پاکستان میں عورت مارچ اور مغربی ایجنڈا؟


دیگر دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں عورت مارچ کو آڑے ہاتھوں سے لیا گیا ہے۔
چائنہ، روس، کینیڈا، چلی اور برطانیہ میں عورت مارچ کے دوران اُن پر پھول پھینکے گئے تو کہیں مردوں نے ہائی ہیل اور اسکرٹ پہن کر بھی مارچ میں حصہ لیا اور یوں عورت صنف سے اپنی یک جہتی اور محبت کا اظہار کیا مگر پاکستان کے کچھ شہروں میں اُن پر پتھراؤ ہوا بلکہ گندی گالیوں سے ان کا استقبال بھی کیا گیا۔ خیر یہ باتیں اب کچھ نئی بھی نہیں ہیں کہ اکثر ہماری سوسائٹی میں بے حیائی اور بے شرمی کو دور کرنے کے لیے ہم گندی گالیوں کا ہی سہارا لیتے رہے ہیں اب یہ الگ بات کہ اس عمل سے ہماری سوسائٹی ’پاکیزہ‘ ہوتی ہے یا نہیں مگر ہمارے ذہنوں کی غلاضت ضرور عیاں ہو جاتی ہے۔ پاکستانی عمومی سوچ صدیوں پر محیط وڈیرانہ، قبائلی اور مذہبی فکر کی وراثت سے پروان چڑھی ہے اور ان تینوں عوامل کی مجموعی شکل کو سیاسی ساخت میں ڈھال کر ہی جلا ملی ہے مگر پھر سرمایہ دارانہ نظام کی کرپٹ شدہ شکل نے اُس پر اور بھی سونے پر سہاگہ پھیر دیا کہ جس کی گنجائش بھی یہاں بہت زیادہ تھی۔
بدقسمتی سے پاکستان کا پدرانہ معاشرہ کئی لحاظ سے سترویں اٹھاوریں صدی کے مغربی معاشرے سے بھی زیادہ بُری حالت میں ہے۔ مغرب میں پچھلے تین چار سو برسوں میں بیک وقت سائنسی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی انقلابات رونما ہوئے اور انہوں نے مجموعی طور پر عورتوں کے حقوق کو بھی مثبت انداز میں اپنی جدوجہد کے دوران بدل دیا۔ مذہبی ری فارمیشن نے کرسچینیٹی سے عورتوں کے حوالے سے پیدا ہونے والے منفی تاثر کو بہت حد تک ذائل کیا اور مذہبی ذہن کو بھی نئے انداز سے کچھ اس طرح سے جدید فکر سے روشناس کرایا کہ وہ بھی اس سارے اجتہادی عمل کو بہتر معاشرے کی تعمیر میں ایک ضرورت محسوس کرنے لگے۔
اس سارے عمل میں جو بڑا کام فکری لاشعور کی تبدیلی کا تھا اُس کا سراسر کریڈٹ اُس دور کے دانشور وں خصوصا ادیبوں، تاریخ دانوں اور فلسفیوں کو جاتا ہے کہ ان کی جہدِ مسلسل نے صرف ایلیٹ بلکہ عوامی ذہن کو بھی بلوغت کی منزلیں عطا کی جس سے مجموعی طور پر معاشرے میں ایک برداشت، رواداری اور ٹھیراؤ پیدا ہوا، لوگوں میں عالی ظرفی بڑھی اور ایک دوسرے کی رائے اور خیال کا احترام بھی پیدا ہوا۔
دوسری طرف اسلامی دنیا با لعموم اور پاکستانی سوسائٹی بالخصوص ان تمام مراحل سے نہ گزرنے کے سبب حقیقی انداز میں ں ہ صرف نابلد و ناآشنا رہی بلکہ جب اپنی کمزور سماجی و اخلاقی صورت ِحالات سے دوچار ہوئی تو ایک سخت ترین نفسیاتی خلجان میں بھی مبتلا ہوگئی اور چاروناچار اپنی اس بُری حالت کا الزام سراسر مغربی معاشرتی افکار پر دھر دیا۔ وہاں ’لبرل ازم‘ یا ’مارڈرن ازم‘ کو ایک گالی یا بُرا لفظ کہ کر پکارا گیا حالانکہ یہ لبرل ازم کی تھیوری ہی تھی کہ جس نے فرانسیسی اور امریکی انقلابات کے ذریعے مغرب میں پھیلی ہوئی ظالمانہ فاشسٹ قوتوں اور جابرانہ ڈکٹیٹر شپ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا تھا جس کے بدولت مغرب میں عوامی حکومت یعنی ڈیموکریسی کا راج پیدا ہوا اور جس کا لطف خود پاکستانی عوام بھی کسی حد تک ہی سہی مگر اٹھا رہے ہیں اور یہ جاننے بغیر کہ لفظ لبرل کے تو معنی ہی انسانی آزادی اور عوام کے لیے انصاف کے ہیں مسخرانہ لفظ ’فاشسٹ لبرالازم‘ جیسے گھڑ لیے گئے۔
