جی ڈبلیو ایف ہیگل نے 18 ستمبر1806ء کو ایک تقریر میں کہا تھا ”ہم ایک اہم دور کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ یہ ایک ایسا ہنگامہ خیز دور ہے جس میں انسانی جوش و ولولہ چھلانگ لگاتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ سابقہ شکلوں کو بدل دیتا ہے اور ایک نیا روپ دھار لیتا ہے۔ دنیا کو جوڑ کر رکھنے والے سارے نمائندہ اصول، تصورات اور تانے بانے خواب کی تصویروں کی طرح ڈھیر ہو کر رہ جاتے ہیں، ایک نئی سپرٹ کا زمانہ قریب تر آتا ہے۔ فلسفہ خصوصی طور پر اس کا استقبال کرتا ہے اور جو اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس ماضی سے چمٹ کر رہ جاتے ہیں“ ۔
مجھے فرانسس فوکویاما کی کتاب (The end of history and the last man) پڑھتے ہوئے جی ڈبلیو ایف ہیگل کی تقریرکا یہ اقتباس نظر آیا اور میری توجہ فوراً اس نوجوان قبیلے پہ پڑی جو ان دنوں میڈیا میں بہت زیادہ زیر بحث ہے اور یہ وہی قبیلہ ہے جو کچھ دن پہلے ایک کارپوریٹ فیسٹیول میں ”ایشیا سرخ ہو گا“ کے نعرے لگا رہا تھا۔ کوئی بھی ایسا طالب علم جو میری طرح کسی جامعہ کا بطور سٹوڈنٹ حصہ رہا ہو ’اسے یہ نعرہ واقعی پسند آئے گا اور اس کی وجہ وہ ضیائی سوچ ہوگی جس نے ایک خاص مائنڈ سیٹ کے ذریعے چند مخصوص مذہبی جماعتوں کو تو درس گاہوں میں یونین بنانے اور اپنا نصاب پھیلانے کی اجازت دے دی مگر ہر اس سٹوڈنٹ یونین کا قلع قمع کیا جو انقلاب کی بات کرتی تھی۔
اس نے ہر اس یونین پر پابندی لگائی تھی جس کے ذریعے ایک ایسی نسل تیار ہو سکتی تھی جو لبرل انقلاب یا سرخ انقلاب کی حامی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب ہم جامعہ پنجاب سمیت کئی اہم درس گاہوں کو دیکھتے ہیں تو وہاں ایک مخصوص مذہبی جماعت مسلط ہے اور اگر کوئی اوریونین یا این جی او اس کے مقابلے میں سر اٹھاتی ہے تو ادارے کی انتظامیہ کو ساتھ ملا کر اس کا سر کچل دیا جاتا ہے۔ آخر کیوں ایسا ہو رہا ہے؟ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب بہرحال ہے اس مائنڈ سیٹ کے پاس نہیں ہوگا جو ضیائی دور میں ڈویلپ ہوا اور آج تک قائم ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم پنجاب یونیورسٹی کو ”مقبوضہ جامعہ پنجاب“ کہتے ہیں۔
ہیگل نے درست کہا تھا کہ آج ہم تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہماری نئی نسل انتہائی تیزی کے ساتھ گلوبل ویلج دنیا کا حصہ بن رہی ہے اور اس تبدیلی کو شدت محسوس بھی کر رہی ہے۔ ہم اس نوجوان نسل کو نہ تو اپنی مرضی سے مولڈ کر سکتے ہیں اور نہ انہیں دقیانوسی قصے کہانیاں سنا کر مزید ورغلا سکتے ہیں (جیسا کہ جامعات میں موجود چند ضیائی جماعتیں کر رہی ہیں)۔ بلکہ یہ نوجوان نسل ہمارے گزشتہ نسل سے انتہائی تیز اور شاطر ذہن رکھنے والی ہے۔
اسی لیے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آج ہمارے پاس دو آپشن ہیں یا تو ہم اس ملک کو مکمل طور پر مذہبی جماعتوں ’این جی اوز اور مذہبی سٹوڈنٹس یونینز کے حوالے کر دیں تاکہ وہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جیسا چاہیں‘ جو چاہیں کرتے رہیں اور ہم ان کے لیے فنڈ نگ بھی کریں اور ان کے ہر متشدد عمل کی تعریف و تقلید بھی کریں یا پھر ہمارے پاس دوسرا آپشن یہ ہے کہ اس ملک کی یوتھ کو آزاد چھوڑ دیں۔ بائیں بازو کی حکومت ہو یا دائیں بازو کی حاکمیت ’دونوں صورتوں میں ان کے نظریاتی دیوالیہ پن کی وجہ سے ایک مربوط اور مضبوط سیاسی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ بات ہمیں کیوں نہیں سمجھ آتی ہے ہمارا وہ دیوالیہ پن جس میں ہمارے حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ نوجوان نسل کو اگر پورے حقوق دیے گئے تو وہ اس ایشیا کو واقعی ”سرخا“ نہ بنا دے گی۔
