کیا آپ بھی کسی بلبلے میں رہ رہے ہیں؟
کیا میں ابھی تک ایک بلبلے میں رہ رہی ہوں؟
آخر ہم اتنی بیسک باتیں کیوں کر رہے ہیں؟
انسان تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ؟
کیا میں ابھی تک ایک بلبلے میں رہ رہی ہوں؟
آخر ہم اتنی بیسک باتیں کیوں کر رہے ہیں؟
انسان تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ؟
یہ سب کوئی ایسی فلسفیانہ، علمی و ادبی باتیں نہیں تو پھر ہم کو کیوں کرنی پڑ رہی ہیں؟
لکھنی پڑ رہی ہیں اور پھر چھپ بھی رہی ہیں۔
لکھنی پڑ رہی ہیں اور پھر چھپ بھی رہی ہیں۔
میں اس بلبلے میں رہ کر ادب فلسفے اور آرٹ کے شاہکاروں سے intellectual orgasm کے مزے اٹھاؤں؟ یا اس بلبلے سے باہر ریالٹی کے کیچڑ میں اتر کر اپنے دوستوں خالد سہیل، لبنی مرزا اور زہرہ نقوی کی طرح کنول کے پھول اگانے کی جرات کروں؟
یہ ان سوالات میں سے چند سوال تھے جو آج زہرہ نقوی کے مضمون ”روشن خیال باپ کی خوش قسمت بیٹیاں“ پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں شور مچانے لگے۔ زہرہ کو یہ مضمون لکھنے کی تحریک لبنی مرزا اور خالد سہیل کے مضامین ”نوید کی گرل فرینڈ“ اور ”میری جوان بیٹی کا بوائے فرینڈ“ پر کیے گئے کمنٹس سے ملی۔ اب میری شامت کہیے کہ میں نے یہ سوال زہرہ نقوی اور خالد سہیل سے پوچھ ڈالے اور اس جرم کی پاداش میں مجھے ان دونوں کی طرف سے ریالٹی کے کیچڑ میں اترنے اور کنول کے پھول اگانے کی سزا سنائی گئی۔ میرے یہ دونوں دوست تو نروان پراپت کرچکے اس لیے کیچڑ میں بھی کنول کے پھول اگاتے پھرتے ہیں اور یہاں معاملہ یہ ہے کہ سوائے چند مینڈکوں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا بلکہ وہ کمبخت بھی ہاتھ سے پھسل جاتے ہیں اور زکام ہو جاتا ہے سو الگ۔
خیر توبات شروع ہوئی تھی بلبلے یا ببل سے۔ آخر یہ بلبلہ کیا ہے جس میں میں رہ رہی تھی یا ہوں؟ اس کے لیے مجھے چالیس سال پیچھے اس گھر میں جانا پڑے گا جہاں میرا جنم ہوا۔ ایسی سوچ رکھنے والا خاندان جہاں کتاب واحد مشغلہ تھی اور پڑھنا لکھنا واحد کھیل۔ کتاب ہی واحد دوست، ہم دم اور دم ساز — کتاب ہی واحد اینٹرٹیمنٹ اور کتاب ہی اپنے اندر اور باہر کی تمام دنیاؤں سے رابطے کا ذریعہ— کتاب ہی اچھی اور بہتر زندگی کی امید—حد تو یہ ہے کہ نمود و نمائش کا سامان بھی یہی کتاب رہی— جب لڑکیاں برانڈڈ بیگ لئے یونیورسٹی آیا کرتیں تو میں ہاتھ میں منطق الطیر اور ڈاس کیپیٹل تھامے ان سے زیادہ اِترایا کرتی۔ میری والدہ نے تو بچھو تک اپنی اکنامکس کی کتاب سے مار ڈالا تھا تو یہ سسٹم اور روایات کیا چیزیں تھی بھلا—ہم مڈل کلاس لوگ تھے۔ ہمارے دکھ کا سبب بھی کتاب رہی اور زندگی کے ہرمحاذ پر ہمارا ڈیفینس میکینزم بھی کتاب ہی رہی۔
بقول جون ایلیا
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس زمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس زمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
