23 مارچ ہے۔ ٹھیک 80 برس پہلے ہندوستان کے مسلمانوں نے تقسیم کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ مطالبہ تسلیم ہو گیا، دو ملک وجود میں آ گئے لیکن اس تقسیم کے اسکرین پلے سے آج تک لہو ٹپک رہا ہے۔ لہو جو شریانوں کو کاٹ کے بہایا جاتا ہے۔ لہو جو عزتوں کی ہولی کھیل کر آنکھوں کے راستے ٹپکایا جاتا ہے۔
ایک کتھا سنانا چاہتے ہیں ہم!
یہ کہانی سات دہائیوں سے کہی جا رہی ہے لیکن اذیت ہے کہ زائل نہیں ہوتی، درد ہے کہ کم نہیں ہو پاتا۔ زخم ہے کہ مندمل نہیں ہوتا۔ یہ صرف ایک خطہ زمین بانٹ لینے کی نہیں، ان گنت دلوں کی تقسیم کی داستان ہے جہاں دو قوموں نے اپنے آدرشوں کے مطابق زندگی جینے کا طریقہ ڈھونڈا تھا۔
دیس کا خواب دیکھنے کا آغاز تو بہت پہلے ہوا لیکن تئیس مارچ انیس سو چالیس کو اس خیال کو ایک مطالبے کی شکل دی گئی۔ اب ہر طرف تعبیر کا انتظار تھا، امیدیں ہر طرف مسرت کی کرنیں پھیلاتی تھیں، خیال کے جگنو دلوں میں اجالا کرتے تھے۔ جدوجہد کامیاب ہوئی تھی، شادیانے بجے تھے،شہنائیاں گونجی تھیں لیکن ساتھ میں لہو کی بو بھی فضا میں رچ بس گئی تھی۔ محبتوں نے دم توڑا تھا اور انسان نے اپنے جیسے انسان ہی کو رسوا کیا تھا۔ ایک نفرت کا لاوا پھوٹ پڑا تھا جس نے انسانی قدروں کو جلا کے راکھ کے ڈھیر میں بدل ڈالا تھا۔
خوابوں اور خیالوں سے سجے اس تاج محل میں جہاں نظریات کی اینٹیں چنی گئی وہاں بہت کچھ ایسا ہوا جس نے آزادی کی اس خوشی کو گہنا دیا۔
تقسیم کی اس جنگ میں عورت وہ جنس ٹھہری جو اس بری طرح کچلی اور مسلی گئی جیسے کوئی شیریر بچہ کھلنڈرے پن سے اڑتی تتلی کو اپنی انگلیوں میں مسل کے اس کے پر توڑ ڈالے، اجلے دھنک رنگ مٹا ڈالے، اور اپنی انگلیوں پہ کچھ مٹے مٹے رنگ دیکھ کے احساس جرم کی بجائے یہ سوچے کہ اس سب میں جیت کی سرشاری کس قدر تھی۔
عقل آج تک یہ سمجھنے سے عاری ہے کہ اس سارے قضیے میں عورت کہاں سے قابل سزا ٹھہری؟ جیت کے جوش میں عورت کو اس درندگی کا نشانہ کیوں بنایا گیا، لکیر کے اس طرف بھی اور لکیر کے اس طرف بھی۔
حتمی جواب کا تو کسی کو علم نہیں، بس ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ کامیابی کا جشن منانے کے لئے ہر طاقتور کو ایک کمزور کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ سو اس نشے میں دونوں طرف کا انسان مردانگی کی وحشت کا شکار ہوا تھا، وحشت دیوانگی میں بدلی تھی اور مذہب بھی کوئی سد باب نہ کر سکا کہ جنون کی زد میں آئے ہوۓ مرد کا کوئی مذہب نہیں تھا، لکیر کے اس طرف بھی اور لکیر کے اس طرف بھی۔
سعادت حسن منٹو، اردو ادب کا وہ نباض جو اس دیوانگی کو دیکھ کے چپ نہ رہ سکا اور معاشرے کو یہ تعفن دکھانے کا فیصلہ کیا۔
ایشر سنگھ کا کردار جو اقرار کرتا ہے کہ جس مکان پہ اس نے دھاوا بولا تھا، سات مردوں کو قتل کرنے کے بعد اس نے بچ جانے والی سندر لڑکی کا کچھ اور مصرف ڈھونڈا تھا۔
اس بربریت کے عالم میں بھی اسے عورت صرف ایک جسم دکھائی دیتی تھی اور نظریات سے اختلاف کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ مرد کو نہیں ملا تھا کہ عورت کو روند کے تاراج کیا جائے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بشن سنگھ جو پاگل خانے میں تھا، خود سے ہی پوچھتا رہتا تھا کہ اس کی بیٹی روپ کور اب کیوں ملنے نہیں آتی؟ رگوں میں ایک سرد لہر دوڑ جاتی ہے جب فضل دین اسے ملنے آتا ہے اور بتاتا ہے،
“میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی….تمہارے سب آدمی ہندوستان چلے گئے…. تمہاری بیٹی روپ کور…”
وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا، “بیٹی روپ کور!”
