کورونا وائرس: وبا کے دوران ذہنی صحت کا خیال کیسے رکھنا ہے؟

فرحت جاوید - بی بی سی اسلام اباد

وہ لوگ جو آئسولیشن کا شکار ہیں وہ اپنے سوشل نیٹ ورک قائم رکھیں

پیاز کھائیں، نہیں، پیاز نہ کھائیں۔
زکام ہے؟ دُور رہو۔۔۔ صرف زکام ہے؟ اچھا، کوئی مسئلہ نہیں۔
پاکستان میں آپ کو دو ہفتوں میں پتا چلے گا جب سب ہاتھ سے نکل جائے گا۔
ایران میں ہر طرف موت کی خبریں ہیں
یہ ہم پر عذاب ہے۔ میں اس شخص سے ملا جو کورونا پازیٹو ہے، اب کیا ہو گا
مجھے بخار ہے، اب قے آ رہی ہے، کیا مجھے بھی کورونا ہے؟
غلط اور درست کی قید سے بہت دُور، یہ وہ جملے ہیں جو ہر روز ٹی وی پر سننے کو ملتے ہیں یا سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ یہ سب وہ باتیں ہیں جو ماہرینِ نفسیات کے مطابق ہمارے ذہن پر نہایت منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔
ہم نے دو افراد سے بات کی جن میں سے ایک کورونا نیگیٹیو اور ایک پازیٹو ہیں، ان سے پوچھا کہ وہ ذہنی دباؤ کے شکار ہیں تو اس سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟
عائلہ (فرضی نام) لاہور کی رہائشی ہیں اور گذشتہ ہفتے وہ اور ان کے اہلخانہ اس وقت شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے جب انھیں کھانسی اور بخار نے آ لیا۔

کورونا بینر
BBC


بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عائلہ کہتی ہیں کہ وہ مسلسل اس بیماری کی علامات دیکھ رہی تھیں، ’میں اس وقت ڈر گئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب مجھے کورونا ہو گیا ہے جب میرے دو مزید ساتھی بھی عین اس وقت بیمار ہوئے جب میں بیمار ہوئی۔ اُس وقت مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے اہل خانہ کی تھی اور ان سب کی جنھیں میں اس ایک ہفتے میں ملتی رہی ہوں۔ میں سوچتی رہی کہ آخر یہ بیماری میں نے کہاں سے اپنے سر لی ہے۔‘
عائلہ کہتی ہیں کہ یہ وقت ان کے لیے شدید ڈپریشن کا تھا کیونکہ وہ بہت محتاط اور پریشان تھیں۔ ‘میں نے سب کو منع کر دیا کہ کوئی میرے کمرے میں نہیں آئے گا۔ میں اپنی ساس کو کہتی کہ وہ محتاط رہیں، میں اپنے والد کو سمجھاتی کہ وہ باہر نہ جائیں۔
’مجھے یہ فکر تھی کہ اگر مجھے کورونا ہی ہے تو خدانخواستہ اب تک یہ میری فیملی میں منتقل ہو چکا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہر وقت ماسک اور دستانے پہننا اور ہاتھ ہی دھوتے رہنا ایک الگ پریشانی تھی۔‘
عائلہ کا کورونا وائرس ٹیسٹ ہوا اور وہ منفی تھا۔ وہ دو روز تک اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہی ہیں۔ مگر اس ایک ہفتے کے دوران ہر طرف سے غلط اور درست معلومات کے انبار نے انھیں ’بیماری سے زیادہ اذیت دی۔‘
لاہور میں ہی بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر سے ایک ایسے مریض نے بات کی جو کورونا وائرس کا شکار ہیں۔ بظاہر وہ احسن طریقے سے اس بیماری سے لڑ رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں نے خوف میں مبتلا ہونے کے بجائے ’سیلف مینیجمنٹ‘ کی اور سب سے پہلے خود کو اپنی بیوی اور بیٹی سے علیحدہ کر لیا۔ میں نے منفی خبروں کی طرف دھیان نہیں دیا اور اپنے اہلخانہ کے ٹیسٹ کروا کر تسلی کر لی کہ وہ متاثر نہیں ہیں۔‘
کورونا کے یہ مریض اب تنہائی میں ہیں اور اس دوران انھوں نے کتابوں اور مثبت سوچ کو اپنا ساتھی بنایا ہے، وہ تیزی سے بہتر بھی ہو رہے ہیں۔

کورونا، تنہائی
Getty Images
اس بیماری کے شکار لوگوں کے اہلخانہ اور ان کے دوست احباب ان کا حوصلہ بڑھائیں اور انھیں بدنام نہ کریں

