امریکہ میں حال ہی میں جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں غیر ملکی طلبا اور طالبات کے اندارج میں سات فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
یہ مسلسل دوسرا سال ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں غیر ملکی طلباء اور طالبات کے داخلوں میں کمی ہو رہی ہے اور اس وجہ سے گزشتہ سال امریکی معیشت کو مجموعی طور پر بیالیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
اوکسفورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی طلبہ کے رجحانات کے ماہر پروفیسر سمسن مارگنسن نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کمی کا تعلق ٹرمپ انتظامیہ سے ہے۔
سیاسی ماحول
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن جو اس بارے میں ہر سال اعداد و شمار اکھٹا کرتے ہیں انھوں نے بیرونی ملکوں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند افراد سے امریکہ میں داخلوں کے لیے درخواستیں نہ دینے کے بارے میں پوچھا تو ان کی طرف سیاسی ماحول، عملی مشکلات اور اخراجات جیسی کئی وجوہات بیان کی گئیں۔
ویزا درخواستوں میں دشواریاں امریکہ میں داخلے نہ لینے کی سب سے بڑی وجہ بیان کی گئی لیکن اکثر لوگوں نے امریکہ میں سماجی اور سیاسی ماحول کے بارے پائی جانے والی تشویش کو بھی بڑی رکاوٹ قرار دیا۔
تعلیمی اخراجات کا بھی اس ضمن میں ذکر کیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ میں غیر موافق ماحول کے علاوہ جان کے تحفظ کے بارے میں خدشات کا بھی لوگوں نے برملا اظہار کیا۔
جن ملکوں سے امریکہ جانے والے طلباء اور طالبات کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے ان میں انڈیا، جنوبی کوریا، میکسیکو اور سعودی عرب شامل ہیں۔
لیکن یہ رجحان مغربی ملکوں کے طلبہ میں بھی دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے امریکہ کے اتحادی ملک بھی شامل ہیں۔
جو عنصر اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ واضح ہے وہ گزشتہ چند دہائیوں سے دنیا بھر سے امریکہ جا کر تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ اب گرنے لگا ہے۔
سافٹ پاور:
دنیا بھر سے اعلی تعیلم حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کو اپنی طرف راغب کرنے میں امریکہ اب تک سب سے زیادہ کامیاب ملک رہا ہے۔
ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں امریکہ میں بین الاقوامی طلبہ کی تعداد صرف پچاس ہزار تھی۔ اس کے بعد سے اس تعداد میں سال با سال اضافہ ہوتا رہا اور سنہ 2000 تک اس میں دس گنا اضافہ ہو گیا اور یہ تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔
سنہ 2015 میں امریکہ میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
اس سے امریکہ کو قابل قدر مالی فائدہ بھی حاصل ہو رہا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی اس کو دنیا بھر میں اپنا ایک روشن چہرا پیش کرنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں بھی بڑی حد تک مدد حاصل ہو رہی تھی۔
امریکہ میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد اس وجہ سے بھی مسلسل بڑھ رہی تھی کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد غیر ملکی طلبہ کو تین برس تک امریکہ میں رہ کر پیشہ وارانہ تجربہ اور ماہرات حاصل کرنے کا موقع بھی ایک خصوصی سکیم کے تحت میسر تھا۔
چین پر انحصار
غیر ملکی طلبہ کے اندراج میں گزشتہ دو برس میں دس فیصد کی قابل تشویش کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں تک امریکہ کی کشش اب ماند پڑ رہی ہے۔
اگر چین سے آنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ نہ ہو رہا ہوتا تو یہ کمی اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی۔ اس وقت امریکہ میں چینی طلبہ کی تعداد باقی تمام ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔
سنہ 2000 سے سنہ 2018 کے درمیان چین سے امریکہ پڑھنے والوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے بڑھ کر تین لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ گئی اور جن مضامین میں چینی طلبہ سب سے زیادہ داخلے لے رہے ہیں ان میں سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی اور بزنس شامل ہیں۔ ان کی وجہ سے ہر سال اربوں ڈالر امریکہ کی معیشت میں شامل ہو رہے ہیں۔
سینٹر فار گلوبل ہائر ایجوکیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر مارگینسن نے کہا کہ اگر سفارتی اور تجارتی تنازعات حل نہیں کیے جاتے اور ان کی وجہ سے چین سے امریکہ آنے والے طلبہ کا سلسلہ رک جاتا ہے تو اس کے امریکی اعلی تعلیمی اداروں پر بڑے تباہ کن اور دو رس اثرات مرتبہ ہونے کا خدشہ ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کو داخلے دینے کے بارے میں امریکی تعلیمی اداروں کا مغربی ملکوں کی بجائے مشرقی ملکوں پر کس قدر زیادہ انحصار ہے۔
چین اور انڈیا دو ایسے ملک ہیں جن کی طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور میں امریکہ میں پڑھنے والوں برطانیوں کے مقابلے میں ایرانیوں کی تعداد زیادہ ہے۔
یورپ کے تمام ملکوں کی بنسبت برطانیہ سے سب سے زیادہ نوجوانوں پڑھنے کے لیے امریکہ جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ میں غیر ملکی طلبہ میں برطانوی طلبہ کی شرح ایک فیصد ہے۔