یہ الفاظ تھے بلوچستان کے ضلع کیچ کے ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ کے جو انہوں نے ہلاک ہونے والے دو بچوں کی لاشوں کے قریب بیٹھی ایک خاتون سے کہے۔
ہلاک ہونے والے بچوں کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ سے تھا جو اتوار کو دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک بچہ اور ایک بچی شامل تھی جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا ہے۔ ان بچوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔ ان کے دادا سردو بلوچ نے الزام عائد کیا ہے کہ بچے آ رہے تھے جب ایف سی کی جانب سے فائر کیا جانے والا گولہ ان کے قریب گرا جس سے وہ ہلاک اور زخمی ہوئے۔
حکام نے اس الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ بچے ایک گرنیڈ پھٹنے سے ہلاک ہوئے ہیں جسے شاید وہ ایک کھلونا سمجھ کر کھیل رہے تھے۔
ان ہلاکتوں کے خلاف کیے جانے والے احتجاج میں ڈپٹی کمشنر مرد حضرات سے بات چیت کر رہے تھے کہ اس دوران خاتون نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ لاشیں اس وقت تک نہیں اٹھائی جائیں گی جب تک ایف سی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی جاتی۔
اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور ڈپٹی کمشنر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کے تحت جب خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں تو پھر ڈپٹی کمشنر نے خاتون کو خاموش رہنے کے لیے کیوں کہا۔
تاہم ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کا احترام کرتے ہیں اور ان کو مردوں سے کم سمجھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
بچوں کی لاشوں کے ہمراہ دھرنا کہاں دیا جا رہا تھا؟
دو کمسن بچوں کی لاشوں کے ہمراہ دھرنا ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت میں دیا جا رہا تھا۔
یہ بچے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ میں ہلاک ہوئے تھے۔ بچوں کے لواحقین لاشوں کو دفن کرنے کے بجائے تربت لائے اور مطالبات تسلیم ہونے تک ان کو دفن کرنے سے انکار کر دیا۔
ان کے ساتھ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے کارکن بھی دھرنے میں شامل ہو گئے تھے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
ایک صارف مریم امین نے لکھا کہ 'ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ریاستی مشینری بلوچ سماج میں پدرشاہی کی سرپرستی کر رہی ہے۔ حالانکہ سینکڑوں مظاہرین اس بات کی پرواہ نہیں کر رہے ہیں کہ ان کی قیادت کوئی مرد کر رہا ہے یا کوئی خاتون۔ لیکن ڈپٹی کمشنر کو اس سے مسئلہ ہے۔‘
ہیش ٹیگ بلوچستان کے نام سے ایک صارف نے لکھا کہ 'ڈپٹی کمشنر کیچ ایک بزرگ خاتون کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو یہ کہہ رہی ہے کہ جب تک ایف سی کے اہلکاروں کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی اس وقت تک بچوں کو دفن نہیں کریں گے۔‘
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
ریاض سید نامی ایک اور صارف نے اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'تربت میں ایک دھرنے کے دوران ڈپٹی کمشنر نے خاتون کو یہ کہہ کر بات کرنے سے روکا کہ آپ مردوں کی موجودگی میں بات نہیں کر سکتیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں پدرشاہی کہ جڑیں کتنی گہری اور مضبوط ہیں کہ ایک ڈپٹی کمشنر بھی اس سے بچ نہیں سکا۔‘
بلوچستان اسمبلی کے رکن ثناء بلوچ نے بھی اس واقعے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا کہ ’ڈپٹی کمشنر کو شاید یہ معلوم نہیں کہ بلوچ خواتین نے بہادر اور باہمت بیٹوں اور بیٹیوں کو جنم دیا ہے۔ جب ایک خاتون بولتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پورا بلوچستان بول رہا ہے۔‘
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
ڈپٹی کمشنر کیچ کا کیا کہنا ہے؟