جب تک ہم اس نسل کو اس قابل نہیں بناتے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرے ’ہم کبھی بھی انہیں نہ تو گلوبل ویلج کا حصہ بنا سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی ذہنی نشو و نما ہونے کے لیے راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ لاہور اور پورے پاکستان کی سڑکوں پہ ”سرخ ایشیا“ کے نعرے لگاتی یہ نوجوان نسل آج کیوں اتنی بیزار ہو گئی کہ وہ انقلاب کا علم لے کر سڑکوں پر نکل آئی۔ آج بھی حکومتی ایوانوں سے مفت کی روٹیاں توڑنے والے سیاسی و مذہبی ملا اس نوجوان نسل کے خلاف لمبی لمبی پلاننگ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ لوگ سگریٹوں کے دھواں میں انقلاب کو اڑاتے ہوئے لمبی پلاننگ کرنے کی بجائے ان کے مطالبات کو سمجھتے۔ ضیائی دور میں مخصوص مذہبی جماعتوں کو ہم نے اس طرح درسگاہوں اور تعلیمی اداروں میں دھکیلا کہ آج ہمارے چاہنے کے باوجود وہ اداروں کی جان نہیں چھوڑ رہیں۔ وہ اس طرح مسلط ہیں کہ کبھی بھی کوئی انقلابی ذہن نہ تو سامنے آنے دیں گی اور اگر کوئی غلطی سے آ بھی گیا تو اس کا سر کچل دیا جائے گا۔ ان مذہبی جماعتوں نے عجیب طرح کی غنڈہ گردی پھیلائی ہوئی ہے جس کو ہم چاہ کر بھی ختم نہیں کر پا رہے۔
آپ تعلیمی اداروں میں موجود مذہبی یونینز کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اور پھر ایمان سے فیصلہ کریں کہ کیا انھوں نے یوتھ کی ذہنی آبیاری کی‘ بجائے اس کے کہ انہیں ایک مخصوص لٹریچر پڑھا کر پٹڑی سے اتارا گیا اور انہیں ایک خاص قسم کے پنجرے میں قید کرنے کی کوشش کی گئی۔ میں بطور طالب علم کتنے ہی سال یہ سارے منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا ہوں اور آج میں بڑے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ آج سرخ انقلاب کا نعرہ لگانے والی یہ نوجوان نسل حقیقت میں ان مذہبی یونینز کی اجارہ داری سے تنگ آئی ہوئی نسل ہے جو آج اپنے حقوق کے لیے خود سڑکوں پہ نکل آئی۔
مجھے یہ بھی پورا یقین ہے کہ پاکستان کا ستر فیصد نوجوان طبقہ ان سوسائٹیوں اور گروپوں کا ڈسا ہوا ہے سو انہیں میری بات سے مکمل اتفاق ہوگا۔ ”ایشیا سرخ ہوگا“ اور ”جدوجہد تیز کر“ جیسے نعرے لگاتا وہ نوجوان قبیلہ جو صرف اتنا کہہ رہا ہے کہ خدارا اس ملک کو چند مخصوص یونینز سے آزاد کروایا جائے جو ضیائی دور میں سامنے آئیں۔ یہاں سٹوڈنٹس یونین پر پابندی ختم کی جائے ’خدارا اس ملک کی نوجوان نسل کو اپنی مرضی سے اپنی ذہنی نشو و نما کی اجازت دی جائے۔
خدارا اس ملک کے نوجوانوں کو آزادی دی جائے تاکہ وہ دنیا میں موجود انقلابی‘ اسلامی اور سامراجی ریاستوں کا خود مطالعہ کریں ’وہ خود فیصلہ کریں کہ انہیں کس طرح کا پاکستان چاہیے۔ یہ نوجوان قبیلہ گلی گلی سرخ انقلاب کا نعرہ لگاتا صرف اتنا کہہ رہا ہے کہ تعلیم ہمارا بنیادی حق ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہمیں وہ تعلیم دے جس سے ہم ”شاہ دولہ کے چوہے“ بننے کی بجائے اور آزاد شہری کی حیثیت سے سانس لے سکیں۔ ہم نے جس طرح پوری پلاننگ کے ساتھ اس ملک کو ایک خاص تعلیمی اور مذہبی اسٹرکچر میں قید کیاہوا ہے‘ یہ نوجوان آج اس سے آزادی مانگ رہا اور یقین جانیں ہمیں یہ آزادی دینی ہوگی۔