پچھلے کچھ دنوں سے سوچیں بہت منتشر تھیں۔ موضوع بنانا چاہ رہا تھا شعور اور فحاشی کو
ہمارے ہاں یہ بیماری عام ہے کہ
بنو زاہد، پیے جاؤ۔
میں سب گناہ کر کے بھی نیکی کا درس دیتا پایا جاؤں گا۔ (میں سے مراد فردِ واحد نہیں)
ایک فطری قانون ہے۔ جِس چیز کو جتنا دباؤ گے وہ اتنی ہی شدت سے اٗبھرے گی آج یہاں کسی بھی موضوع پہ کوئی بات ہو جائے تو سب سے پہلا فتویٰ فحاشی کا لگتا ہے۔
اصل میں ہم لوگ تعین ہی نہی کر پائے کہ فحاشی ہے کیا۔ میرے نزدیک ہر وہ چیز فحاشی ہے جس سے آپ دوسروں کو روکیں اور اپنی ذات کو اس روک ٹوک سے مبرا سمجھیں۔
یہاں بہت لوگ ایسے گزرے جنہوں نے معاشرے کی اٗن تلخیوں سے پردہ اٗٹھایا جن پہ بولنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ (فلائبر، منٹو بانو قدسیہ اور بہت سے ) لیکن اٗن سب میں منٹو نے جو مقام پایا شاید ہی کسی نے پایا ہو۔
منٹو کون تھا کیا تھا میں وقت برباد کرنے کی بجائے مٗدعے پر آتا ہوں کہ کیا منٹو فحش تھا؟
کل رات مجھے استاد جی ( منٹو) مِلے۔ میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لاہور کے شاہی محلے میں لے گئے جو کہ اب برائے نام شاہی محلہ ہے۔ اب صرف وہاں بھوکے لوگ آتے ہیں۔ جو اپنی بھوک مِٹانے میں ناکام رہتے ہیں۔ جن کی بھوک کبھی مٹتی ہی نہی وہ لوگ۔ میں حیران تھا کہ استاد جی یہاں کیوں لے آئے۔ کچھ کہنے کے لیے لب کھولنے لگا تو استاد جی نے منع کر دیا۔ اب چل دیے ڈیفنس کی کوٹھیوں کی طرف۔ جہاں وہ عورتیں تھیں جن کے خاوند ملک سے باھر تھے اور ان کی بھوک آخری حد پہ تھی۔ اور وہ بھوک مِٹا رہی تھیں۔ بھئی زندہ انسان ہے کب تک برداشت کرے۔
اگلا پڑاؤ اسلام آباد کا ریڈ لائٹ ایریا تھا جہاں شرافت کے لبادے میں لِپٹے لوگ الف ننگے تھے۔ سینٹ سے ایوان تک سب ننگے۔
اگلی منزل کراچی کی گندی گلیاں تھیں۔
گھوم پھر کے واپس اپنی جگہ پہ آئے تو استاد جی بولے ابھی ایک اور جگہ جانا ہے۔ شاگرد کی کیا مجال کے بولے۔
داتا دربار آ گئے جہاں پیر جی کو سلام کرنے والے تھوڑے اور باھر بیٹھی رنڈیوں کو سلام ٹھوکنے والے زیادہ تھے۔
اب استاد جی نے مجھے وہ آفس دِکھایا جہاں سیکرٹری رکھنے کے لیے باس اس کی قابلیت کی بجائے اس کی چھاتیوں کا سائز دیکھ رہا تھا۔ استاد جی نے وہ بیوہ دِکھائی جس کا مالک مکان اس سے کرائے کی وصولی کی مد میں ’کرایہ‘ وصول کر رہا تھا۔ استاد جی نے مجھے وہ فیکٹری دکھائی جہاں اوور ٹائم میں ’ایکسٹرا ورک‘ کروا کے پیسے دیے جاتے تھے۔ پھر ہم اس رنڈی کے کوٹھے پہ گئے جہاں سب ننگے ہو رہے تھے کسی بھی مذہب اور فرقے کی تمیز رکھے بغیر۔ ہم اس قبرستان میں گئے جہاں قبر کشائی کر کے مری ہوئی عورت سے منہ کالا کیا جا رہا تھا۔
میری کنپٹیاں سلگ رہی تھیں۔ میرا خون کھول رہا تھا۔ اگلا پڑاؤ میری برداشت کا مقبرہ ثابت ہوا۔ استاد جی مجے وہاں لے گئے جہاں بوڑھا باپ کھڑکی ’کھول دو‘ کی آواز سن کر شلوار کھولنے والی بیٹی کی جنبش دیکھ کے خوشی سے چلایا ’سکینہ زندہ ہے‘
بس۔ اب اور نہیں۔ میں چلایا۔
میں اور فحاشی برداشت نہی کروں گا۔ لوگ سھی کہتے ہیں منٹو فحش ہے۔ منٹو بے حیا ہے۔ بس میں اور بے حیائی نہیں دیکھ سکتا۔ آج سے میرا استاد منٹو نہیں رہا، منٹو فحش ہے ۔
میں منٹو کی فحاشی پہ غصے سے کانپ رہا تھا۔
منٹو نے قہقہ لگایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے طنزیہ انداز میں بولا ’یہ منٹو کا افسانہ نہی یہ تمہارا معاشرہ ہے‘
میرا سارا طنطنہ سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ منٹو چلا گیا لیکن مجھ سے سوال پوچھ گیا کہ کشمال مہر، منٹو فحش تھا یا تم فحش ہو۔ رنڈی کے کوٹھے پہ جا سکتے ہو لیکن اپنے معاشرے کا چہرہ سامنے آنے پر آگ بگولہ ہو جاتے ہو۔ منٹو بے حیا تھا یا تم بے حیا ہو!