کورونا وائرس اور ذہنی صحت

عالمی ادارہ صحت نے تین روز قبل ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس عالمی وبا کے دوران ذہنی حالت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جبکہ ان منفی اثرات سے بچنے کی حکمت عملی بھی بتائی گئی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہرینِ نفسیات نے بھی کہا ہے کہ وبا پھوٹنے کی صورت میں ذہنی دباؤ کا شکار ہونا عام بات ہے لیکن اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فرح ربانی نے کہا کہ ’آپ اس بیماری کا شکار ہیں یا نہیں، کورونا وائرس کے ساتھ جڑا یہ جملہ کہ ’اس کا کوئی علاج نہیں‘، سب سے زیادہ ڈپریشن کا باعث بنتا ہے۔‘
لاہور سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح ملک کے مطابق ایسے مریض جن میں اس وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے ان کے لیے واٹس ایپ گروپ بنائے جائیں جہاں مثبت پیغامات اور ایسے لوگوں سے متعلق کہانیاں ہوں جو اس وائرس سے صحتیاب ہوئے ہیں۔
ان کے خیال میں حکومت کو ماہرینِ نفسیات کی ایک ٹیم بھی ہر ہسپتال اور قرنطینے میں تعینات کرنی چاہیے ’جو وہاں موجود لوگوں کی ہمت بڑھائے اور انھیں مایوسی سے نکالنے کے لیے ہر مریض کے ساتھ سیشن کا اہتمام کریں۔‘
کوئٹہ سے ماہرِ نفسیات ملالہ صاحب جان نے بی بی سی سے گفتگو میں اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ ’قرنطینے اور آئسولیشن وارڈ میں پہلے ہی دباؤ کا ماحول ہوتا ہے، ایسے میں معمولی تبدیلی کر کے یہاں رہنے والے مریضوں کو ذہنی آسودگی فراہم کی جا سکتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس بیماری کا شکار لوگوں کے اہلخانہ اور ان کے دوست احباب ان کا حوصلہ بڑھائیں اور انھیں بدنام نہ کریں۔
’انھیں بتائیں کہ یہ بیماری کسی کو بھی لگ سکتی ہے اور یہ کہ ان کی وجہ سے کسی کو یہ بیماری نہیں لگی۔ انھیں بتائیں کہ آپ ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمت اور علاج کے ساتھ اس بیماری سے جیت سکتے ہیں۔‘

کورونا، تنہائی
AFP
بڑی عمر کے افراد کو آسان اور سادہ زبان میں بتائیں کہ بیماری کیا ہے اور اس سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے

ڈاکٹر فرح ملک کے مطابق ’کورونا کے شکار مریض کو بتائیں کہ اس بیماری میں ان کا کوئی قصور نہیں، یہ ان کی کسی غلطی کا نتیجہ نہیں ہے۔ کیونکہ ایسے مریض پہلے ہی خود کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہوتے ہیں، انھیں بتائیں کہ ان کے ارد گرد موجود افراد خیریت سے ہیں۔‘
ملالہ صاحب جان یہ مشورہ بھی دیتی ہیں کہ خبریں زیادہ نہ سنی جائیں۔ ’آپ چند ویب سائٹس جن کے مستند ہونے پر آپ کو مکمل یقین ہے، ان سے خبریں سنیں اور دیکھیں۔ ایسی ویڈیوز، خبریں، پیغامات اور سوشل میڈیا کی پوسٹس نہ دیکھیں جو سنسنی پھیلاتے ہوں۔‘
وہ سمجھتی ہیں کہ عام لوگ جب اس وبا سے متعلق خبریں سنتے ہیں تو وہ انتہائی حد تک سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کی یا ان کے پیاروں کی جان ہی چلی جائے گی۔ اس لیے سوشل میڈیا استعمال کرنے میں وقفہ کریں، اس وبا سے متعلق ہیش ٹیگز کو بار بار فالو نہ کریں۔ آپ نے حفاظتی اقدامات کے بارے میں جان لیا، بس انہی پر عمل کریں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوگ کسی بیماری کی علامات یا خبریں پڑھ کر یہ وہم پال لیتے ہیں کہ انہیں بھی یہی بیماری ہے، جوکہ ایک غلط عادت ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘
ڈاکٹر فرح ملک نے بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’وہم آتے ہی اگلا مرحلہ اینگزائٹی کا ہے کہ ’اب کیا ہوگا؟‘، موت کا خوف آ جاتا ہے کہ کورونا کا تو علاج ہی نہیں، یہ سب منفی رویے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ ایک لاعلاج بیماری سے بچنا کیسے ہے؟ اگر آپ بچنے کے لیے اطمینان بخش اقدامات کرتے ہیں تو پھر ہر خوف سے آزاد ہو کر زندگی گزاریں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’جو لوگ قرنطینہ میں یا ’سیلف آئسولیشن‘ میں ہیں، وہ ایک دوسرے سے رابطے رکھیں، کال کریں، میسج بھیجیں۔ وہ جن کے عزیز یا دوست اس کا شکار ہو چکے ہیں، ان کی بات تحمل سے سنیں اور انھیں حوصلہ دیتے رہیں۔‘

