مجھے کسی طور یقین نہیں آیا تھا کہ یہ وہی بھولی بھالی بچی ہے جسے میں کچھ دیر پہلے ملی ہوں جب وہ کلاس میں ساتھی سٹوڈنٹس کے ساتھ پڑھائی میں مصروف تھی۔
زینب (فرضی نام) کی ٹیچر اور کاؤنسلر نے یہ ویڈیوز دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ سب اس نے اپنے گھر میں خواتین کو کرتے دیکھا ہے۔۔۔ اور جو کرتے ہوئے دیکھا وہی سیکھ لیا۔
لاہور میں باغ منشی لدھا کے علاقے میں شاعر گلزار کی زبان میں کہیں تو بہت سی گلے ملتی ہوئی گلیاں ہیں۔ انھی میں سے ایک گلی کے نکڑ پر بھول بھلیاں جیسا ایک مکان ہے جہاں بہت سے ایسے بچوں کو دوبارہ بچپن کی طرف لوٹایا جا رہا ہے جنھیں اُن کے گھروں کے حالات نے وقت سے پہلے بہت بڑا بنا دیا ہے۔
مکان کی بالکونیاں اور جھروکے اُسی طرز پر قائم ہیں جو کچھ عرصہ قبل تک طوائف کہلائی جانے والی خواتین کو اُن کے پیشے میں سہولت مہیا کرتے تھے۔ یہ نام اب اس علاقے کی خواتین کے لیے مستعمل نہیں ہے کیونکہ اب وہ ’پرفامرز‘ اور ’ڈانسرز‘ ہیں۔
منشی لدھا کا علاقہ اُس وقت ان خواتین کی آماجگاہ بنا جب اسی کی دہائی میں لاہور کے معروف علاقے ’ہیرا منڈی‘ میں ہونے والے کریک ڈاؤنز کے بعد اس پیشے سے منسلک خاندانوں کو وہاں سے نکال دیا گیا۔
ان خاندانوں نے علاقہ بدل لیا لیکن اس نام نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور ان کی نسبت سے یہ نئی بستی ’منی ہیرا منڈی‘ کہلائی جانے لگی۔
اس نام کے علاوہ ایک پہلو اور بھی ہے جو علاقہ اور پیشے کا نام بدلنے کے بعد بھی نہیں بدلا۔۔۔ وہ ان گھرانوں کے بچوں کے حالات ہیں۔
وہ گھر کی عورتوں کو کئی کئی دن کے لیے غائب دیکھتے ہیں، اُن کے آس پاس جو مرد موجود ہیں وہ نہیں جانتے کہ اُن میں سے باپ کی نسبت وہ کس سے ٹھہرایں۔ اُن کے پاس ریاست کا دیا ہوا ب فارم نہیں ہے جس پر وہ سکول میں داخلہ لے سکیں، تعلیم اور ہنر کی جگہ ان کے لیے منشیات، چوری، جوا اور کئی دوسرے جرائم کا ایک مکتب موجود ہے۔ کوئی انھیں اغوا یا سمگل کرے تو اس پر ایف آئی آر کا مدعی بھی کوئی نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر اُن کا بچپن اُن کے پاس نہیں ہے۔
دی سوشل انٹروینشن ڈرائیو (ایس آئی ڈی) نامی این جی او نے اخوت تنظیم اور دوسرے کئی اداروں کے ساتھ مل کر اس علاقے کے بچوں کو ’لرننگ ہب‘ کے نام سے ایک ایسی چھت مہیا کی ہے جہاں وہ دن کا بیشتر حصہ گزار سکتے ہیں۔
اس چھت کے نیچے ایک غیر رسمی سکول ہے، ہنر سکھانے کا بندوبست ہے، ایک ڈسپنسری ہے، ایک کچن ہے جہاں کھانا اگرچہ ماں کے ہاتھ کا نہیں ہے لیکن دوستوں کے ساتھ مل کر کھایا جا سکتا ہے۔
منشی لدھا کی اس تنگ و تاریک گلی میں ایک کے بعد ایک پھیری والا آواز لگائے چلا جاتا ہے اور ان آوازوں میں لرننگ ہب سے بچوں کی آوازیں شامل ہوتی چلی جاتی ہے جو سبق دہرانے میں منہمک ہوتے ہیں۔
انھی بچوں میں زینب بھی تھی۔
صرف چند گھروں کے فاصلے پر، جہاں وہ اپنی والدہ اور پھپھو کے ساتھ رہتی ہیں، ساز بجتے ہیں، عورتیں پریکٹس کرتی ہیں اور زینب جیسی بچیاں اُن کی دیکھا دیکھی ٹک ٹاک پر وہی حرکتیں کرتی ہیں۔
لرننگ ہب نے ٹک ٹاک سے دھیان ہٹانے کے لیے زینب اور اس جیسے کئی بچوں کو پرفارمنس کے لیے ایک سٹیج مہیا کیا ہے، کراٹے کی کلاس کا بندوبست کیا ہے اور کچھ بچوں کو پالتو جانور بھی دیے ہیں تاکہ وہ مثبت سرگرمیوں میں مشغول ہو سکیں۔
لرننگ ہب کی سربراہ زرقا طاہر کا کہنا ہے کہ انھیں ان کے سماجی کاموں کے دوران ہیرا منڈی کے کچھ بچوں کے لیے ٹیوٹر کے بندوبست کا کہا گیا تھا جس کے بعد اُن پر کھلا کہ ایسے بچے کتنی بڑی تعداد میں ہیں جنھیں سکول اور استاد کے علاوہ شناخت اور اپنائیت کی بھی ضرورت ہے۔ اور اس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا تو لرننگ ہب کے قیام تک پہنچا۔
علاقے میں ڈانسرز اور پرفارمرز کے بچوں کے علاوہ بھی آس پڑوس سے بہت سے بچے یہاں آنے لگے۔