فضل دین نے رک رک کر کہا”ہاں… وہ….وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے… ان کے ساتھ ہی چلی گئی”
فضل دین جو کہہ نہ سکا، وہ قاری کے لئے سمجھنا مشکل نہیں اور یہی منٹو کی نشتر زنی کا کمال تھا جو اپنوں کو بھی معاف کرنے کو تیار نہیں تھا۔
سردار گورمکھ سنگھ کا لڑکا جو عید کی سویاں صغری کو دے کر مرے ہوئے باپ کا وچن نبھانے آیا تھا۔
“سردار گورمکھ سنگھ کا لڑکا سنتوکھ، جج صاحب کے مکان کے تھڑے سے اتر کر چند گز آگے بڑھا تو چار ڈھاٹے باندھے ہوئے آدمی اس کے پاس آئے ” کیوں سردار جی، اپنا کام کر آئے، اب کر دیں معاملہ ٹھنڈا”
” ہاں….. جیسے تمہاری مرضی ” یہ کہہ کر گورمکھ سنگھ کا لڑکا چل دیا۔
عورت نہ صرف کچلی گئی بلکہ مال غنیمت سمجھ کے بانٹی بھی گئی۔ بالکل اسی طرح جیسے بچے بالے ڈور کٹنے کے بعد ڈولتی پتنگ کو پکڑنے بھاگتے ہیں اور رواں رواں خوشی سے تھرکتا ہے۔ مظلومیت کی اس تصویر کو راجندر سنگھ بیدی نے “لاجونتی”کے روپ میں امر کر دیا،
“مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں، جن کے ماں، باپ، بہن اور بھائیوں نے انھیں پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ آخر وہ مر کیوں نہ گئیں؟ اپنی عفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انھوں نے زہر کیوں نہ کھا لیا؟ کنوئیں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی؟ وہ بزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں۔ سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے موت کو گھور رہی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک انھیں نہیں پہچانتے۔ پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی۔ سہاگ ونتی۔۔۔ سہاگ والی۔ اور اپنے بھائی کو اس جمّ غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی۔ تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تھا رے۔
مجمعے میں سے کوئی آواز آتی،
“ہم نہیں لیتے مسلمران (مسلمان) کی جھوٹی عورت”
کرشن چندر نے بھی روح پہ لگے زخموں کو الفاظ کا ایسا روپ دیا جن سے قطرہ قطرہ لہو رستا ہے۔ “پشاور ایکسپریس” وہ آئینہ ہے جو بٹوارے میں دونوں طرف کے لوگوں کی وحشت کو عیاں کر کے دکھا دیتا ہے،
“وزیر آباد کا اسٹیشن لاشوں سے پٹا ہوا تھا۔ شاید یہ لوگ بیساکھی کا میلہ دیکھنے آئے تھے۔ لاشوں کا میلہ۔ شہر میں دھواں اٹھ رہا تھا اور ہجوم کی پر شور تالیوں اور قہقہوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھی۔ چند منٹوں میں ہجوم اسٹیشن پر آگیا۔ آگے آگے دیہاتی ناچتے گاتے آرہے تھے اور ان کے پیچھے ننگی عورتوں کا ہجوم، مادر زاد ننگی عورتیں، بوڑھی، نوجوان، بچیاں، دادیاں اور پوتیاں، مائیں اور بہوئیں اور بیٹیاں، کنواریاں اور حاملہ عورتیں، ناچتے گاتے ہوئے مردوں کے نرغے میں تھیں۔ عورتیں ہندو اور سکھ تھیں اور مرد مسلمان تھے اور دونوں نے مل کر یہ عجیب بیساکھی منائی تھی، عورتوں کے بال کھلے ہوئے تھے۔ ان کے جسموں پر زخموں کے نشان تھے اور وہ اس طرح سیدھی تن کر چل رہی تھیں جیسے ہزاروں کپڑوں میں ان کے جسم چھپے ہوں، جیسے ان کی روحوں پر سکون آمیز موت کے دبیز سائے چھا گئے ہوں۔ ان کی نگاہوں کا جلال دروپدی کو بھی شرماتا تھا اور ہونٹ دانتوں کے اندر یوں بھنچے ہوئے تھے۔ گویا کسی مہیب لاوے کا منہ بند کئے ہوئے ہیں۔ شاید ابھی یہ لاوا پھٹ پڑے گا اور اپنی آتش فشانی سے دنیا کو جہنم راز بنا دے گا۔ مجمع سے آوازیں آئیں۔
’’پاکستان زندہ باد‘‘
’’اسلام زندہ باد‘‘
’’قائد اعظم محمد علی جناح زندہ باد‘
ٹرین سرحد پار کر کے کیا دیکھتی ہے،
“جالندھر کے پاس جنگل میں بہت سارے مسلمان مزارع اپنے بیوی بچوں کو لئے چھپے بیٹھے ہیں۔ ست سری اکال اور ہندو دھرم کی جے کے نعروں کی گونج سے جنگل کانپ اٹھا، اور وہ لوگ نرغے میں لے لئے گئے۔ آدھے گھنٹے میں سب صفایا ہو گیا۔ بچے اور مرد ہلاک ہو گئے تو عورتوں کی باری آئی اور وہیں اسی کھلے میدان میں جہاں گیہوں کے کھلیان لگائے جاتے تھے اور سرسوں پھول مسکراتے تھے۔ اسی وسیع میدان میں، انہیں شیشم، سرس اور پیپل کے درختوں تلے وقتی چکلے آباد ہوئے۔ پچاس عورتیں اور پانچ سو خاوند، پچاس بھیڑیں اور پانچ سو قصاب، پچاس سوہنیاں اور پانچ سو مہینوال”
اس سے زیادہ یاد کرنے کی ہمیں تاب نہیں۔ دل بوجھل ہوا جاتا ہے کہ فضا میں لو کے تھپیڑوں کی طرح ان بے کس عورتوں کی آوازیں تیرتی پھرتی ہیں، کچھ کہتی ہیں، کچھ پوچھنا چاہتی ہیں۔ آزادی کے ماتھے پہ عورت ایک ایسا جھومر ہے جو اپنے ہی لہو میں بھیگ کے سرحد کے دونوں طرف ایک ہی سوال پوچھتا ہے۔ ہر برس یہ خیال زخمی دلوں میں سر اٹھاتا ہے کہ عورت کو کس جرم کی سزا دی گئی؟
بات صرف ہندوستان اور پاکستان کی نہیں، روس اور جرمنی کی نہیں، ویت نام اور افغانستان کی نہیں، بوسنیا اور سربیا کی نہیں، انسانی تاریخ میں طاقت ور کی تلوار مردوں کی گردن کاٹتی آئی ہے اور عورت کی آبرو۔
آج کل کرونا نے زبردستی ہم سب کو گھروں میں بٹھا رکھا ہے۔ ممکن ہے اس فرصت میں کچھ لوگ کوئی کتاب پڑھنا چاہیں۔ اگر پسند آئے تو مارٹا ہلرز (Marta Hillers) کی کتاب A woman in Berlin پڑھ لیجئے۔ اور اگر کتاب پڑھنے کی فرصت نہیں ہو یا فلم دیکھنا زیادہ پسند ہو تو اسی کتاب پر 2008 میں بننے والی فلم A woman in Berlin دیکھ لیجئے۔ ڈائریکٹر کا نام Max Färberböck ہے۔ ارے ہاں، اگر اپنی زمین پر گزرنے والی قیامت کو محسوس کرنا ہے تو بھیشم ساہنی کے ہندی ناول تمس کا اردو ترجمہ پڑھ لیجئے۔ تمس ہندی میں اندھیرے کو کہتے ہیں۔ اندھیرے کو عربی میں ظلمت کہا جاتا ہے۔ راولپنڈی کے بیٹے بھیشم ساہنی نے 47 کے اندولن کو اندھیرے اور ظلم کی زبان دی ہے۔ آپ مارٹا ہلرز کو پڑھیے یا بھیشم ساہنی کو، سوال ایک ہی اٹھے گا، وہی سوال جو دنیا بھر کی عورت صدیوں سے پوچھتی آئی ہے کہ حاکمیت مردوں کی ہے تو عورت ریپ کیوں ہوتی ہے؟
کیا کوئی جواب ہے آپ کے پاس؟