پھر یہی نہیں بلکہ لفظ ’مارڈرن‘ کو بُرا کہ کر پکارا گیا کہ جیسے مارڈرن فکر کا مطلب فحش اور ننگا پن کا پھیلاؤ ہے حالانکہ لفظ مارڈرن جدید علمی یا سائنسی اندازِفکر کا استعادہ ہے۔ لفظ ’سیکولر‘ کو لامذہبیت کا لبادہ اوڑھا دیا گیا حالانکہ یہ تو سو لہویں صدی کے انگلش فلاسفر تھامس ہابس کا ایک فلاسفکل خیال تھا کہ انسانوں کی جنگ و جدل سے آزادی صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب وہ ’سیاسی اداروں‘ کو مذہبی کنٹرول سے آزاد کردیں اور پھر سچ تو یہ ہے کہ اِس خیال کی سچائی کا ثبوت اُن پے درپے پہلی اور دوسری بدترین عالمی جنگوں کی صورت میں مل بھی گیا جو محض مذہبی اور الٹرا نیشنل ازم جیسی آئڈیالوجی کے بدولت انسانیت کے المناک خون کا سبب بنی تھی۔
اچھا پھر ’مغربی ایجنڈا‘ جیسا ایک سیاسی لفظ اور بھی گھڑا گیا تاکہ عوام الناس کو مسلسل ورغلایا جاسکے کہ یہ سب مغرب کا ایک سوچا سمجھا طریقہ ِ واردات ہے کہ کس طرح پاکستانی اسلامی معاشرے کی ’نیک و پارسا روایاتوں‘ کو ٹھکانے لگایا جائے۔ اب یہ فکری طور پر غریب و مفلوک الحال عوام کیسے جاننے کہ خود پاکستان کی پیدائش سے تین چار سو سال قبل برطانیہ کی اس خطہ میں موجودگی، مغربی قوتوں کے درمیان دوسری عالمگیر جنگ کے بدولت پاکستان ریاست کی پیدائش اور پھر پچھلے بہتر برسوں کے دوران ؐمغربی ممالک کے فنڈ ز اور ادھار پر چلنے والی اِس نیک مملکت ثانی پر اُن کے ’ایجنڈے‘ کے اثرات کس کس طرح سے سیاسی، مذہبی اور سرمایہ دارنہ سماجی انداز میں درامد ہوئے ہیں اور یقینا جس کے ذمہ دار خود یہاں کے ہی ’پاکیزہ یا معصومانہ‘ سیاسی، سماجی، عسکری، مذہبی اور اقتصادی ادارے ہیں کہ کیسے بھی بھی اپنے کنٹرول کے خاطر قبائلی، جاگیردارانہ اور مذہبی رسوم و رواج یا کلچر مثلا ونی، سوارہ، کاروکاری، قران سے شادی، حدود آرڈنینس، قانون شہادت، قصاص اور دیت جیسی لاتعداد عملی اشکال کو معاشرے کے لیے بچا کر رکھا جائے۔ اور سچ یہی ہے کہ اس کے لیے کسی مغربی ایجنڈے کے درامد کی قطعی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہاں پر ہی وافر مقدار میں دستیاب کرپٹ ڈ سیاسی، مذہبی اور ’سرمایہ دارانہ ایجنڈے‘ کی موجودگی کافی ہے۔
جہاں تک عورت مارچ کے بیک گراونڈ میں موجود فیمین ازم کی تحریک کا تعلق ہے تو وہ خود بھی اپنی ارتقا کے کئی ایک مراحل سے گزر رہی ہے۔ ابتدائی بیسویں صدی میں اُس کا ایجنڈا کم و بیش سیاسی رہا جس کے نتائج میں مغربی عورت ووٹ جیسی نعمت سے فیض یاب ہوگئی اور جس کا لطف پاکستان کی مفلوک الکحال ؑعوتوں کو بھی نصیب ہوگیا کہ وہ بھی کبھی وزیر اعظم تو کبھی نیشنل اسمبلی کی اسپیکر، کبھی اپوزیشن کی رہنما تو کبھی میجر جرنل (شاہدہ ملک) تک بھی بن گئی اور عوامی عورت خود بھی کسی حد تک ہی سہی مگر ایک سیاسی قوت بن گئی۔
مگر پھر فیم انزم کی دوسری لہر جو 1960 کی دہائی میں اُٹھی بڑی حد تک پروفیشنل اور لیگل تبدیلیوں کے حق میں تھی جس کی وجہ سے عورت تعلیمی و پیشے وارانہ اداروں، ڈومیسٹک زیادتیوں اور جنسی ہراسمنٹ جیسے مسائل سے آزادی حاصل کر پائی اور پھر اس کے کچھ اثرات پاکستان کے علاوہ کئی ایک اسلامی ریاستوں مثلا انڈونیشیا، ملائشیا اور بنگلہ دیش وغیرہ میں بھی دکھائی دیے جانے لگے۔ اس ’مغربی ایجنڈے‘ کو بھی پاکستانی مسلمان عورت کو کم از کم دیگر اسلامی ریاست کی عورتوں کے تناظر میں ایمانداری سے دیکھ کر قطعی انکار نہیں کرنا چاہیے۔
مگر پھر جو یہ تیسری فیم انزم کی لہر جو چند سالوں سے ساری دنیا میں چل رہی ہے اُس کا تعلق سراسر سوشل فیم انزم سے ہے جو دراصل صدیوں سے تربیت یافتہ ’مردانہ لاشعوری نارم ز‘ کو چیلنج کررہے ہیں جس کے ڈانڈے نہ صرف اُس مردانہ جین سے جڑ ے ہوئے ہیں جو اُن میں پتھر کے ابتدائی دور سے شامل ہیں بلکہ پچھلے دو ادوار کی فیم انزم کی ثمرات کی صورت عورتوں کی مردوں پر ’ذہنی فوقیت‘ کو بھی ثابت بھی کررہے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ کسی حد تک مردوں کے لیے سماجی بقا کے سوال بھی پیدا کررہے ہیں۔