گہری نیند تھی، پر آنکھ کھل گئی۔ فضا میں جلترنگ کا شور تھا جو روح کی گہرائیوں میں اتر رہا تھا۔ کمرے میں بہت ہلکی روشنی تھی اور چھت پہ بنی ہوئی شیشے کی کھڑکی پہ ساز بج رہا تھا۔ سارے کے سارے سر۔ بہت لطف انگیز کیفیت تھی، دل چاہ رہا تھا وقت کا سمے تھم جائے۔
کچھ مہینے پہلے کی بات ہے، بڑی بیٹی نے ذکر کیا کہ اس کو اپنے ماسٹرز کے سلسلے میں کچھ دنوں کے لئے پیرس جانا ہو گا۔ ہم کافی سال پہلے بچوں کے ساتھ وہاں جا چکے تھے۔ چونکہ چھوٹی بیٹی اس وقت بچی تھی اس لئے فورا مچل گئی کہ اس کو بھی بہن کے ساتھ جانا ہے۔ اب مچلنے کی باری تھی ہمارے دل ناداں کی، کہ دل ڈھونڈتا تھا فرصت کے رات دن۔ چھٹی کا جدول دیکھا تو پتہ چلا کہ ہم بھی دل کی مان سکتے ہیں سو طے یہ پایا کہ ہم تینوں ماں بیٹیاں پیرس یاترا کو نکلیں گی۔ صاحب اور صاحب زادہ، دونوں گھر ٹھہرنے کے لئے تیار تھے۔
ٹکٹ بک کروائے گئے۔ رہنے کے سلسلے میں ایک بات طے تھی کہ سنٹرل پیرس سے زیادہ دور نہیں اور کسی دوست احباب یا رشتے دار کے گھر نہیں۔ ہر دو صورتوں میں ہمارے تجربات زیادہ خوش گوار نہیں ہیں سو دوسری دفعہ ڈسے جانے کی ہمت نہیں۔
جب سے روایتی ٹیکسی کی جگہ اوبر نے لی ہے اسی طرح روایتی ہوٹل سویٹ بھی ائیر بی این بی کے اصلی گھروں سے بدل چکے ہیں۔ یہ ایک ویب سائٹ ہے جو دنیا بھر میں گھروں کو کرائے پہ چڑھاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ گھر صرف کرائے کے لئے ویب سائٹ کو دیا گیا ہو۔ اگر آپ کچھ دنوں کے لئے گھر سے باہر ہیں اور کچھ پیسے کمانا چاہتے ہیں تو اپنا گھر، تمام لوازمات کے ساتھ کرائے پہ دے سکتے ہیں۔ ہماری صاحب زادیوں کو یہ سہولت بہت پسند ہے۔ بقول ان کے ہوٹل میں ہر کوئی بہت زیادہ دوسرے کے سر پہ سوار ہوتا ہے۔ اور موڈ خراب ہونے کی صورت میں کوئی جائے فرار نہیں ہوتی۔
سو فیصلہ یہ ہوا کہ پیرس کے زون ون میں گھر کی تلاش کی جائے جہاں سے ہر جگہ جانا آسان ہو۔ کچھ تلاش کے بعد ائیر بی این بی پہ گھر بک کیا گیا جو کسی ماریا نامی خاتون کا تھا وہ ان ہی دنوں میں کہیں اور جا رہی تھی۔ سو گھر ہمارے حوالے کرنا چاہتی تھی۔ گھر زون ون کی ایک بلڈنگ میں تھا، دو بیڈروم، لونگ روم، اورگھر تصویروں میں گھر تھا، مکان نہیں۔
رات تھی اور باہر چھاجوں مینہ برس رہا تھا۔ بوندوں کی تواتر رم جھم نے ایک ایسی لے کو جنم دیا تھا جو میرے دل پہ اترتی تھی۔ عجب سرشاری سی سرشاری تھی۔ زمانیت ومکانیت، لامحدودیت میں بدل جکی تھی۔ خواب تھا یا حقیقت، کچھ علم نہ تھا۔ پر جو بھی تھا، من نے چاہا کہ وقت رک جائے اور کائنات کا یہ لمحہ ابد ہو جائے۔
پیرس پہنچنے کے لئے گلف ائیر اور سات گھنٹے۔ وہی اجنبی مسافر جو ہمراہ ہو کے بھی ہمراہ نہیں ہوتے۔ وہی سب کا منزل پہ پہنچنے کی بے تابی اور پیچھے رہ جانے والوں کی جدائی۔ ہمیں بے تابی تو تھی مگر صرف پہنچنے کی، دیکھنا چاہتی تھی کہ پیرس دس سال بعد کیسا ہے۔ ائرپورٹ سے اوبر لی، اپنی منزل کا کوڈ بتایا۔ ہماری میزبان یا گھر کی مالکہ نے چابی اپنی سہیلی کو دے کر بھیجا تھا سو وہ اب ہمارے انتظار میں تھی۔ وہی دھلی دھلائی سڑکیں، بھیگی بھیگی صبح، طلوع ہوتا ہوا سورج، ٹریفک کی قطاریں، یورپ کا روایتی روپ۔
منزل آگئی، پرانی مگر بہت صاف ستھری بلڈنگ، تیسری اور آخری منزل پہ ہمارا فلیٹ۔ جی ہمارا، ایک ہفتے کے لئے کہ گھر تو مکینوں سے ہوتا ہے اور اب ہم مکین تھے۔