کورونا، تنہائی
Getty Images
ایسی سرگرمیوں کو اپنی روز مرّہ زندگی کا حصہ بنائیں جو ذہنی دباؤ سے نکلنے میں مدد دے سکیں

عالمی ادارہ صحت کی ذہنی صحت سے متعلق تجاویز

عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او نے بھی کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاؤ کے دوران ذہنی صحت کے حوالے سے تفصیلی سفارشات جاری کی ہیں اور کورونا وائرس کے مریضوں، ہیلتھ ورکرز اور قرنطینہ جیسے مراکز کے منتظمین کو اپنی اور خود سے منسلک دیگر افراد کی ذہنی آسودگی کا خیال رکھنے کی تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز کے مطابق
  • عام لوگ دن میں ایک یا دو بار خبریں سنیں یا سوشل میڈیا پر وائرس سے متعلق مستند خبریں پڑھیں۔ حقیقت اور افواہ میں فرق رکھنے لیے صحت کے عالمی اداروں یا مقامی مستند صحت کے مراکز کی خبروں کے سوشل پلیٹ فارمز کا رخ کریں
  • مثبت کہانیاں پھیلائیں، ان افراد کی خبریں جو اس بیماری سے صحتیاب ہوئے۔ ایسے افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
  • ان لوگوں کی کہانیوں کی تشہیر کریں جنھوں نے اپنے پیاروں کا اس مشکل وقت میں ساتھ دیا اور صحتیاب ہونے میں ان کی مدد کی۔
  • ڈاکٹروں اور نرسوں کو خراجِ تحسین پیش کریں جو اس وبا سے متاثرہ افراد کی جان بچا رہے ہیں۔

کورونا، تنہائی
Getty Images
ڈاکٹروں اور نرسوں کو خراجِ تحسین پیش کریں جو اس وبا سے متاثرہ افراد کی جان بچا رہے ہیں

ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر ہیلتھ ورکرز

کورونا وائرس کے مریضوں کے ساتھ براہ راست رابطے کے دوران ذہنی دباؤ اور ڈپریشن ایک قدرتی عمل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کمزور ہیں یا آپ یہ کام نہیں کر سکتے۔
ایسی سرگرمیوں کو اپنی روز مرّہ زندگی کا حصہ بنائیں جو ذہنی دباؤ سے نکلنے میں مدد دے سکیں، جیسا کہ صحتمند خوراک کھائیں، کام کی شفٹ کے دوران وقفہ لیتے رہیں، فیملی اور دوستوں سے بات کرتے رہیں، جسمانی سرگرمی جیسا کہ ورزش وغیرہ کے لیے وقت نکالیں، اور ذہنی دباؤ دور کرنے کی عارضی اور غیرصحت مند اشیا جیسا کہ سگریٹ یا شراب نوشی سے پرہیز کریں۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے اہلخانہ یا دوست احباب آپ سے ملنے سے پرہیز کریں تو ایسے میں ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے بات کریں، مگر بات ضرور کریں۔
بڑی عمر کے شہری زیادہ غصے اور پریشانی کا اظہار کر سکتے ہیں، ایسے میں تحمل کا مظاہرہ کریں اور ان کی دلجوئی کریں۔ بڑی عمر کے افراد کو آسان اور سادہ زبان میں بتائیں کہ بیماری کیا ہے اور اس سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

کورونا کے باعث یا خودساختہ تنہائی میں ذہنی صحت

وہ لوگ جو آئسولیشن کا شکار ہیں وہ اپنے سوشل نیٹ ورک قائم رکھیں اور اپنے عزیز و اقارب سے رابطے رکھیں۔
یہ رابطہ فون پر رکھا جا سکتا ہے جبکہ ’سیلف آئسولیشن‘ کی صورت میں اپنے گھر یا کمرے میں احتیاط کے ساتھ اپنی روز مرہ کی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔
ذہنی دباؤ کے وقت اپنی ضروریات اور احساسات پر توجہ رکھیں، وہ کام کریں جن سے آپ کو خوشی ملتی ہے، اپنی کھانے اور سونے کی عادت کو بہتر کریں، اور مسلسل خبروں سے دُور رہیں۔