ہمارے گھر میں لڑکے اور لڑکی میں کوئی تفریق نہ تھی بلکہ لڑکیوں کو کوئی ایسی مراعات حاصل نہ تھیں کہ وہ لڑکوں کی نسبت کم تعلیم حاصل کرتیں، کم عمر میں شادی کر کے سکون سے گھر بیٹھ کے بچے پالتیں، مزے مزے کے کھانے پکاتیں اور ٹی وی دیکھتیں۔ نہ ہی ہمارے ہاں کے لڑکوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ گھر کی خواتین کو پابند کر سکتے کہ کیسے کپڑے پہنیں، کیسے بال کٹوائیں، لڑکے دوست نہ بنائیں وغیرہ وغیرہ— اس لیے خاندان کی اکثر خواتین نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ تھیں بلکہ معاشی طور پر خود مختار بھی تھیں۔
شادی سمیت زندگی کے تمام فیصلے کرنے کا حق انہیں حاصل تھا حتی کہ وراثت میں بھی برابر کا حصہ دیا جاتا تھا۔ مجھ سے پچھلی جنریشن یعنی خالہ، ماموں، چچا، پھپھو نہ صرف مخلوط نظام تعلیم کا حصہ رہے بلکہ انہوں نے اپنی صنف مخالف میں سے بے حد عزیز دوست بھی بنائے جن میں سے چند سے آج میری بھی دوستی کا خوبصورت رشتہ قائم ہے اور اسی دوستی نے مجھے انسانوں کو عورت اور مرد کی درجہ بندیوں کی بجائے بطور انسان دیکھنا سکھایا۔
اس گھر میں آزادی، خود مختاری اور پیرنٹنگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس سال میں نویں جماعت میں پہنچی وہ سندھ بورڈ کا پہلا سال تھا جب بائیالوجی کی جگہ کمپیوٹر سائنس اختیاری مضمون کے طور پر متعارف ہوا۔ سکول میں ہم سب سٹوڈنٹس کو فارم دیے گئے کہ اپنے مضمون منتخب کر کے فارم بھر دیں اور اگلے دن جمع کروا دیں۔ میں نے اسی وقت بائیالوجی کی جگہ کمپیوٹر سائنس منتخب کیا، فارم بھرا اور اپنی ٹیچر کو دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ گھر لے جاؤ اور اپنے پیرنٹس سے پوچھ لو۔ مجھے بہت حیرت ہوئی اور میں نے کہا کہ پیرنٹس سے کیوں پوچھ لوں؟ پڑھنا تو مجھے ہے۔ گھر آکر یہ بات میں نے اپنی والدہ کو بتائی اور یہ بھی بتایا کہ ٹیچر نے کہا تھا کہ پیرنٹس سے پوچھ لو۔ لیکن میں نے سوچا کہ جب پڑھنا مجھے ہے تو فیصلہ بھی مجھے کرنا ہو گا اور اس کے نتائج بھی مجھے ہی بھگتنا ہوں گے۔
مجھے آج تک اپنی والدہ کا ری ایکشن یاد ہے۔ انہوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور انتہائی خوشی سے یہ بات سب کو بتائی اور کہا ”لو بھئی آج سے میری بیٹی نہ صرف زندگی کے فیصلے کرنے میں خود مختار ہو گئی ہے بلکہ ان فیصلوں کی نتائج کی ذمہ داری لینے کو بھی تیار ہے۔ اب مجھے اس کی کوئی فکر نہیں —“ شاید یہی بے فکری تھی جو اس واقعے کے دو سال بعد وہ مجھ کو میری زندگی اور میرے فیصلوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ گئیں۔
قصّہ مختصر، اس لمبی چوڑی خاندانی تفصیل کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ اندازہ لگا سکیں کہ کہ وہ کیا محرکات تھے جس نے میرے ارد گرد وہ بلبلہ بنا دیا جس کے اندر کی دنیا حقیقت سے بہت مختلف تھی اور میں اس بلبلے کے اندر اسی ایلوژن کا شکار رہی کہ دنیا کے تمام لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے دو چار لوگ میرے ارد گرد ہیں۔ یا اگر کچھ لوگ مختلف ہوتے بھی ہیں تو اس کی وجہ ناخواندگی ہے یا کوئی ذہنی عارضہ۔