اور تب میں کہا کہ منٹو تم میرے استاد تھے، ہو اور رہو گے۔
پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مزار پہ چرس بکنے سے لے کے جسم بِکنے تک کا دھندا ہوتا ہے۔ اِس چیز کے قصوروار ہم ہیں یا منٹو؟
لوگ کہتے ہیں منٹو مردوں کو ننگا کر کے گیا، میں کہتا ہوں کہ منٹو اِس معاشرے کو ننگا کر کے گیا!
ٹھنڈا گوشت والا مرد اب بھی اِس معاشرے میں ہے جو جنسی بھوک مٹانے کے لیے لاشوں کو بھی نہی بخشتا۔ کالی شلوار جیسا مرد اب بھی اِس معاشرے میں ہے جو عورت کا اس کی مجبوری کے نام پہ استحصال کرتا ہے۔ کھول دو جیسا مرد اب بھی ہمارے آس پاس ہے جو کسی بے سہارا کی شلوار اٗتارنے سے پہلے ایک مِنٹ بھی نہی سوچتا۔
اگر منٹو اِن مرد نما کٗتوں کو ننگا کر گیا تو کیا اسے فحش قرار دے دیا جائے؟
آج کا شدت پسند مذہبی شعور کی بات پہ فحاشی کے پرچے کٹوا کے چاہتا ہے کہ معاشرہ ٹھیک ہو جائے۔
کیسے؟ جب تک شراب کے نقصان کا پتا ہی نہیں ہوگا تب تک شراب پینا ختم کیسے ہوگا؟
ساری رات جانو کے ساتھ فون سیکس کر کے، ننگی تصویریں منگوا کے اور چشمِ تصور میں اسے ننگا لِٹا کے صبح منٹو کو فحش کہنے والے اپنی منافقت پہ غور کریں۔ منٹو منافق نہی تھا۔
منٹو بولے کہ خاوند کی تنخواہ دلوانے کا جھانسہ دے کے اس کے جسم کے مزے لینے والا مرد اِس معاشرے میں ہے تو منٹو فحش۔ (کالی شلوار)
منٹو اس مرد کی نشاندہی کرتا ہے جو جسمانی تسکین کے لیے مری ہوئی عورت کو بھی نہی چھوڑتا تو منٹو فحش۔ (ٹھنڈا گوشت)
منٹو بتائے کہ لاچار بے بس اور لاوارث لڑکی کو دن میں بہت بار ننگا کرنے والے مرد یہاں پہ ہیں تو منٹو فحش۔ (کھول دو)
بات تو عرب کے جاھلوں والی آ گئی نا جو کہتے تھے کہ تمہارا نبی تمہیں رفع حاجت کے طریقے بتاتا ہے۔ اس جہالت میں تو جاھل تھے ہی لیکن آج کے ماڈرن دور میں جہالت بھی ماڈرن ہو چکی ہے۔
لڑکی دیکھتے ہی سب سے پہلے اس کی چھاتی اور پیٹھ پہ نظر ڈالنے والے اور سائز سوچنے والے منٹو کو فحش بولیں تو مجھ جیسے جاھل کا خون کھولتا ہے۔
منٹو کے کس افسانے میں سنی، وہابی دیوبندی کی تعلیم ہے؟
منٹو کے کِس افسانے میں شراب کو حلال قرار دیا گیا ہے؟
منٹو کے کس افسانے میں اللہ کی وحدانیت سے انکار کیا گیا ہے؟
ہے کوئی جواب؟
ہے کوئی دلیل؟
منٹو نے معاشرے کو آئینہ دِکھایا ہے اسی طرح جس طرح ہر مسلمان پہ فرض ہے۔
منٹو نے تربیت کی ہے اسی طرح جس طرح اسلام نے جہالت کے اندھیرے میں دیپ جلایا اور منٹو جیسا سورج روشن کیا!
شراب نا پیو شراب نا پیو کہنے سے کوئی شراب نہیں چھوڑتا لیکن شراب کے نقصانات اور اس کی اصل کے بارے میں بات کرنے سے شاید کافی لوگ شراب چھوڑ دیں۔ اور یہی کیا منٹو نے۔ منٹو نے مرد کو ننگا کیا تا کہ مرد ہر ایک کے سامنے ننگا ہونے کی بجائے کسی ایک کے سامنے ننگا ہو۔ منٹو نے اِس معاشرے کی تلخیوں پہ لکھا تا کہ اِس معاشرے کا زہر نکالا جا سکے۔ اور اگر اس سب کے بعد منٹو کو فحش قرار دیا جاتا ہے تو فحاشی کا لیبل مجھ پہ بھی لگاؤ۔
اور اس کے بعد منافقت کا لیبل خود پہ لگاؤ!
