یہ ضلع قلعہ سیف اللہ میں پشتون تحفظ مومنٹ ( پی ٹی ایم ) کے پہلے شہید پروفیسرابراہیم ارمان لونی کا جنازہ تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ جنازہ ریاست کے جبر واستحصال اور ریاستی اداروں کے مبینہ ماورائے عدالتی قتلوں کے خلاف پشتون عوام کا ایک ریفرنڈم (Referendum) تھا۔ شاید اسی ریفرنڈم کو ناکام بنانے کی غرض سے ریاست کے تمام اداروں نے اسی روز پورے دن حواس باختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کے پشتون اضلاع کو ملانے والی سڑکوں کو ہر قسم کی آمدورفت کے لئے صبح سے شام تک بند کردیا تھا۔ جگہ جگہ ایف سی چیک پوسٹوں پر سینکڑوں کی تعداد میں ایف سی، پولیس اور لیویز کے اہلکار تعینات کرکے تمام پشتون علاقوں کو نو گو ایریا بنایا گیا تھا۔
لیکن ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود نہ صرف کوئٹہ، چمن، پشین، لورالائی، موسیٰ خیل، شیرانی اور ژوب سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس جنازے میں شریک ہوئے بلکہ پی ٹی ایم کی چوٹی کے رہنما منظورپشتین، ایم این اے علی وزیر، ایم این اے محسن داوڑ، ڈاکٹر سیدعالم محسود، عبداللہ ننگیال اور ثناء اعجاز نے بھی ان رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اس جنازے میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔ پروفیسرابراہیم ارمان لونی کو ہفتے کی شام ضلع لورالائی کے عین وسط میں پبلک لائبریری کے سامنے اس وقت پولیس نے شہید کر دیا جب وہ لورالائی میں پے درپے رونما ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے خلاف تین روزہ دھرنے کو ختم کر چکے تھے۔
ارمان لونی کے قریبی ساتھی محب اللہ شیراز اور دیگردوستوں کے مطابق ”اسی دن شام کودھرنے کے اختتام پر ارمان ا ن کے ساتھ ایک پارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں پر بھی پولیس کی طرف سے ان کے چند ساتھیوں کو گرفتاری دینے کا کہا گیا۔ بعد میں جب وہ وہاں سے نکلے تو راستے میں پولیس نے ایک طے شدہ پلان کے تحت پہلے ان کو گاڑی میں ڈالنے کی کوشش کی تاہم بعد میں ارمان پر حملہ آور ہو کر انتہائی بے دردی کے ساتھ کلاشنکوفوں کے بٹ مار مار کرشہید کردیا“۔ وہاں کے کئی دیگرعینی شاہدوں کے مطابق پولیس کے اس حملے میں سپرانٹنڈنٹ پولیس عطا الرحمان ترین بھی شامل تھے جنہوں نے خود بھی ارمان لونی کے اوپر خوب تشدد کیا اور بعد میں دوسرے پولیس اہلکاروں کو بھی بتا دیا کہ ”یوں“۔
کہا جاتا ہے کہ بیہوشی کی حالت میں پڑے ارمان کو جب ان کے ساتھیوں نے مقامی ہسپتال لے جانے کی کوشش کی تو اس وقت بھی پولیس کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تاکہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ان کی زندگی کی رہی سہی رمق بھی باقی نہ رہے”۔ ارمان لونی کی شہادت کی خبر بریک ہونے کے بعد پولیس کی طرف سے ایک بے بنیاد اور بھونڈا دعویٰ یہ بھی کیا گیا کہ “مقتول کی موت پولیس تشدد سے نہیں بلکہ دل کے دورے سے واقع ہوئی ہے ”۔ ارمان لونی کی میت کی کوئٹہ میں پوسٹ مارٹم بھی کروائی گئی جس کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی ہے تاہم ان کی بہن وڑانگہ لونئی نے کہاہے کہ انہوں نے پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھی ہے جس سے ان کویہ اندازہ ہوا ہے کہ ان کے بھائی کی موت دل کے دورے سے نہیں بلکہ سر پر کاری چوٹ آنے سے واقع ہوئی ہے۔