جب ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم خواتین کے بغیر کچھ نہیں۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہوں کہ کسی خاتون کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناﺅں اور نہ ہی میرا منصب مجھے اس بات کی اجازت دیتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے خاتون کو تھوڑی دیر خاموش رہنے کے لیے کہا تو اس کے پیچھے ان کہ یہ نیت نہیں تھی کہ ایک خاتون کیوں بات کر رہی ہے بلکہ ان کی کوشش یہ تھی کہ ہم کسی نتیجے پر پہنچیں۔
'اگر ایک معاملے پر بہت سارے لوگ بیک وقت بات کریں گے تو وہاں کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ اُس وقت چونکہ مرد میرے ساتھ بات کر رہے تھے اس لیے میں نے خاتون سے کہا کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش رہیں تاکہ میں ان سے بات مکمل کر سکوں۔‘
حسین جان بلوچ نے کہا کہ خواتین ان کے لیے سب سے زیادہ قابل احترام ہیں۔
ہلاک ہونے والے بچے کون تھے؟
ہلاک ہونے والے بچوں کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ سے تھا جو اتوار کو دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے ہلاک ہوئے تھے۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک بچہ اور ایک بچی شامل تھی جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا۔ ان بچوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔
ان کے دادا سردو بلوچ نے بتایا کہ یہ بچے آ رہے تھے کہ ایف سی کی جانب سے فائر کیا جانے والا گولہ ان کے قریب گرا جس سے وہ ہلاک اور زخمی ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ بچے آپس میں بہن بھائی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ایک تو ان لوگوں نے میرا گھر اجاڑ دیا اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کسی دستی بم سے کھیلتے ہوئے ہلاک ہوئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ ایف سی کے خلاف درج کیا جائے۔‘
سردو بلوچ نے بتایا کہ مطالبہ تسلیم نہ ہونے پر بچوں کی لاشوں کو لے کر تربت شہر پہنچے اور ان کے ہمراہ وہاں فدا شہید چوک پر دھرنا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تربت میں ہماری داد رسی نہیں ہوئی تو ہم کوئٹہ کی جانب روانہ ہوئے لیکن ہمیں ہوشاپ میں چیک پوسٹ پر روک دیا گیا۔
جب سردو بلوچ سے رابطہ کیا گیا تو وہ اس وقت چیک پوسٹ پر کھڑے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کوئٹہ کی جانب جانے نہیں دیا جا رہا۔ ہمیں یہ کہا جا رہا ہے کہ کوئٹہ مت جاﺅ بلکہ لاشوں کو دفنا دو۔‘
دو ہفتوں کے دوران تربت میں بچوں کی لاشوں کے ہمراہ دھرنا دینے اور اس کے بعد کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کرنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
اس سے قبل بلیدہ میں مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے بچے رامز کی لاش کے ہمراہ تربت سے کوئٹہ تک مارچ کیا گیا تھا۔
سرکاری حکام کا کیا کہنا ہے؟
فرنٹیئر کور کے ذرائع نے رابطہ کرنے پر گولے سے بچوں کی ہلاکت کے الزام کو مسترد کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف سی کی جانب سے کوئی گولہ فائر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے کوئی شواہد ملے ہیں۔
ذرائع کے مطابق وہاں نہ کوئی گڑھا پڑا ہے اور نہ کسی گولے کے ٹکڑے ملے ہیں جو کہ گولہ گرنے کے باعث ہونا چاہیے تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ وہاں ایک ہینڈ گرنیڈ کی پِن اور اور گرنیڈ کے پھٹنے کے شواہد ہیں جس کی بنا پر یہ لگتا ہے کہ بچوں کی ہلاکت گرنیڈ پھٹنے کی وجہ سے ہوئی۔
ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ نے بتایا کہ لواحقین اور دھرنے کے شرکاء کا یہ مطالبہ تھا کہ ایف سی کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے لیکن ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ ان بچوں کی ہلاکت ایف سی کی جانب سے فائر کیے گئے کسی گولے کی وجہ سے ہوئی ہو۔
حسین جان بلوچ کا کہنا تھا کہ وہاں گرنیڈ کے پھٹنے کے شواہد ملے ہیں۔ غالباً بچوں نے کھلونا سمجھ کر اس سے کھیلا ہو گا اور وہ پھٹ گیا ہو گا۔