زرقا کہتی ہیں ’مجھے حیرت ہوئی کہ آج تک ان بچوں کے لیے منظم طریقے سے کام کیوں نہیں کیا گیا، یہ بچے سوسائیٹی کے لیے وجود ہی نہیں رکھتے۔‘
سکول تو بن گیا لیکن مشکلات کیا تھیں؟
زرقا بتاتی ہیں کہ ’ہم سکول صبح بارہ بجے بھی کھولیں تو کوئی بچہ پہنچ نہیں پاتا تھا اور ان کی ماؤں کا کہنا تھا ’باجی اینے سویرے؟‘ (باجی،اتنی صبح؟)۔
ان گھرانوں کے مخصوص طرز زندگی کے مطابق اُن کی راتیں جاگتی ہیں اور دن کا آغاز سہ پہر کے بعد ہی ہوتا ہے۔
بچوں کی کاؤنسلر عاصمہ شہزادی کا کہنا ہے کہ ان بچوں سے زیادہ بڑا مسئلہ ان کے گھروں کے ماحول کا ہے۔ جیسے ہی یہ اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں انہی اطوار، زبان اور طریقوں کو اپنا لیتے ہیں جس میں انھوں نے آنکھ کھولی ہے۔
انھیں یہ بھی ڈر ہے کہ بچیاں بارہ، تیرہ سال کی عمر تک تو ادارے میں آتی رہیں گی لیکن اس کے بعد انھیں بھی پیشے سے منسلک کر دیا گیا تو وہ کچھ نہیں کر پائیں گی۔
چھوٹے بچوں کی ایک کلاس میں ایک معمر خاتون بھی موجود تھیں۔ کبھی وہ ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھی نظر آتیں، کبھی بچوں کی مدد کرتی۔
زرقا نے بتایا یہ پروین بیگم (فرضی نام) ہیں۔ اپنے زمانے کی مشہور رقاصہ۔ کراچی سمیت کئی شہروں کے بڑے ہوٹلز میں اپنی پرفارمنسز کے لیے مشہور رہیں۔
ڈھلتی عمر، جھریوں بھرے چہرے اور کالی چادر میں لپٹی اس خاتون کو دیکھ کر ان پر رقاصہ ہونے کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اس وقت وہ صرف ایک دادی تھیں جو اپنی پوتی کو پڑھانے لے آتی ہیں۔ اور پھر اس کے ساتھ ساتھ ہی رہتی ہیں۔
انھوں نے پانچ سالہ پوتی کے لیے عہد کر رکھا ہے کہ اسے اس ماحول سے بچا کر رکھیں گی جس میں وہ خود بڑی ہوئیں۔
پروین بیگم کے علاوہ بھی ایسی کئی عورتیں ادارے میں نظر آتی ہیں جو پہلے پیشے سے منسلک رہ چکی ہیں۔ کچن میں بھی ایسی کئی خواتین روٹی بناتے نظر آئیں جبکہ عملے میں شامل کئی مدد گار پہلے ایسے ہی گھرانوں میں چھوٹی موٹی ملازمت کرتے رہے ہیں۔
کیا ایسا کوئی ادارہ تنہا ان بچوں کا مستقبل محفوظ کر سکتا ہے؟
زرقا طاہر کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے جب تک سرکاری سطح پر تعاون حاصل نہ ہو۔ ایسی ہی ایک کاوش کے تحت ان بچوں کے ب فارم اور شناختی کارڈ بنانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
زرقا نے اس سلسلے میں نادرا کے تعاون کو سراہا جن کی موبائل وینز خود آ کر ان بچوں کے لیے سرکاری شناخت کا بندوبست کر رہی ہیں۔
’ان کی فوٹو آئی ڈی موجود ہو گی، انگوٹھے کا نشان ہوگا، تو بچوں کی ٹریفکنگ جیسے مسائل کا حل نکل سکے گا۔ ورنہ یہ ہوتا ہے کہ بارہ، چودہ سال کی بچی کو بڑی عمر کا ظاہر کر کے طائفے میں بھیج دیا جاتا ہے۔‘
ستمبر کا ایک خوشگوار دن ڈھلنے کو تھا۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ زرقا اور لرننگ ہب کے بچوں سے رخصت لینے کو تھی۔ میوزک روم سے تیرہ چودہ برس کے چند بچوں کے گانے کی آواز نے جاتے ہوئے قدموں کو روک لیا۔
کیا اس گلی میں کبھی تیرا جانا ہوا
جہاں سے زمانے کو گزرے زمانہ ہوا
میرا سمے تو وہیں پر ہے ٹھہرا ہوا
بتاؤں تمہیں کیا میرے ساتھ کیا کیا ہوا
لڑکے اپنی دھن میں کسی انڈین گانے کے بول گا رہے تھے۔ لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ اپنی ہی کہانی کہہ رہے تھے۔۔۔
پیک اپ کے دوران مجھے میرے اس سوال کا حتمی جواب مل گیا تھا جو ہر نامہ نگار کسی 'سٹوری' کے وقت خود سے کرتا ہے یعنی اسے یہ کہانی سُنانے کی ضرورت کیوں ہے؟ باغ منشی لدھا کی اس گلی میں جائے بغیر، اس کہانی کو سنائے بغیر، ان بچوں کا سمے رکا رہے گا جنھیں باپ کا نام نہیں ملا اور ریاست نے ماں بن کر نہیں دکھایا۔ ضروری تھا کہ اُن کی کہانی کو سنایا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ شناخت دلوانے کی اس کاوش میں مجھے خود اپنی رپورٹ کے لیے اُن کی شناخت چھپانا پڑی۔