مجھے یاد ہے میں نے جب پہلی بار اپنے والد کو کسی کی موت کی خبر سن کر ’الحمدللہ‘ کہتے سنا تو میں نے ان کی طرف حیران ہو کر دیکھا تھا۔ عربوں کا یہ رواج تو تھا ہی سو ان میں رہتے ایسا کہنے کی عادت اپنا لینا کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ مگر پھر مجھے دھیرے دھیرے اس کے پیچھے چھپے ایمان کی حکایت سمجھ آگئی۔ میں نے اپنے والد کی پیشانی پہ ایسے کئی دکھ متانت میں ڈھلتے دیکھے۔ میں اس لمحے کا انوکھا تجربہ بھی کبھی نہیں بھلا سکتی جب میرے اندر سے آواز آئی تھی کہ یہ میری والدہ کے آخری لمحات ہیں اور میں نے ان کے کان میں کلمہ طیبہ پڑھا۔
وینٹی لیٹر پہ دو دن سے بے سدھ ماں نے کلمہ دہرایا تو میں نے مسرور ہوتے ہوئے ان کے کان میں کہا ’امی اب ہم جنت میں۔ پھولوں کی وادی میں ملیں گے انشا اللہ‘ ۔ تو امی نے ادھ کھلی آنکھوں سے کہا تھا ’آمین‘ ۔ اور بس۔ اسی لمحے وہ رخصت ہوئیں۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا ’الحمدللہ‘ ۔
یہ تعلیم والد صاحب نے غیر محسوس طریقے سے دے دی تھی کہ موت کے موضوع سے نظریں چرانا ایک غیر فطری بات ہے۔ جنازے میں افراد کی تعداد سے نیک اور بد روح کا تصور پالنا انتہائی غیر منطقیانہ فعل ہے۔ مرنے والے کا آخری دیدار نہ کر سکنے پہ خود کو کوسنا ایک جاہلانہ رویہ اور جیتے جی تو قدم نہ بڑھانا اور موت پہ آ کے ٹسوے بہانا کھلی منافقت۔
موت ایک ایسا تصور ہے جس کو کچھ لوگ پراسراریت سے بھرپور ایک رومانوی تصور مانتے ہیں، کچھ کے لئے موت اگلے جہان کے سفر کا آغاز ہے اور اکثریت کے لئے ابدی جدائی کا پیغام۔ مگر ہر تصور میں جو شے مشترک ہے وہ ’دکھ‘ ہے۔ اسی جذباتی کیفیت کو حقیقت پسندی سے جھیلنے کی تعلیم۔ یعنی ڈیتھ ایجوکیشن کو باقاعدہ نصاب میں شامل کرنے کے لئے امریکہ میں اس پر کئی برس کام کیا جاتا رہا اور پھر نا جانے کب یہ نظریہ تعلیمی سیاست کی نظر ہوا۔ دنیاوی تعلیم کی ضرورت کو بر تر جان کر اسے نصاب سے منہا کر دیا گیا۔
موت کی طرف انسانی ردعمل مختلف انواع کے ہوتے ہیں۔ آہ و بکا سے لے کر گہری خاموشی میں ڈوب جانے تک۔ غم سے لے کر اذیت تک۔ مایوسی سے لے کر خود کشی تک۔ اور کئی بار تو موت کو انتہائی غیر سنجیدگی سے لینا ہی سب سے بڑا المیہ بن جاتا ہے۔ اس پہلو سے بھی کون انکار کرے گا کہ موت جتنی بڑی حقیقت ہے اتنا ہی ہم اسے نظر انداز بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ آج کل دنیا پہ عالمی وبا کووڈ 19 کی صورت جس طرح موت کا خوف طاری ہے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسان کی بے چینی جو اسے اپنے محفوظ گھر میں ہی بے سکون کیے دے رہی ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
موت کے ساتھ کیسے معاملہ کیا جائے؟ اس کی سوجھ بوجھ، اس کے بارے میں بنیادی حقائق کا علم، اور اس کے لئے تیاری کے لوازمات۔ یہ تمام پہلو ’موت کی تعلیم‘ کے تحت باقاعدہ تعلیمی نصاب میں پڑھا کر انسان کو ایک بہت بڑی قابلیت اور قوت عطا کی جا سکتی ہے۔
ہمارے موجودہ تعلیمی نصاب میں ہر اس شے کی کمی ہے جو انسان کو ایک اچھی معاشرتی اور اخلاقی زندگی گزارنے کی تربیت کر سکے۔ مثلاً۔ اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا۔ زندگی کے چیلنجز کو قبول کرنا۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اپنے سہارے کا تیقن دینا۔ مقابلے کے لئے خود کو تیار کرنا۔ عسرت سے عشرت یا عشرت سے عسرت میں بدلتے حالات میں اخلاقی کردار کی حفاظت کرنا۔ اور ایسے کتنے ہی موضوعات ہیں جن کا احاطہ کئی بار تو مختلف نصابوں میں پڑھائے جانے والے آٹھ آٹھ دس دس مضامین میں سے ایک بھی نہیں کرتا۔
اگر یہ موضوعات کہیں شامل نظر آتے بھی ہیں تو مذہب کے گرد آلود غلاف میں لپٹے کچھ اس طرح کہ بجائے ایک حقیقت اور عملی ضرورت کے یہ سب دقیانوسی تصورات دکھنے لگتے ہیں۔ (یہاں کسی مذہب کو دقیانوسی نہیں کہا جا رہا بلکہ مذہب کی تعلیم کے انداز کی نشاندہی کی گئی ہے )۔
موت کی تعلیم ایک ایسا مضمون ہے جس میں بنیادی طور پہ وہ تنظیم سکھائی جاتی ہے جو ہمارے یہاں بری طرح سے مفقود ہے۔ یعنی۔ ہمارا موت کی طرف درست رویہ۔ اپنے پیاروں کی موت کو ایک حقیقت کی طرح تسلیم کرنا اور ان کی جدائی کے صدمے سے نکل پانا۔ ہر ذی روح کی موت کو سنجیدگی سے لینا۔ کسی مرتے ہوئے انسان کی مدد کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا اور خود اپنی موت کو ایک حقیقت جان کر معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنا۔
ماہرین تعلیم اسے اکتسابی علم قرار دیتے ہوئے باقاعدہ اسے ایک مضمون کے طور پڑھائے جانے کے قائل ہیں۔ ایسا سمجھنا کہ یہ تعلیم ’مخفی نصاب‘ کے طور دی جا سکتی ہے یا یہ ذمہ داری موٹیویشنل سپیکرز کے سر ڈال کر اس کو اصل نصاب سے خارج رکھنا میرے نزدیک ایک ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ ہم اپنی قوم کے غیر سنجیدہ رویوں، وبا کے دنوں میں اٹکھیلیوں، اور معاشرے میں ہر سطح پہ بد عنوانی کی صورت بھگت رہے ہیں۔