کرونا وائرس کے ہنگامے میں عورت مارچ کی بازگشت


عورت مارچ کی گرد تو اب بیٹھ چکی۔ کرونا وائرس کا غبار اب فضا میں ہے اور ایسے کہ عورت کے جسم پر اس کی مرضی کی بات سن کر بلبلانے والے اب اپنے جسموں کی سلامتی کے لئے کونے کھدروں میں جا بیٹھے ہیں۔ عورت مارچ مگر بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے۔ معاشرے میں کوئی سوال کسی جزیرے پر جنم نہیں لیتا اور خلا میں تحلیل نہیں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ کرونا کے ہنگامے نے ایک خاص زاویے سے عورت مارچ کے اٹھائے ہوئے سوالات کی تصدیق کی ہے۔ اپنے جسم کی سلامتی چاہنے والوں کی خیر ہو، عورتیں بھی اپنے جسم کی سلامتی، اپنی عزت کے تحفظ اور اپنے حقوق کی ضمانت مانگنے ہی سڑکوں پر نکلی تھیں۔
کون نہیں چاہتا کہ وہ اپنے گھر میں اپنے شہر میں اپنے ملک میں اپنی مرضی اور اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزارے، اپنی مرضی اور خواہش کو قوانین کے اندر ہی رکھ کر پورا کیا جاتا ہے پھر اپنے جسم پر اپنی مرضی کو اتنے منفی انداز میں کیوں لیا جا رہا ہے؟
دوسری بات جب میں کہتی ہوں کہ میرا جسم میری مرضی سے مراد یہ ہے کہ میں کسی کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ میرے جسم کی بے حرمتی کر سکے اور جواب میں کہا جاتا ہے کہ نہیں اس کا مطلب یہ نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جو میرے دماغ میں ہے اس کی تشریح دوسرے کر رہے ہیں۔
ہمارا بہت قریبی دوستوں کا ایک وٹس ایپ گروپ ہے۔ جب اس گروپ میں ”میرا جسم، میری مرضی“ پر بحث شروع ہوئی تو میں کافی پریشان ہو گئی اور میں نے کچھ دنوں کے لیے اس گروپ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ میری یہ سب دوست میرے دل کے قریب ہیں اور میں ان کو دکھ دے سکتی ہوں اور نہ وہ مجھے دکھ دے سکتی ہیں۔ یہ گروپ میری اپنی محفوظ جگہ ہے۔
مگر میں نے ان کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ میری ایک دوست جو یورپ میں مقیم ہے۔ بہت ہی سلجھی ہوئی خاتون، سمجھ دار، بڑے حوصلے والی، بہترین حس مزاح رکھنے والی، گولڈ میڈلسٹ، ماں باپ کی اکلوتی لاڈلی بیٹی۔ میں نے سوچا اس کا عملی زندگی میں کتنے مردوں سے ٹاکرا ہوا ہے۔ ایک بہت محبت کرنے والا باپ، تین جان چھڑکنے والے بھائی، کچھ یونیورسٹی کے ٹیچرز، چند ایک رشتے دار اور پھر ایک بھرپور محبت کرنے والا شوہر اور شوہر کے کچھ کولیگز اور اب دو بیٹے۔ اس کی پوری زندگی اور اس کی پوری دنیا میں بس یہہی مرد ہیں۔ پیدا ہونے سے لے کر آج تک کار میں سفر اور وہ بھی کسی کے ساتھ۔ کیا وہ نوکری پیشہ عورتوں کے مسائل سمجھ سکتی ہیں۔ جی ہاں وہ سمجھ سکتی ہیں! کیا وہ ان لڑکیوں کی بات سمجھ سکتی ہیں جن کے والدین ان کو کسی بات پر کسی وقت بھی مار سکتے ہیں۔ کیا وہ ان عورتوں کا درد سمجھ سکتی ہے جو دن میں کئی بار جنسی چھیڑ خانی سے گزرتی ہیں۔ ہاں وہ سمجھ سکتی ہے مگر اس عورت کی طرح نہیں جو ان سے گزرتی ہے۔ عورتوں کے جسم پر دوسروں کی اجارہ داری کوئی نئی بات نہیں ہے۔