درمیانے سائز کا لونگ روم، ایک کونے میں کچن کے ساتھ۔ ماڈرن کچن ہر قسم کی سہولت موجود۔ بہت آرام دہ فرنیچر اور پورا گھر خاتون خانہ کی تصویروں سے سجا ہوا۔ پینتیس چالیس سالہ خاتون، سمندر کے کنارے ہیٹ پہنے ہوئے، پہاڑ کی چوٹی پہ اڑتے بالوں کے ساتھ، شادی کی تقریب میں چرچ کی بنچ پہ بیٹھے ہوئے، سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے، کرسمس ٹری کے ساتھ، اپنی ہی عمر کے ایک مرد کے ساتھ بے تحاشا ہنستے ہوئے، کالا لباس پہنے ہوئے ڈانسنگ فلور پہ، کسی ریسٹورینٹ میں دو ادھیڑ عمر لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے۔ کون ہوں گے، ماں باپ؟ اور یہ مرد، شوہر، پارٹنر یا بوائے فرینڈ؟ ہم تصویریں دیکھتے ہوئے تخیل کے گھوڑے دوڑا رہے تھے اور بیٹیاں سامان سیٹ کر رہیں تھیں
” امی، امی، ذرا اوپر تو آئیے“
چھوٹی نے پکارا
”اور سنیے، دھیان سے آئیے گا، سیڑھی بہت چھوٹی ہے“
چھوٹی نے پکارا
”اور سنیے، دھیان سے آئیے گا، سیڑھی بہت چھوٹی ہے“
اب جو نظر اٹھا کے دیکھا تو کونے میں لکڑی کی چھوٹی سی سیڑھی پائی جو اوپر سٹڈی روم تک جا رہی تھی سٹدی روم کیا تھا، دو چھوٹے چھوٹے بیڈ رومز کے درمیان ایک بالکونی تھی جہاں سے پورا لونگ روم نظر آتا تھا۔
”امی، بیڈ روم میں آئیے“
ہمارا سامان ایک بیڈ روم میں رکھا جا چکا تھا۔
ہمارا سامان ایک بیڈ روم میں رکھا جا چکا تھا۔
بہت چھوٹا سا بیڈ روم، بہت آرام دہ بستر اور کونے میں ٹی وی کے ساتھ۔ اور کمرے میں چمکتا ہوا سورج، گرمائی، ڈھیروں اجالے کے ساتھ۔ حیران ہو کے چھت کی طرف دیکھا توسمجھ آگئی کہ ہماری بیٹیاں کیوں بے تاب ہو کے ہمیں بلا رہی تھیں۔ وہ جانتی ہیں کہ نیلاہٹ بھرا، لامحدود آسمان اور گرم جوش، توانائی بھرا سورج ہماری زندگی میں کیا مقام و اہمیت رکھتا ہے۔ کمرے کی آدھی چھت شیشے سے بنی تھی اور سورج کی کرنیں چھن چھن کے کمرے میں پہنچ رہیں تھیں آسمان پہ اکا دکا بادل تیر رہے تھے۔ دل ایک انجانی سی مسرت سے بھر چکا تھا۔ ہم پاکستان میں جب کسی کو کمرے میں روشنی کی خاطر بتی جلاتے دیکھتے تو فورا یہ سوچتے کہ چھت میں سورج کے لئے کھڑکی کیوں نہیں بنائی جا سکتی۔ ہم اتنے روشن ملک میں رہتے ہوئے اس کا بھرپور فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے اور اب ہم اپنی سوچ کو عملی صورت میں دیکھ رہے تھے۔
اور اب رات تھی، موسلا دھار برستی بارش تھی جو چھت پہ لگے ہوئے شیشے پہ گرتی تھی، لے بنتی تھی اور جلترنگ میں بدل جاتی تھی۔
میں اب جان چکی تھی کہ میں اجنبی دیس کے اجنبی گھر میں ہوں۔ اور ماریا کے گھر میں گزارے جانے والے سات دن، اس گھر کی یادوں کے ساتھ میری زندگی کا حصہ بننے والے ہیں۔
میں سوچ رہی تھی، جانے ماریا کس دیس میں ہو گی، نہ جانے کس کے گھر میں رہ رہی ہو گی، کیا اپنے گھر سے جدائی اس کے دل پہ اترتی ہو گی۔ کیا وہ مجھے سوچتی ہو گی کہ کس دیس کی اجنبی عورت اس کے بستر پہ سو رہی ہو گی۔ جس کھڑکی سے وہ بارش محسوس کرتی ہو گی، وہاں آج میں تھی۔ میں اور وہ، اجنبی اور ان دیکھے ہونے کے باوجود شراکت کے رشتے میں بندھ چکے تھے۔
کیا وہ بھی بارشوں سے محبت کرتی ہو گی، کیا وہ بھی اس جلترنگ کے فسوں سے جاگ جاتی ہوگی۔ کیا رات کے پچھلے پہر اس کے دل پہ کوئی واردات اترتی ہو گی۔ کیا کائنات کے سروں پہ وہ رقص کرتی ہو گی۔ کیا اس کا دل چاہتا ہو گا کہ ایسی برسات کی ایک رات میں اقبال بانو کی آواز میں دشت تنہائی سنے، چائے کے پیالے سے بھاپ اٹھے اور آنسو خود بخو د بہتے جائیں۔
تنہائی، بارش، رات اور پیرس، ہم پہ جادو چل چکا تھا۔
تنہائی، بارش، رات اور پیرس، ہم پہ جادو چل چکا تھا۔