ضلع زیارت کی تحصیل سنجاوی کے لونی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ابراہیم ارمان لونی نے غالباً 1983 کو سنجاوی میں محمد اسماعیل لونی کے ہاں آنکھ کھولی۔ ایک غریب اور مفلس خاندان کا چشم وچراغ ہونے کے ناطے ارمان نے بچپن ہی میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کے لئے بھی کمر کس لی۔ وہ کبھی تو خیاطی اور ڈرائیونگ کے پیشے سے منسلک رہتے اور کبھی کوئلے کی کانوں میں معمولی تنخواہ پر بطور منشی کام کرتے۔ لیکن جفاکشی کا یہ عالم تھاکہ انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو کبھی منقطع نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ ایک وقت بلوچستان یونیورسٹی سے پشتو ادبیات میں ماسٹر کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ غریب مگر بامروت ارمان لونی پر قسمت کی دیوی اس وقت مہربان ہوئی جب سنہ 2012 میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے وہ راقم سمیت کالج میں پشتو لکچرر تعینات ہوئے۔ ادب اور شعر وشاعری سے منسلک رہنے کے ساتھ ساتھ ارمان لونی پشتونخواملی عوامی پارٹی کے ایک فعال رکن بھی رہے تاہم گزشتہ سال پشتون تحفظ مومنٹ کے قیام کے بعد انہوں نے مذکورہ تحریک کو بھی جوائن کیا۔ گویا بیک وقت وہ اپنی قوم کی آسودگی و ترقی کے لئے تین محاذوں پر سرگرم رہے، ایک طرف ادبی تنظیم پشتون مترقی لیکوال کے صوبائی سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کرتے رہے دوسری طرف پشتونخوامیپ کے سرگرم کارکن تھے اور تیسری جانب پچھلے سال سے پشتون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم ) کے جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں میں بھی شب وروز مصروف عمل رہے۔
پی ٹی ایم کے لئے ان کی خدمات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ اس تحریک کا شاید ایسا جلسہ، دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ ہو جس میں ارمان لونی نے شرکت نہ کی ہو۔ کراچی سے لے کر کوئٹہ، پشاور، وزیرستان تک اور اسلام آباد سے لاہور تک کے سبھی پروگراموں میں ارمان نے ایک منتظم اور خادم کے طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پی ٹی ایم کی کور کمیٹی کے رکن تو رہے لیکن اسٹیج پر آنے اور خدمات کا سہرا اپنے سر باندھنے سے وہ آخر ی لمحے تک کنارہ کش رہے۔محمد حسین
پی ٹی ایم میں ان کا دوسرا اور قابل ستائش کارنامہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے جنوبی پشتونخوا میں پہلی مرتبہ قبائلی روایات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اپنی بہن ”وڑانگہ لونئی“ کو بھی اس تحریک کا روح رواں بنادیا۔ وڑانکہ اب نہ صرف ارمان لونی کی بہن تھیں بلکہ ایک وفادار ہمسفر اور ساتھی کی طرح وہ ان کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں اور پی ٹی ایم کے دھرنوں اور جلسوں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی تھیں۔ ریاستی جبراورپولیس تشدد کی بھینٹ چڑھنے والے ارمان لونی بے شک اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پی ٹی ایم کو الوداع کہہ گئے۔
ان کا ہنس مکھ چہرہ اور خوش گپیاں نہ تو اب مشاعروں میں نظر آئیں گے اور نہ ہی وہ کوئٹہ یا قلعہ سیف اللہ کے کسی ڈگری کالج میں پشتو ادب کے لیکچرز دے سکیں گے۔ مگر ان کی شہادت پی ٹی ایم کے وجودکو زندہ ارمان لونی سے کہیں زیادہ غذا اور قوت فراہم کرے گی۔ ان کو شہید کرنے والے شاید رستہ کٹنے کے زعم میں مبتلا ہوں گے لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ منزل کھو رہے ہیں۔