سماجی تاریخ دان موجود عہد کو فورتھ ویو فیمنزم (Fourth wave Feminism) کہہ رہے ہیں (یعنی صنفی امتیاز کے خلاف جدوجہد کا چوتھا مرحلہ) جبکہ فیمنسٹ خواتین اس کو تھرڈ ویو فیمنزم (Third wave feminism) کا  حصہ سمجھتی ہیں۔ جہاں عورت اپنے جسم پر اپنا اختیار مانگتی ہے اور اس کو یہ اختیار ملے گا کیونکہ فرسٹ ویو فیمنزم نے ووٹ کا حق مانگا اور اج سب عورتیں یہ حق لے رہی ہیں اگرچہ سعودی عرب کی عورتیں اب بھی ووٹ کا حق مانگ رہی ہیں۔ سیکنڈ ویو فیمنزم (جو 1960 میں پروان چڑھی) نے نوکری کے حق اور اجرت میں برابری کی بات کی اور آج دنیا میں کروڑوں عورتیں پروفیشنلی کام کر رہی ہیں اگرچہ اجرت برابر نہیں ہے۔
پھر 1990 میں تھرڈ ویو فیمنزم آ یا جس نے فرد کی بات کی اور (diversity) تنوع کی یعنی  مختلف ہونے کی بات کی اور عورتوں کی مکمل خود مختاری کی بات کی، عورتوں کی صحت، گھریلو تشدد اور امتیازی قوانین میں تبدیلی کی بات کی اور اج ہمارے پاس ہراسمنٹ ایکٹ 2010ء موجود ہے۔
اور پھر 2010 میں فورتھ ویو فیمنزم آیا جس نے پالیسی سازی میں عورتوں کی برابری کی بات کی۔ یہ سچ ہے کہ یہ تمام تحریکیں مغرب سے شروع ہوئی ہیں اور پھر اہستہ اہستہ دنیا کے تمام ممالک میں پھیلی ہیں مگر ان کا فائدہ دنیا بھر کی عورتوں کو ہوا ہے۔ فورتھ ویو فیمنزم صرف عورت کی بات نہیں، یہ مرد، سس عورت، ٹرانس عورت سب کی شمولیت کو یقینی بنانے کی بات کرتی ہیں۔
آج اگر ہماری اسمبلیوں اور سینٹ میں جے یو آئی یا جماعت اسلامی کی عورتیں بیٹھی ہوئی ہیں تو اس کے پیچھے عورتوں کی جدوجہد ہے، ان تحریکوں کا بڑا اہم کردار ہے جن کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی کہا گیا یہ عورتیں مردوں سے الگ دنیا بسانا چاہتی ہیں کبھی کہا گیا یہ خاندانی نظام کو تباہ کرنا چاہتی ہیں اور اسی طرح کی تنقید کی گئی مگر آج عورتیں اسمبلیوں میں بیٹھ کر بات کر رہی ہیں۔
آج ہماری نوجوان بچیاں اگر بغاوت کر رہی ہیں تو انھیں کرنے دیں۔ ان سے ان کی جگہ مت چھینیں بلکہ ان کو محفوظ جگہیں دیں جہاں پر وہ کھل کر اپنی بات کر سکیں، دل کی بات، دماغ کی بات، عقل کی بات دلیل کے ساتھ۔ اگر ہم ان کی بات نہیں سنیں گے تو ان میں سے بہت سارے بچے نوجوان ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے اور کچھ آہستہ آہستہ منافقت سیکھ لیں گے اور کچھ درد دل میں دبا کر زبان میں تلخی پیدا کر لیں گے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کے لیے محفوظ جگہیں (safe spaces) پیدا کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ان کی آواز دبانے، ان کی امنگیں کچلنے اور ان کا جینا حرام کرنے کی کوشش کی جائے۔