ملیکہ خان
سالوں سے سنتے آئے ہیں کہ 14 فروری کومحبت کا عالمی دن منایا جاتا ہے، محبت کرنے والے ایک دوسرے سے تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں، اظہار محبت کرتے ہیں اور اس دن کو یادگار بنانے کی ہر طور سعی کرتے ہیں مگر جہاں محبت کرنے والے ہوں اور وہاں محبت کے دشمن نہ ہوں ایسا تو ممکن ہی نہیں، زمانے کا یہ دستور اور چلن صدیوں سے جاری وساری ہے، لوک داستانیں تو پیار کے دشمنوں سے بھری پڑی ہیں اور کہیں یہ دشمنی اتنی آگے بڑھی کے کئی پریمی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہمیشہ کے لیے داستانوں میں اَمر ہوگئے
پاکستان میں بھی چودہ فروری یعنی ”ویلنٹائن ڈے“ کی خوبصورتی کوبدصورتی میں بدلنے کے لیے حکومتی سطح سے لے کرچھوٹی سطح تک ہر سال جتن کیے جاتے رہے، کبھی میڈیا پرویلنٹائن ڈے کی تشہیر کی ممانعت کی جاتی ہے تو کبھی عوامی مقامات پر محبت کو پابند سلاسل قرار دیا جاتا رہاتو کبھی شہر اقتدار میں غبارے بیچنے والے اور گل فروش عتاب کا نشانہ بنے، غرض ہر سال ویلنٹائن ڈے کو گرفتار کرنے کی بھرپور کوشش ہوتی ہے
ابھی ”ویلنٹائن ڈے“ منائے جانے میں تقریباً ایک ماہ باقی ہے مگرابھی سے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی تیاری کر لی گئی ہے؟ وجہ سن کر آپ بھی حیر ت زدہ رہ جائیں گے، فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی نے ویلنٹائن ڈے کا متبادل ڈھونڈا ہے! جی ہاں ! بات حجاب ڈے، حیا ڈے سے نکل کر ”سسٹرڈے“ تک آپہنچی ہے، یونیورسٹی انتظامیہ اس دن ”سسٹر ڈے“ منارہی ہے، وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا کا کہنا ہے کہ مغربی ثقافت میں رنگنے کے بجائے ہم اس دن کو بہنوں کے دن کے طور پر منائیں گے، اس فیصلے کا مقصد اسلامی روایات کو فروغ دینا ہے، اورتو اور یونیورسٹی انتظامیہ نے ”سسٹر ڈے“ کی مناسبت سے طالبات میں اسکارف اور عبایا بھی بانٹنے کافیصلہ کیاہے
یہ خبر ہماری نظروں سے گزری تو ہمارا بھی وہی ردعمل تھا جو اس وقت آپ کاہے، سوچنے کی ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی اقدار کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی یہ دلیل انتہائی بودی ہے۔ بات اگر اسلامی اقدار پر آہی گئی ہے تو جس عورت سے آپ کا نکاح جائز ہے توشرعاً اسے آپ بہن نہیں کہہ سکتے۔ سگی بہن ہی بہن ہوتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکارف یا عبایا بطور تحفہ دینے سے کیا ایک لڑکا اور لڑکی بہن بھائی بن سکتے ہیں؟ کیا یہ اسلامی کلچر ہے؟ یا اسلام کے نام پر خرافات کی تبلیغ کی جارہی ہے؟ اگر ”سسٹر ڈے“ ہی منانا تھا تو ”برادرڈے“ منانے میں کیا قباحت ہے؟ ٹھیک ہے اسلام میں ”ویلنٹائن ڈے“ منانے کا تصور نہیں تو ”سسٹر ڈے“ منانے کابھی نہیں ہے۔
فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے اس فیصلے سے پبلک ڈبیٹ شروع ہوچکی ہے، حسب سابق کچھ لوگ ”یوم ہمیشرہ“ منانے کے حق میں ہیں تو کچھ اس کے مخالف ہیں۔ دنیا مریخ سے آگے پہنچ گئی مگر ہم کس نہج جارہے، اس خبر کی گونج ظاہر سی بات ہے عالمی سطح پر بھی سنی جائے گی، پاکستان میں ہر چیز الٹ کیوں ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو پاکستان کا مذاق بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے،
ویسے من حیث القوم ہم نفرتوں، سازشوں، انتقام میں مصروف رہنے والی قوم بن چکے ہیں، خوشی رہنے کے مواقع جو خال خال میسر ہوتے ہیں انھیں بھی اپنے بغض اور کینہ پرور فطرت کی نذر کردیتے ہیں۔ کسی کوخوش ہوتا دیکھ کر ہماری طبیعت مکدر ہوجاتی ہے، تنقید، طنز، طعنے تشنے دینا ہمارا اجتماعی رویہ بن چکا ہے، بسنت منانا، شادی بیاہ پر ناچنا گانا بھی گویا جرم ٹھہرا۔
اس گھٹن زدہ معاشرے میں محبتیں بانٹنے کو خدارا جرم نہ بنائیں، جیئیں اور جینے دیں کی حکمت عملی کو اپنائیں، ہمارے خیال میں محبت کے لیے تو شاید یہ زندگی بھی ناکافی ہے، لوگ کیسے نفرتوں میں ہی زندگی بسر کردیتے ہیں۔ ویسے ہمارے خیال میں سال کا کوئی ایک دن محبت کے لیے مخصوص نہیں کیا جاسکتا، باقی یہ کہ میرا پیغام ہے محبت جہاں تک پہنچے۔