اب دوسرا سوال یہ کہ ہم اتنی بیسک باتیں کیوں کر رہے ہیں؟ انسان تو سب ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ سب تو کوئی ایسی فلسفیانہ، علمی اور ادبی باتیں نہیں۔ تو پھر ہم کو کیوں کرنی پڑ رہی ہیں؟ لکھنی پڑ رہی ہیں؟
سب سے پہلے تو مجھے اس بات کا ادراک کب اور کیونکر ہوا کہ میں ایک بلبلے میں زندگی گزار رہی ہوں — جب میں نے 2001 میں اپنی نظم ”امید“ ایک انتہائی قریبی اور عزیز انسان کو سنائی اور اس نے کہا کہ، ”ایسی نظمیں لکھنے کے بعد آپ امید کرتی ہیں کہ آپ کی شادی کسی مڈل کلاس فیملی میں ہو جائے گی؟ “ میرے لیے سوال سے زیادہ یہ بات حیران کن تھی کہ یہ سوال ایک ایسے انسان کی طرف سے کیا گیا ہے جس نے خود انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ اس سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ شادی کی قیمت کے طور پر میں سوچنا نہیں چھوڑ سکتی۔
تو جناب ہم اتنی ہی بیسک باتیں کر رہے ہیں اور اس لیے کر رہے ہیں کہ سب انسان ویسے نہیں ہوتے جیسے میرے بلبلے میں ہوتے ہیں، چاہے ان کے پاس بڑی بڑی تعلیمی اسناد اور ڈگریاں ہی کیوں نہ ہوں۔ چاہے انہوں نے موٹی موٹی کتابیں ہی کیوں نہ پڑھ رکھی ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام سوچنا سکھاتا ہی نہیں۔ یہ نظام کاپی پیسٹ سکھاتا ہے، ڈیٹا پروسیسنگ نہیں۔ یہ نظام بہترین نقال تو پیدا کر سکتا جو اصل کا ہو بہو رپلیکا بنا سکتے ہیں، مگر تخلیق کار نہیں۔
آپ پیدا کرتے رہیے ڈاکٹر، انجنیئر مگر یہ جہالت بدستور قائم رہے گی کیونکہ جہالت ان تاریک ذہنوں میں پلتی ہے جہاں تجسس کی کرنیں نہ پھوٹتی ہوں اور سوالات کے بلب روشن نہ ہوتے ہوں۔ گزشتہ روز یہی سوال میں نے سہ ماہی رسالے ”آج“ کے بانی اور مدیر اجمل کمال سے کیا کہ کیوں ہم کو آج بھی اتنی بنیادی باتیں کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے تو انہوں کہا، ”ہمارے سماج کی ذہنی سطح کو دیکھتے ہوئے یہ ٹھیک لگتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ بنیادی مسائل سمجھانے کی ضرورت ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ کام اپنے ذمے لیا ان کی سمجھ بوجھ کیسی ہے اور انہوں نے یہ کام کتنی اچھی طرح کیا۔ “
یقیناً یہ فلسفیانہ، علمی اور ادبی باتیں نہیں ہیں اور ہوں بھی کیسے اور کن سے؟ ان پی ایچ ڈی افراد سے جو یرقان کے علاج کے لئے کسی بابے سے جھڑواتے ہیں۔ یا ان سائنسدانوں سے جن کو آئے دن ناف ٹل جانے کی شکایت رہتی ہے۔ جب یونیورسٹی پروفیسرز کو اپنے ہی گھر میں ڈومیسٹک ہیلپ کے لیے آنے والی خاتون، عرفِ عام میں ماسی یا کام کرنے والی، تک کی نظرِ بد لگ جایا کرتی ہو تو اتنی بیسک باتیں ہی کرنی پڑتی ہیں، تاکہ شاید ان تاریک ذہنوں میں کوئی ہلچل ہو، تجسس کی کوئی کرن پُھوٹے، کوئی سوال روشن ہو۔ پھر دامن پر کیچڑ لگ جانے کا خوف پیچھے چھوڑ کر اس بلبلے سے باہر ریالٹی کی کیچڑ میں اتر کے کنول کے پھول اگانے ہی پڑیں گے — اس امید پر کہ آنے والے کل میں ہم ادب، فلسفے اور آرٹ سے intellectual orgasm کے مزے لے سکیں، فی الحال تو ہم intellectual impotency کا شکار ہیں۔