حوالے سے جن پانچ اراکین کے نام لیے ان میں سے تین خواتین بھی شامل تھیں۔
اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ان میں سے لالا رشید بلوچ ایوان میں آ گئے۔ انھوں نے کہا کہ ’ان کو ویسے ہی تاخیر ہوئی اور وہ وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حامی ہیں۔‘
تاہم اسمبلی کی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے پہلے روز کے اجلاس میں جو اراکین شرکت کے لیے نہیں آئے ان میں بشریٰ رند، مہ جبین شیران، لیلیٰ ترین اور حاجی اکبر آسکانی شامل تھے۔
بلوچستان کی مخلوط حکومت چھ جماعتوں پر مشتمل ہے لیکن مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے تمام اراکین کا تعلق وزیر اعلیٰ کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔
اکبر آسکانی بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 48 کیچ سے منتخب ہوئے جبکہ تینوں خواتین بلوچستان اسمبلی میں خواتین کے لیے مختص مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئی تھیں۔
اکبر آسکانی جام کمال کی کابینہ میں مشیر برائے ماہی گیری تھے لیکن انھوں نے وزیر اعلیٰ سے ناراضگی کی بنیاد پر استعفیٰ دیا تھا۔
بشریٰ رند اور مہ جبین شیران پارلیمانی سیکریٹریز تھیں۔ انھوں نے بھی وزیر اعلیٰ سے ناراضگی کی بنیاد پر عہدوں سے استعفے گورنر بلوچستان کے حوالے کی تھیں۔
ان چاروں اراکین سے فون پر رابطے کی متعدد بار کوششیں کی گئیں لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا تاہم رات گئے ان میں سے بشریٰ رند کی ٹویٹ آئی۔
بشریٰ رند نے کیا کہا؟
بشریٰ رند کا شمار بلوچستان عوامی پارٹی کے ان اراکین میں ہوتا تھا جو کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی کارکردگی کی بہت زیادہ تعریفیں کرتی تھیں۔ انھیں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے پارلیمانی سیکریٹری برائے انفارمیشن مقرر کیا تھا۔
رات گئے انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جو ٹویٹ کی اس میں انھوں نے کہا کہ ’مجھے آپ لوگوں کی دعاﺅں کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ ’بہتر محسوس نہیں کر رہیں اور علاج کی غرض سے اسلام آباد میں ہیں۔‘
ٹوئٹر پر بشریٰ رند کی ٹویٹ کے بعد ٹوئٹر پر اکثر افراد نے ردِ عمل دیا اور جہاں کچھ نے ان کی خیریت دریافت کی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا وہیں اکثر افراد نے کہا ان کے اس ٹویٹ پر شکوک کا اظہار بھی کیا۔
ایک صارف نعیم بلوچ نے لکھا کہ 'اب پیر تک آپ بیمار ہوں گی؟‘
خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری آئندہ پیر کو ہو گی۔
ایک اور صارف عندلیب گچکی نے کہا کہ ’میڈم بیماریوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا ہے، کبھی بھی آ سکتی ہے۔ سن کے بہت افسوس ہوا۔‘
بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے رکن اختر حسین لانگو نے لکھا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ آپ کہاں ہیں۔ ہم اپنی بہن کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔‘
وزیر اعلیٰ سے ناراض رکن میر ظہور بلیدی نے کہا کہ ’اللہ آپ کو شفا عطا کرے اور بلوچستان کو تمام بیماریوں سے محفوظ رکھے۔‘
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بشریٰ رند کی ٹویٹ کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کتنا قابل رحم ہے۔ پہلے پی ڈی ایم نے الزام عائد کیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین لاپتہ ہیں۔ جب ایک رکن اسمبلی پہنچا تو انھوں نے دوسرا الزام عائد کیا کہ پارٹی کی خواتین اراکین لاپتہ ہیں۔ نیچے ان کے تمام جھوٹ اور الزامات کا جواب ہے۔‘
بلوچستان عوامی پارٹی جام کمال کے خلاف ایک اور بغاوت؟
بلوچستان عوامی پارٹی میں موجود ناراض اراکین نے میر ظہور بلیدی کو بلوچستان عوامی پارٹی کا پارلیمانی رہنما بنا دیا ہے۔
انھوں نے سپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبد القدوس بزنجو کو اس سلسلے میں باقاعدہ درخواست بھی دی کہ جام کمال کی بجائے ظہور بلیدی ان کے پارلیمانی رہنما ہیں۔
ایک بیان کے مطابق میر ظہور بلیدی کی صدارت میں ناراض اراکین کا اجلاس بھی ہوا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اجلاس میں ظہور بلیدی نے بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کو ہدایت کی کہ تحریک عدم اعتماد پر جام کمال کے خلاف ووٹ دیں اور جام کمال کے خلاف ووٹ نہ دینے والے اراکین کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘
یہ بھی پڑھیے
’اغوا برائے ووٹ کا پہلی بار سنا‘
جمعرات کو میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ 34 افراد کی اکثریت سے رائے شماری سے پہلے ہی وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد منطور ہوئی ہے اس لیے جام کمال خان وزیر اعلیٰ کے منصب پر رہنے کے حق دار نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لالا رشید بلوچ کو بھی حبس بے جا میں رکھا گیا اور دیگر اراکین کو بھی حبس بے جا میں رکھا گیا ہے۔‘
حزب اختلاف کے ایک رکن یونس زہری نے کہا کہ ’پہلے اغوا برائے تاوان کا سنا تھا لیکن اغوا برائے ووٹ کا پہلی بار سنا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 25 اکتوبر کو ہم اکثریت ثابت کریں گے۔
وزیر اعلیٰ جام کمال خان کا کیا کہنا ہے؟
اگرچہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری 25 اکتوبر کو ہو گی لیکن تحریک عدم کے حوالے سے گذشتہ روز جو پہلا اجلاس ہوا اس میں وزیر اعلیٰ کے مخالفین کی تعداد زیادہ تھی۔
وزیر اعلیٰ کے مخالف اراکین کی تعداد 34 تھی جبکہ وزیراعلیٰ اور ان کے حامیوں کی تعداد 19 تھی۔
تاہم اس کے باوجود وزیر اعلیٰ اور ان کے حامی پراعتماد دکھائی دے رہے تھے۔ تحریک عدم اعتماد کے اراکین کی جانب سے ایوان میں مطالبے کے باوجود وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 25 اکتوبر کو اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو وہ وزارت اعلیٰ کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔
انھوں نے کہا کہ کسی بھی رکن کو لاپتہ نہیں کیا گیا بلکہ جس طرح بہت سارے دیگر اراکین اجلاس میں نہیں آئے اسی طرح وہ اراکین بھی نہیں آئے جن کے بارے میں یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ اور ان کے حامیوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی۔