’بے حیائی پڑھنے والے کی آنکھ میں ہو سکتی ہے۔ فحاشی پڑھنے والے کے دماغ میں ہو سکتی ہے۔ منٹو بے حیا اور فحش نہیں تھا۔ اس کی تحریریں بے حیائی سے ہٹ کر کچھ اور پیغام دیتی ہیں‘
منٹو کہتا ہے کہ ”کسی قحط زدہ علاقے کی وہ ستم رسیدہ عورت جس کے پاس تن ڈھانپنے کو صرف چند چیتھڑے میسر ہیں، ہرگز عریاں قرار نہیں دی جا سکتی۔ مگر کسی کلب کی وہ ڈانسر یقینا فحش اور عریاں ہے جو نمائش کی خاطر بلاؤز میں سے اپنے پیٹ اور اپنی چھاتیوں کو باہر جھانکنے کی اجازت دیتی ہے“
منٹو کہتا ہے کہ ’میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لیے ہیں۔ نارمل انسانوں کے لیے جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ جو عورت اور مرد کے رشتے کو استعجاب کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ جو کسی ادب پارے کو ایک ہی دفعہ میں نگل نہیں جاتے۔ روٹی کھانے کے متعلق ایک موٹا سا اصول ہے کہ ہر لقمے اچھی طرح چبا کر کھاؤ۔ لعاب دہن میں اسے خوب حل ہونے دو تاکہ معدے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور اس کی غذائیت برقرار رہے۔
پڑھنے کے لیے بھی یہ اصول ہے کہ ہر لفظ کو، ہر سطر کو، ہر خیال کو اچھی طرح ذہن میں چباؤ۔ اس لعاب کو جو پڑھنے سے تمھارے دماغ میں پیدا ہو گا، اچھی طرح حل کرو تاکہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے اچھی طرح ہضم ہو سکے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتائج برے ہوں گے، جس کے لیے تم لکھنے والے کو ذمے دار نہ ٹھہرا سکو گے۔ وہ روٹی جو اچھی طرح چبا کر نہیں کھائی گئی، تمھاری بدہضمی کی ذمے دار کیسے ہو سکتی ہے ’
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سعادت حسن منٹو اپنے افسانوں میں عورتوں کے کپڑے اتارتا ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے ان ہی عورتوں کے بارے میں لکھا ہے جن کے کپڑے حالات اور ہمارے معاشرے نے اتارے ہیں۔ ’ہتک‘ کی سوگندھی ہو، ’کھول دو‘ کی سکینہ، ’کالی شلوار‘ کی سلطانہ، یا پھر ’ٹھنڈا گوشت کی کلونت کور ہو، یہ منٹو کے وہ کردار ہیں جو حالات کے مارے ہوئے ہیں۔
اگر انہوں نے ان تمام لوگوں کو اپنا کردار بنایا ہے تو کیا انہوں نے کوئی گناہ کیا ہے؟ انہوں نے وہ لکھا ہے جو معاشرے نے انہیں دکھایا ہے۔ ان کے پاس خوبصورت الفاظ نہیں ہیں، نہ ہی ایسی تشبیہات اور استعارے جنہیں پڑھ کر ہم کھو سے جائیں۔ وہ ایسے افسانوں میں خوبصورت الفاظ کہاں سے لاتے جب ان کے کرداروں کی زندگی ہی زہر بھری تھی؟
ہمیں اس سماج میں عورت بحیثیت ایک طوائف تو قبول ہے، مگر اگر وہ کوئی ایماندارانہ پیشہ اپنا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنا چاہتی ہے تو کتنے ہی لوگوں کے دلوں میں برسوں سے سوئی ہوئی غیرت جاگ جاتی ہے۔
ان کی کہانیوں میں بظاہر فحش الفاظ کے پیچھے موجود دل سوز پیغام کو سمجھے بغیر ہم نے ان پر بے ہودہ، فحش نگار اور سنکی ہونے کا الزام اس قدر شدت سے لگایا ہے کہ ان کی وفات کی 6 دہائیوں بعد بھی منٹو کی کتاب ہاتھ میں دیکھنے پر لوگ ٹیڑھی اور مشکوک نظروں سے ایسے دیکھتے ہیں جیسے کہ ہاتھ میں اردو ادب کے مایہ ناز افسانوں و مضامین کے بجائے پلے بوائے میگزین اٹھایا ہوا ہو۔
منٹو نے رنڈیوں کی بات کی، اس معاشرے کی تلخیوں اور مسائل کی بات کی اور فحش ٹھہرا۔ عبادات کے بدلے میں حوروں کی حوالگی کا ذکر کرنے والے بلکہ حوروں کا لالچ دینے والے حضرات کو کیا کہا جائے یہ فیصلہ میں اپنے قارئین پہ چھوڑتا ہوں۔